نظم حسن کوزہ گر کی تشریح

0

ن-م راشد کی نظم حسن کوزہ گر 4 حصوں پر مشتمل نظم ہے۔ یہ نظم آزاد کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے حسن کوزہ گر(کوزے بنانے والا) اور جہاں زاد کی عشقیہ داستان کو بیان کیا ہے۔

نظم حسن کوزہ گر کی تشریح

جہاں زاد نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطار یوسف
کی دکان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
جہاں زاد نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا

یہ بند حسن کوزہ گر کے پہلے حصے سے لیا گیا ہے۔ اس حصے میں شاعر کہتا ہے کہ جہاں زاد جو کہ ایک کوزہ گر ہے اس نے نو سال کے عرصے کے بعد جہاں زاد کو بوڑھے عطار کی دوکان پر صبح کے وقت دیکھا۔اس کی آنکھوں میں وہ تابناکی تھی کہ جس کی حسرت میں وہ نو سال دیوانہ پھرتا رہا۔یہ وہ کیفیت تھی کہ جس کے بعد حسن کوزہ گر کبھی اپنے کوزوں کی جانب پلٹ کر نہ دیکھ سکا۔

وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
حسن کوزہ گر اب کہاں ہے؟
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خدا وند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ کوزے جنھیں میں نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا تھا۔یہ گل اور رنگوں کے ساتھ بنائی گئی ایک بے جان مخلوق تھی۔اب وہ سرگوشیوں میں یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ وہ کوزہ بنانے والا اب کہاں ہے کہ جو خدا بن کر خداؤں کی طرح تخلیق کرتا تھا ہمیں۔اس نے ہم سے سلوک بھی خداؤں جیسا ہی کیا کہ ہمیں بنا کر ہم سے منہ پھیر لیا اور ہماری کوئی خیر خبر نہیں لیتا۔ اور حال تھا بھی ایسا ہی کہ جس مٹی کی خوش بو کا میں دیوانہ تھا،اے جہاں زاد یہ نو سال کا دور مجھ پہ اس طرح گزرا ہے کہ جیسے شہر میں کسی دفن ہوئے شخص پہ گزرتا ہے۔اب تغاروں میں پڑتی مٹی کبھی جس کی خوشبو سے میں واقف تھا اب ایسے ہی سنگ بستہ پڑی ہوئی ہے۔

صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے
میں خود میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برہنہ
سر چاک ژولیدہ مو سر بہ زانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ہے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں ابر و مہتاب کا
رہگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اس کا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ میرے بنائے ہوئے ”صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گل داں“ جو میرے فن کا اظہار اور روزی روٹی کمانے کا ذریعہ تھے، سب ٹوٹے پڑے تھے۔ اور میں خود خواب کی ایک عجیب کیفیت میں مبتلا تھا۔ اے جہاں زاد نو سال قبل تم تو بے خبر تھی مگر میں نے تمھاری قاف سی آنکھوں میں ایک عجب تابناکی دیکھی تھی۔جس سے میرا جسم و جاں بادلوں اور چاند کی راہگزر کی صورت اختیار کر گئے پھر چاہے بغداد کی خواب جیسی رات ہو یا دجلہ کا ساحل وہاں میں کشتی اور اس کی آنکھیں بند کیے ملاح کی طرح خستہ جاں موجود تھا۔کسی زرد گوند کی طرح کہر با تھا کہ جس سے ابھی تک میرا وجود جڑا ہوا تھا۔ اس کا وجود اس کا پیکر تھا مگر اس ایک ہی رات کا ذوق کسی دریا کی لہر کی طرح نکلا جس میں حسن کوزہ گر یعنی میں ڈوب تو گیا مگر ڈوبنے کے بعد ابھی تک نہ ابھر سکا۔

