نظم وقت کا ترانہ کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • باب نمبر 11:حصہ نظم
  • صنف ادب:نظم
  • شاعر کا نام: علی سردار جعفری
  • نظم کا نام: وقت کا ترانہ کی تشریح

اشعار کی تشریح:

توں نے لاکھوں بہاریں دیکھی ہیں
اب کی اس ملک کی بہار ہے اور
وادیاں گونجتی ہیں نعروں سے
ساز و آہنگ آبشار ہے اور

تشریح:

یہ نظم”علی سردار جعفری” کی طویل نظم ہے۔ جو کہ کئی حصوں پر مشتمل ہے۔پیش نظر حصہ نظم ان کی اسی طویل نظم سے لیا گیا ہے۔اس نظم میں انھوں نے سامراجی نظام اور بادشاہت کے خلاف انقلاب کا نعرہ بلند کیا ہے۔اس بند میں شاعر انھی سامراجی قوتوں کو للکار کر کہتا ہے کہ تم نے کئی طرح کی بہاریں دیکھی ہوں گی مگر اب کی بار اس ملک پر جو بہار آ رہی ہے اس کے رنگ نرالے ہیں۔اب یہاں کی وادیاں نعروں سے گونجتی ہیں۔ان کے نعروں کی گونج ایک الگ ساز لیے ہوئے ہے جیسے کہ آبشار کے جھرنے کی سی گونج ہو ان میں۔

قافلہ انقلاب کا ہے رواں
بج رہی ہے خوشی کی شہنائی
زلزلوں سے دہل رہی ہے زمیں
لے رہے ہیں پہاڑ انگڑائی

تشریح:

اس بندمیں شاعر کہتا ہے کہ انقلاب کا وقت آ چکا ہے اور انقلاب کا ایک قافلہ رواں ہے۔خوشی کی شہنائیاں بج رہی ہیں۔انقلاب سے آنے والی یہ تبدیلی اس قدر زور آور ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمین کسی زلزلے سے دہل رہی ہے یا کوئی پہاڑ انگڑائی لے رہا ہو۔شاعر نے زلزلے اور پہاڑ کی انگڑائی سے انقلاب کی شدت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

سلگ اٹھی ہے انتقام کی آگ
برف کی چوٹیاں دہکتی ہیں
ظلم اور جبر کے اندھیرے میں
سیکڑوں بجلیاں چمکتی ہیں

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب یہ انتقام کی آگ سلگ اٹھی ہے اس آگ میں اس قدر شدت ہے کہ برف کی چوٹیاں بھی دہکنے لگ گئی ہیں۔اور ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی ان آوازوں میں ایسی شدت ہے کہ جیسے اندھیرے میں سینکڑوں بجلیاں چمک اٹھی ہوں۔

جن کو کچلا گیا ہے صدیوں سے
آج تک ان کے دل دھڑکتے ہیں
زندگی کے بجھے ہوئے شعلے
اک نئی شان سے بھڑکتے ہیں

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ صدیوں سے جن لوگوں کو کچلا جا رہا تھا ان میں زندگی کے احساس کا بے شک خاتمہ ہو چکا ہو مگر ان کے دلوں کی دھڑکنیں تو اب بھی باقی ہیں نا اور اب اس انقلاب کی گرمی سے ان میں ایک نیا ولولہ اور احساس آ چکا ہے اور ان کے دل نئے انداز اور نئج شان سے دھڑکنے لگے ہیں۔

فصل کے ساتھ ساتھ کھیتوں سے
اگ رہی ہے بغاوتوں کی سپاہ
جگمگاتی ہے عدل کی شمشیر
مل سکے گی نہ ظالموں کو پناہ

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ محنت کش و مزدور طبقہ اپنی فصلوں کے ساتھ ساتھ کھیت سے اب بغاوت کی فوج بھی تیار کر رہی ہے۔ اب انصاف کا بول بالا ہو رہا ہے اور انصاف کی تلوار ہر جانب لہرانے لگ گئی ہے۔یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ظالموں کو اب مزید کوئی پناہ نہیں مل سکے گی۔

کارخانوں کے آہنی دل سے
ایک سیلاب سا ابلتا ہے
سرخ پرچم ہوا کے سینے پر
بن کے رنگ شفق مچلتا ہے

تشریح:

