Advertisement
Advertisement

چکبست نرائن کی نظم “خاک ہند” مسدس ہیت میں لکھی گئی ہے۔ اس کے ہر بند میں چھے مصرعے ہیں۔ یہ نظم کل نو (9) بندوں پہ مشتمل ہے۔ خاکِ ہند نظم بھی ان کی وطنیت کے ذیل میں کی گئی شاعری کی ایک کڑی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے ہندوستان کے تاریخی اور تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔اس میں وطن سے محبت اور یہاں کی سرزمین سے محبت کے جذبے کو نہایت گہرائی سے پیش کیا گیا ہے۔

Advertisement

نظم میں شاعر کہتا ہے کہ اے وطن اس سے بڑھ کر تیری عظمت کیا ہو گی کہ اس وطن کو اللہ تعالیٰ نے کئی قدرتی نعمتوں سے فیض یاب کیا ہے۔اس سر زمین کی پیشانی سے نور اور حسن ہمیشہ سے ظاہر ہے اور آگے بھی دکھائی دیتا رہے گا۔اس کی خوبصورتی اور سج دھج اس کی شان و شوکت اور سر بلندیوں میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ہر صبح اس کو سورج کی کرنیں اس کی بلندیوں کو روشن کرنے کی خدمت انجام دیتی ہیں۔

اس سر زمین کو یہ فیض حاصل ہے کہ یہاں سے کئی طرح کے علوم و فنون کے سر چشمے پھوٹے جن سے چین اور یونان جیسے ممالک بھی سیراب ہوئے اور انھوں نے یہاں کی سرزمین سے یہاں کے علوم و فنون اور تعلیمات سے فیض حاصل کیا۔گوتم ،رانا ، سرمد اور اکبر جیسے باہمت ، اور بہادر سورماؤں نے اس سرزمین پہ اپنی تعلیمات اور محبت کے فیض کو عام کیا۔لیکن اب انھی سورماؤں کی یادگاریں کھنڈرات کی شکل پیش کر رہی ہیں۔

Advertisement

ان کی نہر و محبت کا اثر اب تک یہاں کی درو دیوار سے ظاہر ہو رہا ہے انھی کی قربانیوں سے یہ وطن جنت کس روپ پیش کرتا ہے گنگا یہاں پوری تمکنت سے بہتا ہے اور یہاں کے جنگلوں میں مور رقصاں ہیں۔یہاں کی بجلی میں وہی کڑک لیکن ہمارے دلوں میں پستی آ گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کا دنیا سے نام و نشان مٹتا جا رہا ہے۔ ہماری یہ غفلت بھری نیند کسی موت سے کم نہیں ہے ہمارا وطن ہندوستان ایک بے کفن لاش کی سی کیفیت میں جا رہا ہے۔یہاں موجود لوگوں کے کمالات ، ان کا علم اور ایمان مسلسل برباد ہو رہے ہیں۔

Advertisement

آخر میں شاعر کہتا ہے کہ اے وطن سے محبت کے جادوئی صور اس خواب کو توڑ کر ہمیں غفلت کی نیند سے جگا دو اور وہ پیغام جو ہم بھلا چکے ہیں ہمیں اس کی پھر سے یقین دلانی کرائی جائے۔ ہماری طبیعتوں پہ جو افسردگی چھائی ہوئی ہے اس کو مٹا دیا جائے اور ہم جو ایک راکھ کی مانند بے جان اور ٹھنڈے ہو چکے ہیں اسی راکھ میں سے پھر سے کوئی شرلہ( شرارہ) بھڑک اٹھے۔اس وطن کی محبت ہماری آنکھوں میں نور بن کر سمائے۔

اگرچہ اب اس وطن کی روشنیوں کو دوبارہ سے بحال کرنا ایک مشکل ترین کام ہے لیکن اس وطن کی روشنیاں ہی ہماری آنکھوں کا جلوہ ہیں۔ اس وطن کا ایک ایک ذرہ خواہ وہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو محبت کی مثال ہے۔اس چمن یعنی وطن کے کانٹے بھی یہاں پھولوں کی پتیوں کے مول تلتے ہیں۔یہاں کا گردو غبار بھی ہمیں اس قدر عزیز ہے کہ یہ ہمارے جسم کے لیے لباس کی سی اہمیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی شاعر وطن کی خاک میں دفن ہونے کی آرزو رکھتا ہے۔

Advertisement

Advertisement