جہاں زاد اس دور میں روز ہر روز
وہ سوختہ بخت آ کر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل سر بہ زانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی
(وہی چاک جو سال ہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
حسن کوزہ گر ہوش میں آ
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچوں کے تنور کیونکر بھریں گے
حسن اے محبت کے مارے
محبت امیروں کی بازی
حسن اپنے دیوار و در پر نظر کر
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیر گرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پراں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس عرصے میں اکثر میں چاک پر مٹی پر پاؤں رکھے، سر زانوؤں میں دبائے گھنٹوں بے سدھ سا پڑا رہتا تو میری بیوی آ کر شانوں سے ہلا کر مجھے جگاتی اور کہتی کہ حسن کوزہ گر ہوش میں آؤ اور اپنے ویران گھر میں نظر ڈالو تم اپنے بچوں کے پیٹ کس طرح سے بھرو گے۔ اے محبت کے مارے حسن یہ امیروں کی بازی ہے۔ تم اپنے در و دیوار پہ نظر کرو۔ جیسے ہی یہ درد ناک آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی ڈوبتے ہوئے شخص کو طوفان میں پکار رہا ہو۔ یہ آنسوؤں کے انبار ایک طرح سے پھولوں کے انبار تھے۔میں حسن کوزہ گر اس وہموں بھرے شہر میں خرابوں کی دنیا میں ڈوبا ہوا تھا۔جن میں کسی بھی آواز ، جنبش یا مرغ پراں کا سایہ تک نہیں تھا۔ وہاں پہ زندگی کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔

جہاں زاد میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ہوں
سر و مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ہوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودۂ خاک ہے جسم
میں نم کا اثر تک نہیں ہے
جہاں زاد بازار میں صبح عطار یوسف
کی دکان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ہے پھر تودۂ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گل بنا دے!

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ لوٹنے کے بعد ایک صبح اس نے عطار یوسف کی دکان پر جہاں زاد کو کو دوبارہ دیکھا اور جہاں زاد نے بھی ایک شوخ نظر اس کی طرف کی۔ اُن آنکھوں کی افسانوی چمک جوں کی توں برقرار تھی۔ یہ چمک اور سو طرح کی تمنائیں اسے جہاں زاد کے گھر کی طرف کھینچ لائیں۔ سرد رات کے اندھیرے میں پریشاں بال و سر کے ساتھ دریچے کی طرف جھانکتے ہوئے وہ اپنا تعارف کرا کے جہاں زاد کو پکارنے اور بلانے لگا اور اپنی وارفتگی اور ان نو سالوں میں اپنے اوپر بیتے ہجر کا قصہ سنانے لگا۔ایک مرتبہ پھر تمھاری آنکھیں مجھ سے بہت کچھ۔ کہہ گئیں اور ان آنکھوں کی شوخی سے تودہ خاک میں ہلکی سی لرزش ہوئی جو شاید اس خاک کو پھر سے پھول بنا ڈالے گی۔

تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ہر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ہوں روشن!

تمنا کی کوئی حد نہیں ہوتی، جہاں زاد۔ میری تمنا ہے کہ میں پھر سے وہی حسن کوزہ گر بن جاؤں جس کے کوزے ہر امیر و گدا کے گھر کی رونق تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں پھر مٹی اور گارے کے تغاروں کی طرف لوٹ جاؤں۔ پھر رنگ و روغن سے وہ شرارے نکالوں کہ جن سے دلوں کے خرابے روشن ہوں۔ لیکن یہ سب تبھی ہو سکتا ہے، اے جہاں زاد، اگر تو چاہے تو میں پھر سے معشیت کے تغاروں کی جانب لوٹ جاؤں کے جس میں گل و لا سوکھے ہوئے ہیں میں ان گل و لا اور سوکھے تغاروں میں رنگ بھر کر پھر اے شرارے نکالوں گا۔ان شراروں کی مدد سے دلوں کے خرابے روشن ہوں گے۔

