Nazm Sukh Ki Taan Tashreeh | Nawa e Urdu 9th | نظم سکھ کی تان کی تشریح

0
  • کتاب”نوائے اردو”برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر20:نظم
  • شاعر کا نام: میرا جی
  • نظم کا نام: سکھ کی تان

تعارف مصنف:

میراجی کا اصلی نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔ وہ ایک کشمیری خاندان میں1912ء میں گوجرانوالہ، پنجاب میں پیدا ہوۓ ۔ ان کا زیادہ وقت لاہور ، دلی اور ممبئی میں گزرا۔ وہ انتہائی ذہین انسان تھے۔ مطالعے کا انھیں بہت شوق تھا، اس لیے انھوں نے مختلف زبانوں کی شاعری کا مطالعہ کیا ، تراجم کیے اور مضامین لکھے۔

وہ لاہور کی ایک مشہور ادبی انجمن حلقہ ارباب ذوق کے بانیوں میں تھے، جس نے بہت سے ذہنوں کو متاثر کیا اور شاعری میں جدید رجحانات کو فروغ دیا ۔ انھوں نے اختر الایمان کے ساتھ مل کر رسالۂ خیال نکالا جس کے چند ہی شمارے شائع ہو سکے ممبئی میں ہی 1949ء میں ان کا انتقال ہوا۔

میراجی کی نظموں کے کئی مجموعے مثلا”میرا جی کی نظمیں” اور گیتوں کا مجموعہ “گیت ہی گیت” ان کی زندگی میں شائع ہوۓ ۔ایک مجموعہ “پابند نظمیں” اور انتخاب “تین رنگ”بعد میں شائع ہوۓ۔ بہت بعد میں پاکستان سے کلیات میرا جی ( مرتبہ جمیل جالبی ) اور باقیات میراجی ( مرتبہ شیما مجید ) شائع ہوۓ ۔ نثر میں دو کتابیں “مشرق ومغرب کے نغمے” اور اس نظم میں معروف ہیں ۔ جدید تنقید میں بھی میراجی کا نام بہت بلند ہے۔ انھوں نے نظم کا تجز یہ لکھنے کی ایک نئی رسم کو فروغ دیا۔ ہندوستان اور یورپ کے نئے پرانے شاعروں پر بہت اچھے مضامین لکھے۔میراجی کی بہت سی شاعری میں جنسی خیالات اور تجربات پیش کیے گئے ہیں۔

نظم سکھ کی تان کی تشریح:

سکھ کی تان سنائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
اب سکھ نے بدلا بھیس نیا
اب دیکھیں گے ہم دیس نیا

یہ اشعار”میرا جی” کی نظم “سکھ کی تان” سے لیے گئے ہیں۔ شاعر نے اس نظم میں ایک سیدھی سادھی ہندوستانی لڑکی کے آنکھوں کا خواب پیش کیا ہے۔ ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ ایک سکھ، چین اور سکون کی سریلی آواز سنائ دی۔ یہ سریلی آواز ایک نئج دنیا کا حسین خواب لیے ہوئے تھی۔ ایک لڑکی جو شادی سے قبل اپنے میکے میں مقیم ہے اس کا یہ سکھ اب اپنا انداز بدلنے والا ہے کہ وہ اب بیاہ کر ایک نئے دیس ایک نئے گھر کی دنیا میں جائے گی۔

جب دل نے رام دہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
اس دیس میں سب ان جانے میں
اپنے بھی یہاں بیگانے ہیں

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ دل اللہ کی پناہ مانگنے ہو ئے ایک نئی دنیا کے خواب سجانا شروع کر دیتا ہے کہ نئی دکھائی دینے والی دنیا میں سب لوگ انجان ہوں گے۔اس دنیا میں جو سب سے زیادہ اپنا پن لیے ہوئے ہو گا وہ بھی بیگانہ و پرایا محسوس ہو گا اور لڑکی اپنا میکہ چھوڑتے ہوئے پیچھے بھی اپنے سب عزیزوں کو پرایا کر جائے گی۔

پیتم نے سب سے رہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
ہر رنگ نیا، ہر بات نئی
اب دن بھی نیا اور رات نئی

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ جب اس لڑکی کو اس کے محبوب شوہر نے اسے سب سے الگ کیا۔اور یوں وہ ایک نئی دنیا دیکھنے لگی کہ جہاں کی ہر ہر بات اور ہر انداز نیا رنگ لیے ہوئے تھے۔ اس کی یہ دنیا اس کی پچھلی دنیا سے یکسر مختلف تھی۔یہاں کے دن اور راتیں بھی ایک الگ انداز لیے ہوئے تھے۔

اب چین کی راہ سجھائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
اپنا محل بنائیں گے
اب اور کے در پہ نہ جائیں گے
اک گھر کی راہ سجھائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی اب اپنا

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اس نئی دنیا میں اسے کچھ سکون اور اطمینان کی گھڑیاں بھی نصیب ہوئی کہ اس نے خواب دیکھا کہ اپنا میکہ چھوڑنے کے بعد اب یہ اس کا اپنا گھر ہے یہی وہ اپنے خوابوں کا محل تعمیر کرے گی اور میکے میں چونکہ اس نے ساری زندگی پرایا گھر تصور کرتے ہوئے گزار دی مگر یہاں اب وہ کسی اور کے دروازے پر کبھی نہ جائے گی۔اب اسے ایک گھر، ایک راستے اور ایک نئی دنیا کی راہ دکھائی دی۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

اس گیت میں لڑکی کس نئی دنیا میں قدم رکھ رہی ہے؟

اس گیت میں لڑکی اپنا میکہ چھوڑ اپنے سسرال یعنی محبوب شوہر کے گھر ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے جارہی ہے کہ جہاں کاسب کچھ نیا اور الگ انداز لیے ہوئے ہے۔

اب سکھ نے بدلا بھیس نیا سے کیا مراد ہے؟

اب سکھ نے بدلا بھیس نیا سے شاعر کی مراد ہے کہ اس نئھ دنیا میں اس لڑکی کے زندگی گزارنے اور سکھ و خوشیوں کا انداز بدل گیا۔ کہ پہلے جو سکون اور خوشی اپنے میکے والوں کے ساتھ نصیب تھی اسے اب اس نے اپنے شوہر اور اس کے گھر میں تلاشنا تھا۔ یہاں ایک نئی زندگی اور اس کا سکون اس کا منتظر تھا۔

اپنامحل بنانا اور دوسرے کے در پہ نہ جانا کے کیا معنی ہیں؟

اپنا محل بنانا اور دوسرے کے در پر نہ جانا کے معنی ءہ ہین کہ اس کے شوہر کا گھر ہی اب اس کا گھر اور خوابوں کا محل ہو گا۔اب اس کا اصل گھر یہی ہے اور وہ یہاں سے کہیں نہیں جائے گی۔ اس کا میکہ کے جسے وہ اپنا گھر تصور کرتی تھی اب پیچھے رہ چکا ہے۔