Advertisement
Advertisement
  • کتاب”اردو گلدستہ” برائے ساتویں جماعت
  • سبق نمبر07: نظم
  • شاعر کا نام:تلوک چند محروم
  • نظم کا نام:ترانہ وحدت

نظم ترانہ وحدت کی تشریح

ہر ذرے میں ہے ظہور تیرا
ہے برق و شرر میں نور تیرا

یہ شعر تلوک چند محروم کی نظم “ترانہ وحدت” سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی ذات کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس دنیا کے ہر ایک ذرے میں اللہ تعالیٰ کی عظمت جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔چاہے وہ برق یعنی بجلی ہو کہ یا کوئی شعلہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی ذات جھلکتی ہے۔

Advertisement
افسانہ تیرا جہاں تہاں ہے
چرچا ہے قریب و دور تیرا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں ہر جگہ پی تیری ذات کا افسانہ ہی سنائی دیتا ہے۔ قریب ہو یا دور ہر جا تیری عظمت ہے اور تیری عظمت کے ترانوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔

گاتے ہیں ہوا میں شجر کیا کیا
دم بھرتے ہیں سب طیور تیرا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہوا میں لہلاتے ہوئے شجر تیری ہی عظمت کے گیت گاتے سنائی دیتے ہیں۔ سب چرند پرند بھی اللہ کی ذات کی بڑائی بیان کرتے ہوئے اسی کی تعریف کرتے ہیں۔

Advertisement
تو جلوہ فگن کہاں نہیں ہے
وہ جا نہیں تو جہاں نہیں ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی ذات دنیا کی ہر چیز میں اپنی جھلک رکھتی ہے اور کونسی ایسی شے ہے جس میں اس ذات کی جھلک موجود نہ ہو۔ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پہ اللہ پاک کی ذات موجود نہ ہو۔

Advertisement
تاروں میں چمک دمک تیری ہے
جو رعد میں ہے کڑک تیری ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تاروں میں موجود چمک بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے نور کی جھلک ہے۔ جو بادل کڑکتے ہیں ان کی کڑک بھی اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کا جلوہ ہے۔ ان کی کڑک میں دراصل اللہ پاک کی ذات کا رعب اپنی جھلک دکھلاتا ہے۔

اے باعث رونق گلستان
شاخوں میں لہک چہک تیری ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ تیری پاک ذات ہی کی بدولت باغ کی اور اس دنیا کی رونق ہے۔ شاخوں میں جو پھول پتے لہک رہے ان میں موجود چمک بھی تیری ذات کے دم سے ہی ہے۔

Advertisement
ہر غنچے میں ترا تبسم
ہر گل میں بھری مہک تری ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہر غنچے پھول کلی سب میں تیرا تبسم مسکراہٹ جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہر ایک پھول کی کلی میں بھی تیری پاک ذات کی خوشبو موجود ہے۔

نغمے مرغان خوش گلو کے
کہتے ہیں یہ سب چہک تری ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہر طرف خوش گوار آوازیں آ رہی ہیں اور پرندوں کے خوشی کے نغمے گونج رہے ہیں۔ان سب پرندوں کی چہک سنائی دے رہی ہے۔

کہتی ہے کلی کلی زباں سے
میری نہیں یہ چٹک تری ہے

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ ہرایک کلی زبان سے بول کر کہتی ہے کہ اللہ کی ذات عظیم ہے۔بلکہ یہ کلیاں جو چٹکتی ہیں یہ بھی اللہ ہی کی رحمت ہے۔

سوالات:

اس نظم میں شاعر کس سے مخاطب ہے؟

اس نظم میں شاعر اللہ تعالی کی ذات سے مخاطب ہے۔

Advertisement

شاعر نےخدا کو باعث رونق گلستان کیوں کہا ہے؟

شاعر نے باغ میں کھلنے والے پھولوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا ایجاز قرار دیا ہے کہ باغ کی تمام بہاریں اللہ پاک کی ذات کی ہی بدولت ہیں اس لیے شاعر نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو گلستان کی رونق کہا ہے۔

نظم میں خدا کے جلوے کن کن چیزوں سے ظاہر ہو رہے ہیں؟

نظم میں خدا کے جلوے باغ ، پھول ،پودوں ، پرندوں کی چہک ، غنچوں کے تبسم ، رعد کی کڑک ، تاروں کی دمک غرض تمام چیزوں سے اللہ کی ذات کے جلوے ظاہر ہو رہے ہیں۔

Advertisement

Advertisement