اے جہاں زاد،
نشاط اس شب بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زور مے تھا کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا
تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت
تجھے حیرت نہ ہوئی!
اے جہاں زاد،
میں کوزوں کی طرف اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں
تو میں سوچتا ہوں
سوچتا ہوں تو مرے سامنے آئینہ رہی
سر بازار دریچے میں سر بستر سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟
اے جہاں زاد،
نشاط اس شب بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ
پیمانوں پہ شیشوں پہ
مرے جام و سبو میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے جہاں زاد بے راہ روی کی اس رات کی خوشی میں کس طرح بھولوں کہ نجانے وہ شراب کا زور تھا یا میرے بازوؤں میں لرزش تھی کہ جس وجہ سے میرے ہاتھ میں موجود جام گر کر ٹوٹ گیا۔ لیکن جہاں زاد تمھیں حیرانی نہ ہوئی کہ تمھارے گھر کی کھڑکیوں پر اس سے قبل بھی اس طرح کی کئی درزیں موجود تھیں۔اب کی بار جو میں بغداد سے اپنے کوزوں کی جانب واپس لوٹا ہوں تو میں چاہتا ہوں کہ تم ہر وقت میرے سامنے موجود رہو کبھی کسی آئینے میں کبھی کسی قیمتی سنجاب کے قالین کی طرح میرے بستر پر۔ لیکن تم میرے سامنے ایسے آئینے کی صورت میں موجود رہی کہ جس میں مجھے اپنی صورت کے سوا کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔اب وہی آئینہ ہاتھ میں لیے میں وحشت میں تمھیں خط لکھ رہا ہوں کہ جس میں مجھے اپنی صورت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔مجھے لکھنا بھی نہیں آتا ہے تو جہاں زاد کیوں نہ میں آئینے کے اوپر گرنے والے اپنی آنسوؤں کی پھواروں سے ہی کیوں نہ لکھوں۔مجھے اس بے راہ روی کی رات کی خوشی پھر سے لے آئے گی اور وقت کیا چیز ہے کہ تم اس بارے میں کیا جانو کہ یہ ایک ایسا کیڑا ہے جو کہ میری دیواروں ، آئینے ، پیمانے ، شیشے ، جام و سبو اور تغاروں پہ رینگتا پھرتا ہے۔

رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ کے آئے گا حسن کوزہ گر سوختہ جاں بھی شاید!
اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد
تو میں سوچتا ہوں!
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی
جسے تنتی چلی جاتی ہے وہ جالا تو نہیں ہوں میں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا میں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
میں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آ کے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں
کھیل اک سادہ محبت کا
شب و روز کے اس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر کبھی گا لیتے ہیں
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں
حرف سرحد ہیں جہاں زاد معانی سرحد
عشق سرحد ہے جوانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں
درد محرومی کی
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے جہاں زاد اس رینگتے وقت کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ شاید کبھی میرا جلا ہوا دل بھی واپس لوٹ آئے گا مگر جب یہ لوٹے گا تو کہیں ایسا تو نہیں کہ اس جھونپڑے کی چھت پہ مکڑی جو جالا بنتی ہے وہ میں ہوں یا چھت کہ جس تلے میں مقیم ہوں میرے غربت میں روندے گئے آباؤاجداد کی آخری نشانی ہے۔ یہ چھت ان کے فن اور معشیت کی ایک نشانی کے طور پہ ہے۔اس لیے اب کہ جب میں لوٹا تو وہ جلے ہوئے نصیبوں کی چھت آ کر مجھے دیکھتی ہے۔میرے اس جھونپڑے میں محبت کے ایک سادہ سے کھیل کے سوا کچھ بھی موجود نہیں ہے۔میرے دن رات اس خالی پن میں کبھی کھیلتے اور کبھی روتے گاتے گزر رہے ہیں۔کبھی ہم مل کر ہنس لیتے ہیں لیکن دل کے یہ سب بہانے جینے کے بہانے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔یہاں پہ حرف ان کے معنی ، عشق ، جوانی سب کی ایک سرحد مقرر ہے جوکہ جینے کے بہانے ہیں لیکن کیا محرومی کے احساس اور تنہائی کی بھی کوئی سرحد مقرر ہے یا نہیں؟

میرے اس جھونپڑے میں
کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی تنہائی کی
یادوں کی تمناؤں کی خوشبوئیں بھی
پھر بھی اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے گندہ ہے پراگندہ ہے
ہاں کبھی دور درختوں سے پرندوں کی صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو میں جی اٹھتا ہوں
تو میں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اس گھر میں کوئی سیج نہیں عطر نہیں ہے
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!

