Advertisement
Advertisement

نظم برکھا رت کی تشریح

گرمی کی تپش بجھانے والی
سردی کا پیام لانے والی
وہ سارے برس کی جان برسات
وہ کون خدا کی شان برسات

یہ اشعار الطاف حسین حالی کی نظم ”برکھا رت“ سے لیے گئے ہیں۔شاعر ان اشعار میں گرمی کی شدت کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب جلد ہی گرمی کی تپش بجھنے والی ہے اور موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی سردی کا پیام آ جائے گا۔ یہ موسم کی تبدیلی کچھ اور نہیں بلکہ پورے سال کی جان موسم برسات ہے۔یہ موسم اللہ کی شان ہے۔

Advertisement
آئی ہے بہت دعاؤں کے بعد
وہ سیکڑوں التجاؤں کے بعد
وہ آئی تو آئی جان میں جاں
سب تھے کوئی دن کے ورنہ مہماں

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ یہ موسم بہت دعاؤں کے بعد آیا ہے اور بہت سی دعاؤں اور التجاؤں کی دین ہے یہ موسم۔ برسات کے آنے سے سب کی جان میں جان آئی ہے۔ ورنہ گرمی کی شدت کچھ ایسی تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سب کچھ پل کے مہمان ہوں اور یہ گرمی ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو گی۔

تھی لوٹ سی پڑ رہی چمن میں
اورآگ سی لگ رہی تھی بن میں
تھیں لومڑیاں زباں نکالے
اور لو سے ہرن ہوئے تھے کالے

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے باغ میں ایک لوٹ سی پڑ چکی تھی۔ اور پورے باغ کی حالت یوں تھی کہ جیسے اس میں آگ لگی ہوئی ہو۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے لومڑیاں بھی بے سدھ ہو کہ زبان باہر نکالے ہوئے تھیں۔ شدید لو کی وجہ سے ہرنوں کا رنگ بھی کملا گیا تھا اور وہ کالے ہو چکے تھے۔

Advertisement
چیتوں کو نہ تھی شکار کی سدھ
ہرنوں کو نہ تھی قطار کی سدھ
ڈھوروں کا ہوا تھا حال پتلا
بیلوں نے دیا تھا ڈال کندھا

گرمی کی شدت ایسی تھی کہ چیتوں کو بھی اس نے بے حال کیا ہوا تھا اور انھیں یہ ہوش تک نہ تھی کہ انھیں شکار بھی کرنا ہے۔ ہرنیں بھی ویسے ہی گھوم پھر رہی تھیں انھیں اپنی قطار بندی کا خیال تک نہ تھا۔ سب جانوروں کی گرمی کی وجہ سے حالت خراب ہو چکی تھی۔ بیلوں نے بھی خود کو ڈھیلا ڈھال کر چھوڑ دیا تھا۔

Advertisement
گھوڑوں کا چھٹا تھا گھاس دانہ
تھا پیاس کا ان پہ تازیانہ
رستوں میں سوار اور پیدل
سب دھوپ کے ہاتھ سے تھے بے کل

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اس گرمی نے دیگر جانوروں کی طرح گھوڑوں کو بھی اثر انداز کیا تھا اور ان کی خوراک دانا بھی چھوٹ چکا تھا۔انھیں محض پیاس ہی ستاتی تھی اور راستے کے مسافر خواہ وہ سوار ہوں یا پیدل سبھی گرمی اور دھوپ کی شدت سے بے سدھ ہو چکے تھے۔

پنکھے سے جو نکلتی ہو اتھی
وہ بادسموم سے سوا تھی
سات آٹھ بجے سے دن چھپے تک
جانداروں پہ دھوپ کی تھی دستک

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اس گرمی میں واحد سہارا پنکھے کی ہوا تھی مگر پنکھے کی ہوا کا بھی عجب رنگ تھا۔ وہ ٹھنڈی ہر گز نہ تھی بلکہ اس کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔ صبح سات،آٹھ بجے سے شام دن چھپنے تک تمام جانداروں پہ دھوپ کا سایہ بنا رہتا تھا۔

Advertisement
بازار پڑے تھے سارے سنسان
آتی تھی نظر نہ شکل انسان
چلتی تھی جن کی دوکان دن رات
بیٹھے تھے وہ ہات پہ دھرے ہات

