نظم آب رواں کی تشریح

0
  • کتاب “سب رنگ” برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر06:نظم
  • شاعر کا نام: اکبر الہ آبادی
  • نظم کا نام:آب رواں

تعارف شاعر:

اکبرالہ آبادی کا پورا نام سید اکبر حسین رضوی تھا۔ وہ قصبہ بارہ ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ پہلے مکتب اور پھر جمنامشن اسکول میں داخل ہوئے۔ مختاری کا امتحان پاس کیا اور ترقی کر کے 1892 میں حج ہوئے۔انھیں خان بہادر کے خطاب سے نوازا گیا۔

اکبرکوشاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ انھوں نے ابتدائی دور میں روایتی انداز کی غزلیں کہیں۔ مگر انھیں جلد اندازہ ہو گیا کہ اصلاحی شاعری ہی وقت کا تقاضا ہے اس لیے انھوں نے اصلاحی شاعری کو اصلاح قوم کے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ انگریزی تعلیم کے منفی اثرات اور انگریزی تہذیب کی اندھی تقلید پر بھر پورطنزیہ وار بھی کیے۔ اکبر طنز یہ اور مزاحیہ شاعری میں الگ پہچان رکھتے ہیں ۔ انھوں نے عام فہم زبان کو دل آویز اورفن کارانہ انداز میں استعمال کیا ہے۔ انگریزی الفاظ سے بھی خوب فائدہ اٹھایا ہے۔

نظم آب رواں کی تشریح:

اچھلتا ہوا اور ابلتا ہوا
اکڑتا ہوا اور مچلتا ہوا
پہاڑوں پہ سر کو پٹکتا ہوا
چٹانوں پہ دامن جھٹکتا ہوا

یہ اشعار ” اکبر الہ آبادی” کی نظم ” آب رواں” سے لیے گئے ہیں۔ ان اشعار میں شاعر دریا کے پانی اور اس کی روانی کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پانی تیزی سے ابلتا ہوا اور اچھلتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔اس کے انداز میں مچلنے کی طرز کی شوخی اور اکڑ موجود ہے۔ یہ پہاڑوں پہ سر کو پٹکتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور راستے پر آنے والی چٹانوں سے اس کا ٹکرانے کا انداز ایسا ہے کہ جیسے یہ ان پر اپنے دامن کو جھٹک رہا ہو۔

وہ پہلوئے ساحل دباتا ہوا گاتا ہوا
یہ سبزے پر چادر بچھاتا ہوا
وہ گاتا ہوا اور بجاتا ہوا
یہ لہروں کو پہیم نچاتا ہوا

شاعر ان اشعار میں پانی کی روانی کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ پانی کنارے سے لگے مسلسل اس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے کہ جہاں سے اس کا گزر ہے وہاں ہریالی ہوتی جا رہی ہے زمین پر ایک سبزے کی چادر بجھتی جا رہی ہے۔ یہ پانی اپنی روانی میں گاتا بجاتا آگے بڑھ رہا ہے اور اس کی لہریں مسلسل ایک سفر میں اچھل کود کرتی چلی آرہی بھپرتا ہوا جوش کھاتا ہوا۔

بگڑ کر وہ کف منہ میں لاتا ہوا
وہ اونچے سروں میں تموج کا راگ
وہ خود جوش میں آ کے لانا یہ جھاگ

ان اشعار میں شاعر پانی کی روانی کو بیان کرنے ہوئے کہتا ہے کہ یہ پانی اس تیزی سے مچل کر آ رہا ہے کہ اس کی تیزی غصے کا انداز لیے ہوئے ہے۔ اس پانی کی تیزی کی وجہ سے اس پر بننے والا جھاگ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ جھاگ تیزی کی بجائے پانی کے بھپرنے اور اس کے غصے کا ہے۔ پانی کی تیزی رفتاری کی وجہ سے اس سے اونچی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ جیسے جیسے پانی کی تیزی اس میں مزید جوش لاتی ہے ایسے ہی اس کی سطح پر جھاگ میں اضافہ ہوتا ہے۔

وہ روئے زمیں کو چھپاتا ہوا
وہ خاکی کو سیمیں بناتا ہوا
گل و خار یکساں سمجھتا ہوا
ہر اک سے برابر الجھتا ہوا