شاعر کہتا ہے کہ میرے اس جھونپڑے میں اس ایک رات کی طرح نجانے کتنی خوشبوئیں میرے اردگرد رینگتی ہیں۔جس میں دیوار سے لپٹی گرد کی خوشبو بھی شامل ہے۔جس میں میری غربت ، تنہائی ، یادوں، اور تمناؤں کی خوشبو شامل ہے۔میرا جھونپڑا گندا اور بکھرا ہوا ہے مگر دور سے یہاں پرندوں کی صدائیں اور انجیر و زیتون کی مہک آتی ہے۔تب دل یہ کہتا ہے کہ میں نہا کر نکا ہوں کیوں کہ اس گھر میں تو کوئی خوشبو یا عطر موجود نہیں ہے نہ ہی کوئی پنکھا ہے تو اے جہاں زاد تجھے جس عشق کی عادت ہے میرا اس کا حوصلہ نہیں ہے۔

تو ہنسے گی اے جہاں زاد عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی میں
اور اشیا کا پرستار بھی میں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی میں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کی صدا گونج اٹھے!
اے جہاں زاد
مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اک فن کا
ہر اک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے

اے جہاں تم اس عجیب بات پہ ضرور ہنسوں گی کہ میں جذبات کا حاتم طائی ہوں تو دوسری طرف چیزوں کا پجاری بھی ہوں اور وہ دولت جو میرے پاس نہیں ہے اس کا طلب گار بھی میں ہوں۔اس رات جو تم میری الجھن اور دو رنگی پہ ہنسی لیکن اس عشق سے کسی نے اپنے سوا بھلا کب کچھ حاصل کیا ہے۔ اس لیے جہاں زاد ہر سوال کا جواب عاشق کے سوا کسی کے پاس نہیں ہوتا ہے کہ جب تک آپ کے اندر کی صدا بلند نہ ہو جائے۔اے جہاں زاد یہ میرے اندر کی صدا اور میرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی پکار کئی صدیوں تک گونجی تمھاری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی ان صدیوں کا کنارا نکلا یہ وہ سمندر ہے کہ جس میں میری ذات کا عکس موجود ہے۔یہ سمندر میرے بنتے چہروں اور ہر ایک کے فن کا آئینہ دار ہے۔

