نظم پگڈنڈی کی تشریح

0

اختر الایمان کی نظم پگڈنڈی 8 بندوں پر مشتمل نظم ہے۔یہ نظم ان کے مجموعہ “گرداب” سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے ذریعے انسانی جسم کو ایک پکڈنڈی سے تشبیہ دی گئی ہے جس پر بچپن ، جوانی اور بڑھاپے کے کئی ادوار گزر جاتے ہیں۔

حسینه درمانده ی، بے بس، تنہا دیکھ رہی ہے
جیسے یونہی بڑھتے بڑھتے رنگ افق پر جا جھولے گی
جیسے یونہی افتاں خیزاں جا کر تاروں کو چھولے گی
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی الجھا، دیکھ رہی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک پگڈنڈی ایک بے بس حسینہ کی مانند تنہا دیکھ رہی ہے اور اسے دیکھ کر لگ رہا ہے کہ وہ یوں ہی بڑھتے بڑھتے آسمان کے رنگوں کو چھو لے گی۔ایسے محسوس ہو رہا ہے وہ ایسے ہی گرتے سنبھلتے جا کر تاروں کو چھو لے گی۔لیکن اس کے راستے کے پیچ و خم یعنی بل دار راستوں میں کوئی مسافر الجھا ہوا جسے وہ دیکھ رہی ہے۔

انگڑائی لیتی بل کھاتی، ویرانوں سے
آبادی سے ٹکراتی، کتراتی، مڑتی، خشکی پر گرداب بناتی
اٹھلاتی، شرماتی، ڈرتی، مستقبل کے خواب دکھاتی سایوں
میں سستاتی مڑتی، بڑھ جاتی ہے آزادی سے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ پکڈنڈی کسی حسینہ کی طرح انگڑائی لیتے اور بل کھاتی ہوئی ویرانوں سے نکل کر آبادی سے جا ملتی ہے۔یہ ٹکراتی، کتراتی ہوئی خشکی پہ ایک بھنور سا بناتی جا رہی ہے۔سایہ دار جگہ پہ یہ ذرا سستاتی ہے اور پھر پوری آزادی سے آگے بڑھ جاتی ہے۔

راہی کی آنکھوں میں ڈھلتی، گرتی اور سنبھل جاتی
ٹھنڈی چھاؤں میں تاروں کی یہیں خواب کا دھارا بنتی
دن کی روشن قندیلوں میں میداں میں آوارا بنتی
ندیوں سے چشموں سے ملتی کوسوں دور نکل جاتی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ مسافر کی آنکھوں میں ڈھلتی بھی ہے اور گر کر سنبھل جاتی ہے۔یہ راستے پر ہی تاروں کی ٹھنڈی چھاؤں میں اپنے خوابوں کا جھمگٹ بنتی ہے۔جبکہ دن کی روشنی میں یہ میدان میں آوارگی کا روپ دھار لیتی ہے۔یوں یہ ندیوں اور چشموں سے ملتی ہوئی دور تک چلی جاتی ہے۔

پھولوں کے اجسام کچلتی ذروں کے فانوس جگاتی
در مانده اشجار کے نیچے شاخوں کا واویلا سنتی
ہر نووارد کے رستے میں نادیدہ اک جال سا بنتی
بڑھ جاتی ہے ”منزل“ کہہ کر کلیاں زیر خاک سلاتی!

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ پکڈنڈی پھولوں کے جسموں کو کچلتی اور روشنیوں کے فانوس جگاتی ہے۔یہ تھکے ہوئے اور بے بس درختوں کی شاخوں کا شور شرابہ بھی سنتی ہے۔یہ ہر نئے آنے والے کے راستے میں ایک ان دیکھا جال بنتی ہے۔جبکہ یہ منزل کہہ کر آگے بڑھ جاتی ہے اور اپنے نیچے کئی کلیوں کو سلاتی ہے۔

غم دیده پسماندہ راہی تاریکی میں کھو جاتے ہیں
پاؤں راہ کے رخساروں پر دھندلے نقش بنا دیتے ہیں
آنے والے اور مسافر پہلے نقش مٹا دیتے ہیں
وقت کی گرد میں دبتے دبتے ایک فسانہ ہو جاتے ہیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دکھی اور پیچھے رہ جانے والے مسافر تاریکی میں کھو جاتے ہیں۔ ان مسافروں کے قدم اس راستے کے چہرے پر اپنے دھندلے نقوش بناتے ہیں۔جبکہ اس راستے پہ نئے آنے والے مسافر وہ پہلے نقوش مٹا دیتے ہیں۔یوں رفتہ رفتہ وقت کی گرد میں دب کر یہ قدم ایک افسانہ بن جاتے ہیں۔

راہ کے پیچ و خم میں اپنا دامن کوئی کھینچ رہا ہے
فردا کا پرپیچ دھندلکا ماضی کی گھنگھور سیاہی
یہ خاموشی، یہ سناٹا اس پر اپنی کور نگاہی
ایک سفر ہے تنہا راہی، جو سہنا تھا خوب سہا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ راستے کے پیچ و خم میں کوئی اپنا دامن کھینچتا ہے تو ایسے میں آنے والے کل کا دھندلکا اور ماضی کی سیاہی اپنا ایک نابینا پن طاری کر دیتے ہیں۔یوں یہ پکڈنڈی کا سفر ایک تنہا مسافر کا سفر ہے۔ جسے سہنے والے نے خوب سہا ہے۔

ایک حسینه درمانده سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یونہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چھو سکتا ہے راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی الجھا دیکھ رہی ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ ایک حسینہ کی مانند تنہا اور بے بس دیکھ رہی ہے۔ اس زندگی کی مثال بھی اس پکڈنڈی کی سی ہے جو اندھیرے میں بھی یونہی بل کھاتی ہے۔ ستارے چھونا زندگی میں کسی انسان کے لیے بھی ایک ناممکن عمل ہے کہ راستے میں ہی سانس پھول جاتی ہے۔راستے کی مشکلات میں یہ زندگی بھی کسی مسافر کو الجھا ہوا دیکھتی ہے۔

یہ سورج یہ چاند ستارے راہیں روشن کر سکتے ہیں؟
تاریکی آغاز سحر ہے، تاریکی انجام نہیں ہے؟
آنے والوں کی راہوں میں کوئی نور آشام نہیں؟
ہم سے اتنا بن پڑتا ہے جی سکتے ہیں مرسکتے ہیں؟

اس بند میں شاعر سوالیہ انداز کو اپناتے ہوئے کہتا ہے کہ کیا یہ روشن اور چاند ستارے راستوں کو روشن بنا سکتے ہیں۔ اندھیرا تو صبح ہونے کا آغاز ہوتا ہے نا کہ ہم اندھیرے کو کسی انجام سے تعبیر کریں۔ آنے والے لوگوں کے راستے میں کوئی بھی روشنی کو ختم نہیں کرنے والا ہے۔لیکن انسان کی کوشش سے بس یہ ممکن ہے کہ وہ جی سکتا ہے یا مر سکتا ہے۔