نظم ایک کمرہ امتحان میں کی تشریح، سوالات و جوابات

نظم ایک کمرہ امتحان میں کی تشریح

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں

یہ بند “امجد اسلام امجد” کی نظم “ایک کمرہ امتحان میں” سے لیے گئے ہیں۔ اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہم جب حالتِ امتحان میں ہوتے ہیں خواہ وہ زندگی کا امتحان ہی کیوں نہ ہو ہم اپنے پرچے کو ایک بے نگاہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ہمارے ہاتھوں کی کیفیت بے خیال ہوتی ہے۔ہم اس امتحان میں ان جان سے لفظوں پہ اپنی انگلیاں گھماتے ہیں۔یا پھر ان سوالات کے جوابات نہ پا کر اس پرچے کو دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔

ہر طرف کنکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے
بے نشاں جوابوں کا کچھ پتہ ہی مل جائے
مجھ کو دیکھتے ہیں تو
یوں جواب کاپی پر حاشیے لگاتے ہیں
دائرے بناتے ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہم اس پرچے کو دیکھتے ہوئے آنکھیں چرانے لگتے ہیں اور آنکھیں چراتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ دوسروں کا پرچہ ہماری رہنمائی کر دے گا اور ممکن ہے ہمیں کوئی راستہ مل جائے یہاں ہمارے بے نشان جوابات کا پتہ چل جائے۔لیکن وہ لوگ مجھے دیکھ کر جوابی کاپی پی حاشیے لگانے لگ جاتے ہیں محض دائرے بناتے ہیں۔شاعر نے اس بند میں جس امتحان کا ذکر کیا ہے وہ زندگی کا امتحان ہے۔جہاں ہم کسی نہ کسی سے کچھ نہ کچھ نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہماری رہنمائی ان کے ذریعے ممکن نہیں ہو سکتی۔

جیسے ان کو پرچے کے سب جواب آتے ہیں
اس طرح کے منظر میں
امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا
نقل کرنے والوں کے
نت نئے طریقوں سے
آپ لطف لیتا تھا دوستوں سے کہتا تھا
کس طرف سے جانے یہ
آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے
سیکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے انھیں پرچے کے جواب آتے ہیں امتحان گاہ میں ایسے کئی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔لیکن میں امتحان گاہ میں نقل کرنے والوں کے نت نئے طریقے دیکھتا رہتا تھا۔میں ان طریقوں سے لطف اندوز تو ہوتا ساتھ ہی ساتھ دوستوں کو بھی بتاتا لیکن آج دل میں ایک خیال آیا اور ساتھ ہی ان سینکڑوں طرح کے سوالات کا جواب بھی سامنے آگیا۔

وقت کی عدالت میں
زندگی کی صورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوال نامہ ہے
کس نے یہ بنایا ہے
کس لئے بنایا ہے
کچھ سمجھ میں آیا ہے
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ہیں سب سوال مشکل ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس سوالنامے کے تمام سوال چونکہ زندگی سے مطلق ہیں اور یہاں ہمیں جس عدالت میں ہر وقت پیش ہونا پڑتا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ وقت ہی کی عدالت ہے۔اب اس سوالنامے کو توجہ سے پڑھو تو یہ تمام سوالات تمھاری سمجھ میں آ سکیں گے کہ یہ کس لیے اور کیوں بنایا گیا اور زندگی کے اس پرچے کی ایک اور اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں سبھی سوالات لازم اور مشکل ہیں کہ زندگی میں کسی بھی طرح کا کوئی بھی امتحان یا پریشانی آئے آپ اس کو چھوڑ نہیں سکتے اس سے بھاگ نہیں سکتے ہر صورت اس کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں
حاشیے لگاتا ہوں
دائرے بناتا ہوں
یا سوال نامے کو دیکھتا ہی جاتا ہوں

نظم کے آخری بند میں شاعر کہتا ہے کہ لیکن میں اس پرچے کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور بے خیالی میں لفظوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے یا تو محض حاشیے لگاتا اور دائرے بناتا جاتا ہوں یا محض اس سوالنامے کو ہی دیکھتا رہ جاتا ہوں۔

  • مشق:

نظم کے اشعار کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

شاعر نے پرچہ دینے والوں کی کیا کیفیت بیان کی ہے؟

شاعر کے مطابق وہ لوگ ادھر ادھر دوسروں کے پرچوں سے نقل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔وہ لوگ نقل کرنے کے نت نئے طریقے تلاش کرتے ہیں۔

شاعر کو دیکھنے کے بعد پرچہ دینے والوں میں کیا تبدیلی آتی ہے؟

شاعر کو دیکھنے کے بعد وہ جوابی کاپی پی حاشیے لگاتے اور دائرے بناتے ہیں۔

شاعر امتحان گاہوں میں کس چیز سے لطف اندوز ہوتا تھا ؟

شاعر امتحان گاہ میں لوگوں کے نقل کے نت نئے طریقوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

زندگی کے پرچے کے، سب سوال لازم ہیں، سب سوال مشکل ہیں؟” سے شاعر کی کیامراد ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ زندگی کے اس پرچے کی ایک اور اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں سبھی سوالات لازم اور مشکل ہیں کہ زندگی میں کسی بھی طرح کا کوئی بھی امتحان یا پریشانی آئے آپ اس کو چھوڑ نہیں سکتے اس سے بھاگ نہیں سکتے ہر صورت اس کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔

نظم کے آخر میں شاعر نے کن خیالات کا اظہار کیا ہے؟

نظم کے آخری بند میں شاعر کہتا ہے کہ لیکن میں اس پرچے کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور بے خیالی میں لفظوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے یا تو محض حاشیے لگاتا اور دائرے بناتا جاتا ہوں یا محض اس سوالنامے کو ہی دیکھتا رہ جاتا ہوں۔

نظم کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اسی لیے اسے آخرت کی کھیتی کہا گیا ہے ، لہذا ہمیں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ہم ساری زندگی حالتِ امتحان میں ہی رہتے ہیں اور ہمیں ہر لمحہ کسی نہ کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہر مشکل مسئلےاور آزمائش کو اُس کے درست تناظر میں حل کرنا چاہیے۔

مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

رہنما حضور پاک صلی وعلیہ وسلم ہمارے حقیقی رہنما ہیں۔
امتحان گاہ یہ دنیا سب کے لیے ایک امتحان گاہ ہے۔
نت نئے شادی میں نت نئے فیشن کے کپڑے دیکھنے کو ملے۔
سوالنامہ اپنے سامنے ایک طویل سوالنامہ پا کر احمد گھبرا گیا۔
آنگن ہمارے گھر کے آنگن میں خوبصورت پودے ہیں۔
لازم صبح کی سیر بہترین صحت کے لیے لازم ہے۔

مندرجہ ذیل واحد کے جمع اور جمع کے واحد تحریر کیجیے۔

واحد جمع
منظر مناظر
خیال خیالات
سوال سوالات
جواب جوابات
مشکل مشکلات
طرف اطراف
نقل نقول

نظم کو مد نظر رکھتے ہوئے کالم ” کے لیے جو موزوں لفظ ہے اُسے کالم ”ب“ میں سے چن کر کالم “ج” میں تحریر کیجیے۔

الف ب ج
سب سوال عدالت میں آتے ہیں
بے نگاہ آتے ہیں آنکھوں سے
امتحان ہاتھوں سے گاہوں میں
سب جواب طریقوں سے لازم ہیں
بے خیال آنکھوں سے ہاتھوں سے
حاشیے گاہوں سے لگاتے ہیں
نت نئے لگاتے ہیں طریقوں سے
وقت کی لازم ہیں عدالت میں