جہاں زاد
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے
ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوال عمر کے خلاف
تیرتے رہے
تو کہہ اٹھی: ‘حسن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!’
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا میں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہوگیا!)
مگر یہ وہم دل میں تیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربط جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا
میں سب سے پہلے ‘اپ ‘ہوں
اگر ہمیں ہوں تو ہو اور میں ہوں پھر بھی میں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر میں زندہ ہوں تو کیسے آپ سے دغا کروں؟
کہ تیرے جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں ‘سلجھ’ سکا
جو میں کہوں کہ میں ‘سلجھ’ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں
(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا
جو میں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاط ناب کا
جو صد نوا و یک نوا خرام صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے ساز گار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصال آب و گل نہیں، نہ تھا کبھی
وجود آدمی سے آب و گل سدا بروں رہے
نہ ہر وصال آب و گل سے کوئی جام یا سبو ہی بن سکا
جو ان کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے جہاں زاد جب ہم رات کے سکون میں حلب کے کاروں سرائے کے حوض میں ایک دوسرے کے قریب تھے باکل کسی دائرے کی طرح ہم تمام رات ایک دوسرے کے گرد تیرتے رہے ایک دوسرے کے جسم و جاں کے ساتھ لگ کر ایک ایسے خوف سے کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا ہے ہم دونوں بھی ایک دوسرے سے مطمئن اور عمر کے زوال سے بے خوف ایک دوسرے کے ساتھ تیرتے رہے۔ایسے میں تم ہی یہ کہہ اٹھی کہ حسن یہاں تمھیں تمھاری جان کی پیاس کھینچ کے لائی ہے لو اب بھی میں اس پیاس کو یاد کر رہا ہوں تو میرا حلق آنسوؤں کی قیمتی عنایتوں سے تر ہو چکا ہے مگر اب یہ وہم میرے دل میں تیر رہا ہے کہ میں اپنا وجود کہیں حلب کے حوض میں بھول آیا ہوں۔مجھے یکجاں ہونے کا وہم نہیں ہے کہ میرا جسم اب بھی جسموں کے ربط کا ایک اعتبار قائم رکھے ہوئے ہےاور اسی اعتبار نے مجھے تم میں سمو دیا۔اس لیے پہلے میں تم ہو اور اگر میں بھی ہوں تو ہر ایک بات سے پہلے میں آپ ہوں اور زندہ ہو کر یہ ممکن نہیں کہ میں دغا کروں۔اے جہاں زاد تیرے جیسی عورتیں ایک ایسی پہیلی ہیں کہ جنھیں کوئی سلجھا نہیں سکا۔اگر میں کہوں کہ میں نے اس پہیلی کو سلجھا لیا تو یہ جھوٹ ہوگا کہ عورت کی ساخت ہی سراسر ایک ایسا طنز ہے کہ جس کا جواب ہم نہیں ہیں۔وہ دانا و عقلمند کون ہے کہ جہاں زاد جس کا ذکر تمام رات تمھارے لبوں پہ موجود رہا۔جس نے تمھارے بالوں کو کھینچا اور ہونٹوں کو نوچا اس نے وہ سب کچھ کیا جو میں نہ کر سکا۔یہ سچ ہے کہ میں ہو یا وہ دانا شخص ہم دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہوں بھی تو کس لیے کہ تیری بے ریا خوشی کو پہچاننے کے لیے وہ ہر صدا کسی صبح کی پکار کی طرح سے وہ نقیب بھی کسی ساز گار نوا کی نفی سہی۔ہمارا رابطہ پانی اور پھول کے ملاپ کی طرح نہیں ہے اور نہ کبھی ایسا رہا ہے۔نہ ہی کبھی ہر گل اور پانی کے ملاپ سے کبھی کوئی جام تیار ہوا ہے۔اگر ہم بن سکتے ہیں تو محض ان کا ایک وہم ہی بن سکتے ہیں۔

جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک میں
یہ تین زاویے کسی مثلث قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے
مثلث قدیم کو میں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اس مثلث قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن ترا ہی رنگ تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
میں سیل نور اندروں سے دھل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے ‘تو’ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اس وصال رہ گزر کی نا گہاں مجھے نگل گئی
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر آب و گل سے وہ جدا ہوئے
تو ان کو سمت راہ نو کی کامرانیاں ملیں
میں اک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبر؟

