ریل کا سفر نظم کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • نیشنل بک فاؤنڈیشن “اردو” برائے آٹھویں جماعت۔
  • سبق نمبر: 11
  • نظم کا نام: ریل کا سفر
  • شاعر کا نام: سید ضمیر جعفری

نظم کی تشریح:

اسی میں ملت بیضا سما جا کود جا بھر جا
تری قسمت میں لکھا جا چکا ہے تیسرا درجہ
نہ گنجائش کو دیکھ اس میں نہ تو مردم شماری کر
لنگوٹی کس خدا کا نام لے گھس جا سواری کر

یہ بند سید ضمیر جعفری کی نظم ” ریل کا سفر” سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر سید ضمیر جعفری کہتے ہیں کہ ریل کے اندر جو ایک دنیا بسی ہے بھاںت بھانت کے لوگوں کا ہجوم موجود ہے تم اس میں داخل ہو جاؤ اور تمھاری قسمت میں ریل کا یہ تیسرے درجے کا ڈبہ ہی لکھا جا چکا ہے۔اس بات کو نہ دیکھ کہ ریل کے ڈبے میں گھسنے کی گنجائش ہے بھی یا نہیں بلکہ کسی روک ٹوک کے بغیر جلد جلد ڈبے میں گھسنے کی کوشش کر تیرے لیے لوگوں کو گنںے کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے کہ گاڑی میں پہلے سے کتنے لوگ سوار ہیں۔ یاد رکھ کہ جس طرح گاڑی کا ڈبالوگوں کھچا کھچ بھرا ہے اور لوگ حبس اور گرمی کی بدولت شور غل کر رہے ہیں اسی طرح عنقریب تیران، جلوس نکلے گا اور تو بھی ان لوگوں کی طرح واویلا کرے گا۔اس لیے اللہ کا نام لے کر گاڑی میں سوار ہو جاؤ۔

وہ کھڑکی سے کسی نے مورچہ بندوں کو للکارا
پھر اپنے سر کا گٹھرا دوسروں کے سر پہ دے مارا
کسی نے دوسری کھڑکی سے جب دیکھا یہ نظارا
زمیں پر آ رہا دھم سے کوئی تاج سر دارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ادھر دیکھو کسی نے ان لوگوں کو آواز دی ہے جو مورچے کے اندر اس انداز میں پھنسے بیٹھے ہیں اور انھیں سر اٹھانے کی بھی جرات نہیں ہے۔ وہ یوں دبکے بیٹھے ہیں جیسے کوئی جوان دشمنوں سے بچ کر مورچے میں جا گھسا ہو۔اور ادھر دیکھو افراتفری میں کسی مسافر نے اپنے سر کا گھٹر ڈبے میں پھینکا ہے لیکن وہ ڈبے کی سطح پر گرنے کی بجائے کسی کے سر پر جا پڑا ہے اور اس سے مسافر بے چارے کو چوٹ سی لگ گئی ہے۔کوئی دوسری کھڑکی سے یہ تمام نظارہ دیکھ رہا تھا تو کہیں کسی کی شان و شوکت کاتاج دھڑام سے زمین بوس ہو رہا تھا۔

یہ سارے کھیت کے گنے کٹا لایا ہے ڈبے میں
وہ گھر کی چارپائی تک اٹھا لایا ہے ڈبے میں
کھڑے حقے بمعہ مینار آتش دان تو دیکھو
یہ قوم بے سر و سامان کا سامان تو دیکھو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس مسافر کو دیکھو! وہ اپنے کھیت کے سارے گنے کٹوا کر اپنے ساتھ ڈبے میں لے آیا ہے اور ذرا اس مسافر کو دیکھو وہ اپنے گھر کی چار پائی تک سامان کے ساتھ ڈبے میں لے آیا ہے۔ دراصل یہ ان کی سادہ لوح مسافروں پر طنز ہے جو ریل میں سفر کرتے وقت گھر کی آدھی سے زیادہ کائنات سفر میں اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ گاڑی میں مسافروں کے لیے جگہ کم پڑ جاتی ہے اس پر مستزاد سامان ، سفر کی زیادتی اور مصیبت کا باعث بن جاتا ہے۔کوئی بمعہ آتش دان اور مینار کے پورے کا پورا کھڑا حقہ ہی اپنے ساتھ لے آیا ہے۔یہ قوم جو خود کو بے سرو سامان کہتی ہے ذرا ان کا سامان تو ملاحظہ فرمائیں۔

وہ اک رسی میں پورا لاؤ لشکر باندھ لائے ہیں
یہ بستر میں ہزاروں تیر نشتر باندھ لائے ہیں
صراحی سے گھڑا روٹی سے دسترخوان لڑتا ہے
مسافر خود نہیں لڑتا مگر سامان لڑتا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ذرا ان مسافروں کو ملاحظہ کیجیے کہ وہ ایک ہی رسی میں ان کے پاس جو کچھ تھا باندھ کر لے آئے ہیں اور ان مسافروں کی حالت کا اندازہ کہ سامان میں ان کے پاس ایک بستر ہے اور وہ بستر میں گھر میں موجو چھوٹی اور بڑی چیز لپیٹ کر اپنے ساتھ لے آئے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ریل کے ڈبے میں مسافروں کے سمانے کی گنجائش نہیں ، میں اتنا سارا سامان کیسے آئے گا۔یہاں ریل کو منظر کچھ ایسا ہے کہ مسافر ایک دوسرے سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ ان کی صحرائی ،گھڑا اور دستر خوان جیسے سازوسامان ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔

ادھر کونے میں جو اک مجلس بیدار بیٹھی ہے
کرائے پر الیکشن کے لیے تیار بیٹھی ہے
سیاست میں دما دم اپنا چمچہ مارتے جائیں
اگرچہ ہارتے جائیں مگر للکارتے جائیں