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ گرمی نے جہاں جانوروں کو بے سدھ کر رکھا تھا وہی حال انسانوں کا بھی تھا کہ بازار سنسان پڑے تھے یہاں تک کہ کسی انسان کی شکل تک نہیں دکھائی دیتی تھی۔ وہ لوگ جن کی دوکان دن رات چلتی تھی اس گرمی میں وہ بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے تھے کہ کسی گاہک کا گزر نہ تھا۔

بچوں کا ہوا تھا حال بے حال
کملائے ہوئے تھے پھول سے گال
ہر بار پکارتے تھے ماں کو
ہونٹوں پہ تھےپھیرتےزبان کو

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے اس گرمی نے بچوں کو بھی بے حال کر چھوڑا تھا ان کے پھولوں جیسے گال گرمی کی شدت سے کملا کر رہ گئے تھے۔ وہ بار بار اپنی ماؤں کو پکارتے تھے اور اپنی زبان اپنے ہونٹوں پہ پھیر رہے تھے۔

پانی دیا گر کسی نے لا کر
پھر چھوڑتے تھے نہ منھ لگا کر
بچے ہی نہ پیاس سے تھے مضطر
تھا حال بڑوں کا ان سے بدتر

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اگر ان بچوں کو کوئی پانی لاکر دیتا تو وہ اسے منھ سے لگانے کء بعد پھر اس گلاس کو نہیں چھوڑ پا رہے تھے۔ اس گرمی میں پیاس سے صرف بچے بے چین نہیں تھے بلکہ بڑوں کا حال ان سے بھی بدتر تھا۔

کل شام تلک تو تھے یہی طور
پر رات سے ہی سماں ہے کچھ اور
برسات کا بج رہا ہے ڈنکا
اک شور ہے آسماں پہ بر پا

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ کل شام تک گرمی کے یہی حالات تھے۔مگر رات سے اس منظر میں کچھ تبدیلی رونما ہوئی۔ برسات کی آمد کا اعلان ہونے لگ گیا۔ آسمان پر بادل اپنا احساس دلا رہے تھے اور ایک مسلسل شور برپا تھا۔

Advertisement
مینھ کا ہے زمین پر در بڑا
گرمی کا ڈبو دیا ہے بیڑا
بجلی ہے کبھی جو کوند جاتی
آنکھوں میں سے روشنی سی آتی

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ بادلوں کی آمد سے زمین پہ مینھ کا ایک راستہ کھل گیا۔ اس بارش نے برستے ہی گرمی کا بیڑا ڈبو کر غرق کر دیا۔ بجلی تھی جو آسمان پہ کوند رہی تھی اور اس کے چمکنے سے آنکھوں میں بھی اس موسم کی ایک چمک سی جاگ اٹھتی تھی۔

گھنگھور گھٹائیں چھارہی ہیں
جنت کی ہوائیں آرہی ہیں
کوسوں ہے جدھر نگاہ جاتی
قدرت ہے نظر خدا کی آتی

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اب ہر طرف آسمان پہ گہرے کالے بادل چھا رہے تھے۔ ہر جانب سے یوں ٹھنڈی ہو اآرہی تھی کہ جیسے جنت کی ہوا ہو۔ دور دور تک جہان نگاہ جاتی تھی اللہ کی قدرت اپنے جلوے بکھیرے دکھائی دے رہی تھی۔

پھولوں سے پٹے ہوئے ہیں کہسار
دولھا سے بنے ہوۓ ہیں اشجار
پانی سے بھرے ہوۓ ہیں جل تھل
ہے گونج رہا تمام جنگل

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ تمام پودے باغ پھولوں سے لہلہا اٹھے تھے۔ درخت دولہے کی طرح نکھرے اور خوبصورت دکھائی دے رہے تھے۔ پانی سے ہر جانب جل تھل ایک ہو چکا تھا۔ اور پورے جنگل سے خوشی کی صدائیں اٹھ رہی تھیں۔

Advertisement
کرتے ہیں پہیے پہیو پہیو
اور مور چنگھاڑتے ہیں ہر سو
کوئل کی ہے کوک جی لبھاتی
گویا کہ ہے دل میں بیٹھی جاتی