جہاں میں تم اور وہ مثلث کے کسی قدیم زاویے کی طرح ہمیشہ گھومتے رہے۔کسی نے بھی خود کا سراغ نہ پایا اگر تم کہوں تو اس قدیم مثلث کو توڑ دوں۔مجھ پر چاک کا جو سحر طاری ہے وہی اس مثلث کا سحر طاری ہے۔میرے چاک کی نگاہیں مجھے گھومتے دیکھتی ہیں تو جام کے پیالے اور جام دونوں پہ تیرا رنگ اور تیرے بدن کی تازگی اتر آئی ہیں۔یہاں تیرے جمال کی کیما گری برس رہی ہے۔میں اندر سے دھل چکا ہوں اور میرے اندر کی تمام مخلوق گلی گلی نکل کر چل کھڑی ہوئی ہے۔ جیسے ہی صبح کی اذان سنائی دی تو محسوس ہوا کہ جیسے جیسے تمام کوزے بنتے بنتے تمھارے پیکر میں ڈھل گئے ہوں۔ اسی وصال کی خوشی مجھے نگل گئ۔ یہ پیالے ،صراحی اور شراب جیسا ایک مرحلہ ہے کہ جب خمیر اپنے اصل سے جدا ہوتا ہے تو ان کو نئی منزل کی کامیابیاں ملتی ہیں۔لیکن میں ایک غریب کوزہ گر ہو کہ جسے پیالہ ، صراحی اور جام کی معرفت کے بارے میں کیا معلوم ہو سکتا ہے۔

جہاں زاد
انتظار آج بھی مجھے ہے کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور نا سزا میں تھا؟
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
شب گنہ کی لذتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اک انتظار بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمان بے زماں میں آ کے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سست قافلے
مرے دروں میں جاگ اٹھے
مرے دروں میں اک جہان باز یافتہ کی ریل پیل جاگ اٹھی
بہشت جیسے جاگ اٹھے خدا کے لا شعور میں!
میں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
مرے وجود سے بروں
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں
وہ پھر سے ایک کل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقص بے زماں بنے
وہ رویت ازل بنے!

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے جہاں زاد مجھے نا جانے آج بھی کیوں اسی دن کا انتظار ہے جو آج سے قبل نو سال کے سزا کے دنوں میں ہوا کرتا تھا۔اب آنسوؤں اور گمراہی کی راتوں کا منتظر نہیں ہوں کیونکہ میں گناہ کی راتوں کا اتنا ذکر کر چکا ہوں کہ وہ راتیں خود اب گناہ بن چکی ہیں۔نہ مجھے حلب کے کارواں سرا کے حوض کا انتظار ہے اور نہ ہی موت اور اپنی کسی شکست خوردہ رات کا منتظر ہوں۔ مجھے بس ایک انتظار ہے زمانے کا تار بندھا ہوا ہے۔ کبھی کچھ لمحے جو کہ وقت کے نہ ہوں وہ وقت کی قید میں آ کر رک جائیں تو وقت کا یہ بوجھ میرے سر سے بھی اتر گیا۔ تمام چل رہی اور گزر چکی صورتیں اور حادثات کے سست قافلے میرے اندر جاگ اٹھے۔میرے اندر ایک گزرے وقت کی ریل پیل ہونے لگی۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا کہ جیسے خدا کے لاشعور میں جنت جاگ اٹھی ہو۔میں بھی غنودگی کے وجود میں ڈوبا ہوا جاگ اٹھا اور ریت کے وہ کوزے جن کا تعلق میرے وجود سے جڑا ہوا تھا وہ میرے وجود سے ٹکرانے کے بعد ریزہ ریزہ ہوگئے۔میرے خود سے بچھڑنے کے بعد وہ کسی ساز گار صدا کی طرح پھر سے ایک بنے اور رقصں بے زماں کرنے لگے اور ہمیشہ کی چمک دمک بن گئے۔