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ریل میں کچھ مںاظر یوں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کونے میں لوگوں کی ایک ایسی مجلس دکھائی دے گی جو سیاست کو زیر بحث لا رہی ہےاور ان کی گفتگو یوں ہو گی کہ جیسے ابھی وہ الیکشن کے لیے تیار ہوں اور سیاسی میدان میں اپنا چمچہ مارنے کے بعد وہ ہارتے بھی جائیں گے اور للکارتے بھی جائیں گے۔

بہم یوں گفتگو میں آشنائی ہوتی جاتی ہے
لڑائی ہوتی جاتی ہے صفائی ہوتی جاتی ہے

اس نظم کے آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یوں ہی مسافر آپس میں باتیں بھی کرتے جاتے ہیں بحث مباحثہ بھی ہوتا ہے۔ لڑائی جھگڑے تک بات پہنچ جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں، پھر کچھ ہی دیر بعد ان کی آپس میں صلح صفائی بھی ہو جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے واقف کار بن جاتے ہیں، غرض کہ ریل کا سفر خوب دلچسپ ہوتا ہے۔

  • مشق:

دیے گئے سوالات کے جوابات لکھیں:

شاعر نے ریل گاڑی میں سوار ہونے کے کیا طریقے بتائے ہیں؟

شاعر کہتا ہے کہ بنا گنے اور رش پر غور و فکر کیے بغیر لنگوٹی کس کر اور اللہ کا نام لے کر گاڑی میں سوار ہو جاؤ۔

ایک دیہاتی کس قسم کا سامان ساتھ لے جانا طے کر رہا تھا؟

وہ اپنے کھیت کے سارے گنے کٹوا کر اپنے ساتھ ڈبے میں لے آیا ہے جبکہ ایک مسافر وہ اپنے گھر کی چار پائی تک سامان کے ساتھ ڈبے میں لے آیا۔

مسافر خود نہیں لڑتا مگر سامان لڑتا ہے” سے کیا مراد ہے؟

مسافر خود نہیں لڑتا مگر سامان لڑتا ہے” سے مراد ہے کہ ان مسافروں کا سامان اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بھڑ رہا ہوتا ہے۔

اس نظم میں کس فصل کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سے کیا کیا چیز میں بنائی جاتی ہیں؟

اس نظم میں گنے کے کھیت کا ذکر کیا گیا ہے جس سے گنے کا شربت ، گڑ اور شکر تیار ہوتی ہے۔

نظم کے آخری شعر کی وضاحت کریں؟

اس نظم کے آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یوں ہی مسافر آپس میں باتیں بھی کرتے جاتے ہیں بحث مباحثہ بھی ہوتا ہے ۔ لڑائی جھگڑے تک بات پہنچ جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں، پھر کچھ ہی دیر بعد ان کی آپس میں صلح صفائی بھی ہو جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے واقف کار بن جاتے ہیں، غرض کہ ریل کا سفر خوب دلچسپ ہوتا ہے۔

نظم کے مطابق درج ذیل مصرعے مکمل کریں :-

  • تری قسمت میں لکھا جا چکا ہے تیسرا درجہ
  • لنگوٹی کس خدا کا نام لے گھس جا سواری کر
  • کسی نے دوسری کھڑکی سے جب دیکھا یہ نظارا
  • یہ قوم بے سر و سامان کا سامان تو دیکھو
  • لڑائی ہوتی جاتی ہے صفائی ہوتی جاتی ہے

الفاظ کی تکرار کے حوالے سے درج ذیل جملوں کو درست کریں۔

کو و طور کا پہاڑ بڑا مقدس ہے۔ کو و طور بڑا مقدس ہے۔
آج یوم عاشورہ کا دن ہے۔ آج یوم عاشورہ ہے۔
ما ہ رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا۔ ما ہ رمضان شروع ہو گیا۔
سنگ مرمر کا پتھر قیمتی ہوتا ہے۔ سنگ مرمر قیمتی ہوتا ہے۔
آج رات شب برات ہے۔ آج شب برات ہے۔

درج ذیل شعر کی تشریح کریں۔

بہم یوں گفتگو میں آشنائی ہوتی جاتی ہے
لڑائی ہوتی جاتی ہے صفائی ہوتی جاتی ہے

اس نظم کے آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یوں ہی مسافر آپس میں باتیں بھی کرتے جاتے ہیں بحث مباحثہ بھی ہوتا ہے ۔ لڑائی جھگڑے تک بات پہنچ جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں، پھر کچھ ہی دیر بعد ان کی آپس میں صلح صفائی بھی ہو جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے واقف کار بن جاتے ہیں، غرض کہ ریل کا سفر خوب دلچسپ ہوتا ہے۔

کوئی مختصر سا مزاحیہ واقعہ اپنے الفاظ میں لکھیں:

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم شہر سے گاؤں سیر کے لیے گئے جب ہم کھیتوں میں گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک گدھا دور سے بھاگتا ہوا آرہا ہے ہم ڈر گئے کہ شاید وہ ہمیں ٹکر مارے گا ہم اس کے آگے بھاگنے لگے کچھ دیر بعد دیکھا تو وہ گدھا ہم سے بھاگتے ہوئے آگے نکل گیا دراصل وہ ہمارا تعاقب نہیں کر رہا تھا۔ اس وقت ہم سب ہونق گدھے لگ رہے تھے۔

اس نظم کا مرکزی خیال تحریر کریں :

اس نظم میں ریل کے سفر کی منظر کشی طنزیہ انداز میں پیش کی گئی ہے۔ ریل کے مسافروں اور ان کے بھانت بھانت کے سامان کی منظر کشی کی گئی ہے۔