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ یہ پانی ہر چیز پر حاوی ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے زمین اس کے تلے چھپتی جارہی ہے۔خاکی زمین کو یہ اپنی روانی سے چاندی جیسا بناتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے سامنے پھول اور کانٹے سب برابر ہیں اور یہ ان میں کوئی امتیاز کیے بغیر ہر ایک سے برابر الجھتا آگے بڑھ رہا ہے۔

بہاتا ہوا اور بہتا ہوا
ہوا کے طمانچوں کو سہتا ہوا
بلندی سے گرتا گراتا ہوا
نشیبوں میں پھرتا پھراتا ہوا

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ یہ پانی اپنے ساتھ کئی طرح کی چیزوں کو بہاتا ہوا آگے بڑھتا چلا آرہا ہے اور اس کے ساتھ بہت کچھ بہتا ہوا بھی چلا آ رہا ہے۔ یہ پانی اپنے مخالف چلنے والی ہوا کے تھپیڑوں کو بھی سہتا ہوا بڑھ رہا ہے یہ بلندی سے بھی گر رہا ہے اور ڈھلان میں سے بھی گزرتا ہوا آرہا ہے۔

وہ کھیتوں میں راہیں کترتا ہوا
زمینوں کو شاداب کرتا ہوا
یہ تھالوں کی گودوں کو بھرتا
وہ دھرتی پہ احسان دھرتا ہوا

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ یہ پانی کھیتوں کے راستوں میں سے ہوتا ہوا آرہا ہے اس لیے یہ ان کھیتوں کا راستہ بھی کاٹ رہا ہے۔ یہ زمین کوہرابھرا کرتا ہوا آرہا ہے۔ زمین میں موجود گڑھوں کی گود بھی اسی پانی کی مدد سے بھر رہی ہے۔اپنے تیئں یہ پانی زمین پر احسان کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔

چمکتا ہوا اور جھلکتا ہوا
سنبھلتا ہوا اور چھلکتا ہوا
ہواؤں سے موجیں لڑاتا ہوا
خیالوں کی فوجیں بڑھاتا ہوا

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ یہ پانی چمکتا ، جھلکتا، سنبھلتا اور چھلکتا ہر طرح کی آزمائش سے گزرتا ہوا تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ ہوائیں سے ایک طرح سے خیالی فوجی لڑائی لڑتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔

یونہی الغرض ہے یہ پانی رواں
بس اب دیکھ لیں شاعر نکتہ داں

آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مختصر یہ کہ یہ پانی یوں ہی رواں دواں آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ بس اب اس کی روانی کو شاعر حضرات جیسے باریک اور نکتہ دان لوگوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سوچیے اور بتائیے:-

اس نظم میں پانی کوکن مقامات سے گزرتے ہوۓ دکھایا گیا ہے؟

اس نظم میں پانی کو پہاڑ،دامن،سبزے، گل و خار، بلندی ،نشیب اور کھیت وغیرہ سے گزرتے دکھایا گیا ہے۔

یہ سبزے پہ چادر بچھا تا ہوا اس کا کیا مطلب ہے؟

سبزے پہ چادر بچھاتا ہوا سے مراد ہے کہ یہ پانی سر سبز میدانوں کو روندتا ہوا آگے بڑھا ہے۔

خاکی کو سیمیں بنانے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

خاکی کو سیمیں بنانے سے شاعر کی مراد ہے بنجر اور خالی زمین کو سر سبز و شاداب بنا دینا کہ وہ زمین چاندی جسی اجلی لگنے لگے۔

ان لفظوں کی نشاندہی کیجیے جن کے اتار چڑھاؤ سے شاعر نے پانی کے بہنے کا احساس پیدا کیا ہے؟

مچلتا، جھٹکتا، گاتا بجاتا،جھلکتا، سنبھلتا، بلندی سے گرتا ،نشیبوں میں پھرتا وغیرہ۔

شاعر نے یہ کیوں کہا کہ دریا دھرتی پہ احسان دھرتا ہے؟

جب یہ دریا گالی گڑھوں کی گودوں کو بھرتا ہے تو شاعر نے اس عمل کو اس کا دھرتی پر احسان کہا ہے۔