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ موسم کی خوبصورتی یہ تھی کہ پہیوں کی پہیو پہیو کی آوازیں ہر جانب سنائی دے رہی تھیں جبکہ مور خوشی سے چنگھاڑ رہے اور کوئل کی خوبصورت کوک دل کو بھلی لگ رہی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے یہ کوک دل میں بیٹھ رہی ہو۔

مینڈک جو ہیں بولنے پر آتے
سنسار کو سر پہ ہیں اٹھاتے
ابر آیا ہے گھر کے آسماں پر
کلمے ہیں خوشی کے ہر زباں پر

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اس برسات کے موسم میں مینڈکوں نے جو بولنا شروع کیا تو گویا انھوں نے پوری بستی کو سر پہ اٹھا لیا۔ گھر کے آسمان پہ جو بادل آیا تو ہر ایک کی زبان سے خوشی کے کلمات جاری ہو گئے۔

دنیا میں بہت تھی چاہ تیری
سب دیکھ رہے تھے راہ تیری
گلشن کو دیا جمال تو نے
کھیتی کو کیا نہال تو نے

ان اشعار میں شاعر برسات کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ جب کو تمھاری بہت چاہت تھی اور سب نجانے کب سے تمھاری راہ تک رہے تھے۔ جیسے ہی برسات کی آمد ہوئی اس نے باغ کو بھی خوبصورتی عطا کی اور کھیتوں کو بھی خوشی اے نہال کر دیا۔

Advertisement
طاؤس کو ناچنا بتایا
کوئل کو الاپنا سکھایا
دریا تجھ بن سک رہے تھے
اور بن تری راہ تک رہے تھے

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کے آنے سے مور نے باغ میں ناچنا سکھایا اور کوئل اپنے راگ بولنے سکھائے۔ برسات کے بنا دریا بھی یوں چل رہے تھے کہ جیسے سسک رہے ہوں اور جنگل برستا کی آمد کی راہ دیکھ رہے تھے۔

Advertisement
دریاؤں میں تونے ڈال دی جان
اور تجھ سے بنوں کو لگ گئی شان
جن پودوں کو کل تھے ڈھور چرتے
باتیں ہیں وہ آسماں سے کرتے

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اے برسات دریاؤں میں جان بھی تم ہی نے ڈالی ہے اور تمھارے ہی دم۔سے جنگلوں کی شان لوٹ آئی ہے۔ وہ پودے جنھیں کل تک جانور بھی چرنا پسند نہیں کرتے تھے آج ان کی بڑھوتری اتنی ہے کہ وہ آسمان سے باتیں کرنے لگ گئے ہیں۔

جن باغوں میں اڑتے تھے بگولے
وہاں سینکڑوں اب پڑے ہیں جھولے
تھے ریت کے جس زمین پر انبار
ہے بیر بہوٹیوں سے گلنار

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ وہ باغ جن میں دھول مٹی کے بگولے اڑا کرتے تھے وہاں پہ اب کئی طرح کے جھولے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ زمین جس پہ ریت کے ڈھیر لگ چکے تھے وہاں اب رنگ رنگ کی بوٹیوں نے نکل کر اس زمین کو نکھار دیا ہے۔

سوالات:

برسات سے پہلے سب کا کیا حال تھا؟

برسات سے پہلے جانور،چرند پرند ، انسان اور بچے سب گرمی سے بے حال تھے۔ جانور اپنے شکار کو بھول کر گرمی میں بے سدھ تھے۔ جبکہ بچوں اور بڑوں کی پیاس تک نہ بجھتی تھی۔ بازار میں گلیاں سنسان پڑی تھیں۔

بارش ہونے سے جنگل میں کیسی بہار آئی ہے؟

بارش ہونے سے جنگل میں سب کچھ نکھر گئی۔ باغوں میں پھول آگئے۔ درخت دولہے کی طرح نکھر گئے۔ جبکہ چرند پرند خوشی سے لہکنے لگے۔ کوئل کی کوک، مور کی چنگھاڑ اور مینڈک ٹرٹع سے سب کچھ گونج اٹھا۔

باغوں میں کیا سماں ہے؟

باغوں میں خوشی اور بہار کا سماں ہے۔ ہر جانب ہریالی ہے۔ باغوں میں پھول کھلے ہیں کوئل راگ الاپ رہی ہے۔

Advertisement

پرندوں پر برسات کا کیا اثر ہوا؟

پرندے برسات کی آمد پہ خوشی سے چہکںے لگے۔

Advertisement