جہاں زاد کیسے ہزاروں برس بعد
اک شہر مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گل داں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اس شہر برباد کا حافظہ ہوں
حسن نام کا اک جواں کوزہ گر اک نئے شہر میں
اپنے کوزے بناتا ہوا عشق کرتا ہوا
اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے
ہمیں میں کہ جیسے ہمیں ہوں سمویا گیا ہے
کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے
ہزاروں برس رینگتی رات بھر
اک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں
بناتے رہے ہیں
اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے
یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر
ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں
جہاں زاد
یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ
کوزوں کی لاشوں میں اترا ہے
دیکھو
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں
کبھی جام و مینا کی لم تک نہ پہنچیں
یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
کو پھر سے الٹنے پلٹنے لگے ہیں
یہ ان کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے
جو تاریخ کو کھا گئی تھیں
وہ طوفان وہ آندھیاں پا سکیں گے
جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں
انہیں کیا خبر کس دھنک سے مرے رنگ آئے
مرے اور اس نوجواں کوزہ گر کے
انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے
انہیں کیا خبر کون سے حسن سے
کون سی ذات سے کس خد و خال سے
میں نے کوزوں کے چہرے اتارے
یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں
زمانہ جہاں زاد افسوں زدہ برج ہے
اور یہ لوگ اس کے اسیروں میں ہیں
جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے!
یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن
ہیں جویا کسی عظمت نارسا کے
انہیں کیا خبر کیسا آسیب مبرم مرے غار سینے پہ تھا
جس نے مجھ سے اور اس کوزہ گر سے کہا
اے حسن کوزہ گر جاگ
درد رسالت کا روز بشارت ترے جام و مینا
کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے
یہی وہ ندا کے پیچھے حسن نام کا
یہ جواں کوزہ گر بھی
پیاپے رواں ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دیکھو جہاں زاد کس طرح سے ہزاروں سال گزرنے کے بعد ہر ایک شہر کی گلیوں میں دفن میرے جام و مینا کے گل دانوں کے دفن ٹکڑے ملے ہیں۔جیسے وہ ان برباد شہروں کا حافظہ ہوں۔ حسن نام کا کوئی نوجوان کوزہ گر اگر کسی شہر میں کوزے بناتا اور عشق کرتا ملے تو ماضی میں وہ میرے جیسے لوگوں میں سمویا گیا ہو گا۔ہم تو بارش کے ان قطروں کی طرح سے تھے جو شیشے پہ گر کر سانپ لہریں بناتے تھے۔اب صبح ہونے سے قبل یہ نوجوان کوزہ گر اور میں دونوں ایک ہی رویا میں پھر اے پرو دیے گئے۔اے جہاں زاد یہ پرانے پیروکاروں کی ایک بھیڑ کوزوں کی لاشوں میں اتری ہے اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی آنکھیں کبھی بھی جام (شراب) اور صراحی کے لمس کو نہ پا سکیں۔آج رنگ و روغن سے بنے ہوئے یہی کوزے جو کہ بے جان تھے پھر سے الٹنے پلٹنے لگے۔ ان کے نیچے غم کی وہ چنگاریاں ملتی ہیں جو تاریخ کو کھا گئیں تھیں۔وہ طوفان وہ آندھیاں جو ہر چیخ کو کھا گئیں تھیں۔ان سب کو کیا معلوم کہ میرے اور اس نوجوان کوزہ گر کے رنگ کس دھنک سے کون سی تتلیوں کے پروں کس حسن اورر کون سی ذات کے خدوخال سے یہ رنگ کوزوں کے چہروں میں اتارے گئے۔یہ سب لوگ تو اپنے اسیر ہیں اور اس زمانے پر بھی جہاں زاد کا سحر طاری ہے۔جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے۔یہ معصوم وحشی اپنے ہی قد و قامت سے پریشان دامن ہے جو کسی عظمت نارسا کا متلاشی ہے۔انھیں کیا معلوم کہ کیسا آسیب زدہ غبار میرے سینے پہ تھا۔ جس نے مجھ سے اور اس کوزہ گر سے کہا کہ اے حسن جاگ کہ خوشخبری کا دن تیرے جام و مینا کے پیاسے لبوں تک پہنچنے لگا ہے۔اسی پکار کے پیچھے حسن نام کا نوجوان کوزہ گر بھی مسلسل سفر میں رواں تھا زماں سے زماں اور خزاں سے خزاں تک۔