شاعر نے اس بند میں سرخ رنگ کو انقلاب کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کارخانوں میں سے بھی اب ایک سیلاب کی مانند انقلاب اگل رہا ہے۔ اور سرخ رنگ کا انقلابی پرچم ہر سو ایسے پھیل رہا ہے کہ جیسے شفق کی سرخی آسماں پر پھیلی ہوئی ہو۔

یہی ہندوستان کا ساحل ہے
جس پہ ٹوٹا غرور سلطانی
آگ سی لگ گئی ہے پانی میں
موجیں کرتی ہیں شعلہ افشانی

تشریح:

شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ ہندوستان کے اسی ساحل پر سلطانوں کا غرور ٹوٹا تھااور اب دوبارہ اسی ملک کی سرزمین پر ساحل کی موجیں یہ شعلے اگل رہی ہیں انقلاب کی آمد ہے۔

بادباں کھل گئے بغاوت کے
بمبئی کے جہازیوں کو سلام
جو شہنشا ہیت سے ٹکرائے
ایسے جاں باز غازیوں کو سلام

تشریح:

شاعر کہتا ہے کہ ہر جانب بغاوت کا آغاز ہوگیا ہے اور بمبئی کے جہاز شہشایت سے ٹکرانے کو تیار ہیں۔ شہشایت سے ٹکر لینے والے ان جاں باز سپاہیوں کی عظمت کو سلام ہے۔ انقلاب کی خاطر وہ ہر لمحہ اپنی جان داؤ پر لگانے کو تیار ہیں۔

دیدنی اہل شہر کا ہے شکوہ
گولیاں روکتے ہیں سینوں پر
لب پہ نعرے،نگہ میں عزم جہاد
حریت ضو فگن جبینوں پر

تشریح:

شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ اس انقلاب کی جنگ میں ہر کوئی پیش پیش ہے شہر والوں کی ہمت و جرات دیکھنے کے قابل ہے کہ وہ اپنے سینوں پر گولیاں روک رہے ہیں۔ ان کے لبوں پر انقلاب کے حق میں نعروں کی گونج اور ان کے اندر جہاد کا عزم موجود ہے۔آزادی اور حریت ہرپل ان کے چہروں پر جلوہ فگن ہے۔

ہر سڑک پر سمندروں کا ابال
ہر گلی میں ہے جوش طوفانی
غرق کر دے گی با دشاہی کو
آدمی کے لہو کی طغیانی

تشریح:

شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ ہر جگہ ہر طرف اس انقلاب کے خلاف لوگوں کا ابال موجود ہے۔ملک کے چپے چپے میں طوفان کا سا جوش موجود ہے۔یہ طوفان اور جوش اس بات کا گواہ ہے کہ یہ سامراجی نظام کی بادشاہت کو ضرور تباہ کرے گی کیونکہ یہ سیلاب کوئی عام سیلاب نہیں ہے بلکہ یہ انقلاب کے خلاف آوازیں بلند کرنے والوں کے لہو کا سیلاب ہے۔

سوالات:

سوال نمبر 1:”کھیتوں سے بغا وتوں کی سپاہ اگنے” کا کیا مطلب ہے؟

کھیتوں سے بغاوت کی سپاہ اگنے سے مراد ہے کہ انقلاب کے دعوے دار جن کا تعلق کسانوں کے طبقے سے ہے وہ فصلیں اگانے کے ساتھ ساتھ اپنے کھیتوں سے بغاوت کے خلاف فوج بھی اگا رہے ہیں مطلب کے کسان طبقہ بھی پوری طرح بغاوت کے خلاف اور انقلاب کے حق میں ہے۔

سوال نمبر 2: “سرخ پرچم” کس بات کی علامت ہے؟

سرخ پرچم ظلم و ستم کے خلاف اعلان جنگ کی علامت ہے۔انقلاب کا نعرہ ہے۔

سوال نمبر 3: آدمی کے لہو کی طغیانی بادشاہت کو کس طرح غرق کر دے گی؟

آدمی کے لہو میں سمندروں کے پانی سا زور ہے اور طوفانی جوش موجود ہے جو ان کی بادشاہت کو کسی زور آور سمندری طوفان کی طرح تباہ کر کے غرق کر دے گی۔

عملی کام:-

اپنی کتاب سے مرکب اضافی کی پانچ مثا لیں تلاش کر کے لکھیے۔

آہنگ آبشار، رنگ شفق، غرورِ عشق، غرورِ حسن، غرورِ سلطانی، اہل علم، اہل شہر، عزم جہاد وغیرہ۔