جہاں زاد میں نے حسن کوزہ گر نے
بیاباں بیاباں یہ درد رسالت سہا ہے
ہزاروں برس بعد یہ لوگ
ریزوں کو چنتے ہوئے
جان سکتے ہیں کیسے
کہ میرے گل و خاک کے رنگ و روغن
ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر
ابد کی صدا بن گئے تھے
میں اپنے مساموں سے ہر پور سے
تیری بانہوں کی پہنائیاں
جذب کرتا رہا تھا
کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں
یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں
حسن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے
یہ اس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے
یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے
جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جو ہر نوجواں کوزہ گر کی نئی ذات میں
اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!
وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
ہمہ عشق ہیں ہم
ہمہ کوزہ گر ہم
ہمہ تن خبر ہم
خدا کی طرح اپنے فن کے خدا سر بسر ہم
آرزوئیں کبھی پایاب تو سریاب کبھی
تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے
جو دیکھے بھی نہ ہوں
کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ ان کا
کہاں سے پائے
کس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی
آرزوئیں کبھی پایاب تو سریاب کبھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے جہاں زاد میں نے یعنی حسن کوزہ گر نے ویرانے میں ہی کسی سفارت گر کا درد سہا ہے۔ ہزاروں سال بعد یہ لوگ ان کنکریوں کو چنتے ہوئے کیسے ہیں کہ میرے گل و خاک کے رنگ و روغن تیرے نازک بدن کے رنگوں سے مل کر ابد کی صدا بن گئے۔میں اپنے بدن کے ہر پور سے تمھارے لمس کو جذب کرتا رہا۔ہر آنے والی کی انکھوں کو جا کر عبادت گاہوں پہ چڑھاؤں۔یہ ریزوں کی تہذیب کو توپا لیں گے مگر حسن کوزہ گر کو کہاں سے لائیں گے اس کے پسینے کے قطرے کیسے گنیں گے۔فن کی تجلی کا یہ سایہ کہاں سے آئے گا جو کہ زمانوں سے بڑھتا جا رہا ہے۔اس فن کی تجلی کے سایے کے بدولت ہی ہم ہمہ تن عشق اور کوزہ گر ہیں۔خدا کی طرف سے ہم اپنے فن کے سر بسر کبھی پایاب اور کبھی سریاب ہے۔بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی ان دیکھے چہرے الجھے ہوئے ہیں۔ جو کبھی کسی نے دیکھے ہوں تو ان کا سراغ کہاں سے پایا جائے۔کسی سے قول و قرار کیے ہوئے غموں کے آداب آرزوئیں کبھی کم گہری تو کبھی سریاب ہیں۔

یہ کوزوں کے لاشے جو ان کے لیے ہیں
کسی داستان فنا کے وغیرہ وغیرہ
ہماری اذاں ہیں ہماری طلب کا نشاں ہیں
یہ اپنے سکوت اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں
وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھلی ہیں
تمہیں دیکھتی ہیں ہر اک درد کو بھانپتی ہیں
ہر اک حسن کے راز کو جانتی ہیں
کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اس رات کی آرزو ہیں
جہاں ایک چہرہ درختوں کی شاخوں کے مانند
اک اور چہرے پہ جھک کر ہر انسان کے سینے میں
اک برگ گل رکھ گیا تھا
اسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں

یہ کوزوں کے لاشے جو کسی فنا داستان کے ہیں۔ ہماری اذان اور طلب کا نشان یہ اپنی خاموشی کے سائے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ آنکھیں جو ہمارے اندر کھلی ہیں تمھیں دیکھ کر ہر ایک درد کو بھانپ لیتی ہیں ہر ایک حسن کے راز سے واقف ہیں۔ ہم اس سنسان ہجرے کی رات کی وہی آرزو ہیں جہاں ایک چہرہ درختوں کی شاخوں کی طرح ایک اور چہرے پر جھک کر کسی انسان کے سینے میں برگ و گل رکھ گیا تھا ہم اسی رات کا دزدیدہ بوسہ ہیں۔