نظم نئی کہانی کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • کتاب “ابتدائی اردو” برائے دوسری جماعت
  • سبق نمبر16: نظم
  • شاعر کا نام:سیدہ فرحت
  • نظم کا نام: نئی کہانی

نظم نئی کہانی کی تشریح

ہم نہ سنیں گے اب یہ کہانی
ایک تھا راجہ ایک تھی رانی

یہ شعر “سیدہ فرحت” کی نظم “نئی کہانی” سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں ایک بچے کی کہانی سننے کی خواہش کو بیان کیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ بچّہ اپنی ماں سے یہ کہتا ہے کہ ہمیشہ سے وہ ایک ہی کہانی سنتے آیا ہے جس میں ایک راجا اور ایک رانی ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ راجا اور رانی کی کہانیاں مزید نہیں سننا چاہتا ہے اس لیے اب اسے کوئی نئی کہانی سننی ہے۔

نئی کہانی ہمیں سناؤ
امی ہمارا جی بہلاؤ

اس شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ بچّہ راجا اور رانی کی کہانی نہ سننے کی فرمائش کرتے ہوئے اپنی ماں سے کہتا ہے کہ اب کی بار اسے کوئی نئی کہانی جو اس نے نی تو پہلے سن رکھی ہو اور نہ اس میں راجا رانی کا ذکر موجقد موجود ہو اسے ویسی کہانی سنائی جائے۔

ہم نہ سنیں گے شیر کا قصہ
آ جاتا ہے ہم کو غصہ

اس شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ بچہ اپنی ماں سے جہاں راجا رانی کی کہانی نہ سننانے کا کہتا ہے وہیں اس کی یہ فرمائش بھی ہے کہ اسے کسی بہادر شیر کا قصہ بھی نہ سنایا جائے کیونکہ شیرکا قصہ سن کر اس بچے کو غصہ آ جاتا ہے۔ اس لیے بچّہ اب کوئی بھی فرضی کہانی نہیں سننا چاہتا ہے۔

ہم تو سنیں گے قصہ ایسا
ایک ہو بچہ اپنے جیسا

اس شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ بچہ شیر یا راجا رانی کی کہانی سننے کی بجائے جیسی کہانی سننا چاہتا ہے وہ دراصل میں ایسی کہانی ہو جس کا حقیقی زندگی سے تعلق ہو یعنی اس میں کسی فرضی اور من گھڑت قصے کی بجائے اس بچے جیسا جیتا جاگتا اور حقیقی کردار موجود ہو۔

پار کرے جو سات سمندر
سیر کرے آکاش پہ جا کر

اس شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ وہ بچہ یہ چاہتا ہے اسے جو کہانی سنائی جائے وہ حقیقت پر مبنی ہو یا کم از کم اسے حقیقت میں ڈھالا جا سکتا ہو یعنی اسے ایسی کہانی سننی ہے جس میں بچہ سات سمندر پار کرے یعنی اس دنیا کی سیر کرے اس سر زمین کو جانے یا پھر وہ ایسی کہانی ہو کہ جس میں وہ بچہ ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آسمانوں کی سیر کو ممکن کر سکے۔

بادل میں وہ جھولا جھولے
چاند ستاروں کو بھی چھو لے

اس شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ وہ بچہ چاہتا ہے کہ وہ بادلوں سے بھی آگے اپنی منزل تلاشے وہ بادلوں کو اپنا جھولا بنانا چاہتا ہے اور اسی ترقی کی منازل طے کرنا چاہتا ہے کہ جہاں اس کا ستاروں کو چھو لینا بھی ممکن ہو سکے۔

امی میری اچھی امی
کہہ دو آج کہانی ایسی

نظم کے اس آخری شعر میں بچہ اپنی ماں سے فرمائش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری اچھی اور پیاری امی مجھے کوئی ایسی کہانی آج سنا دو جیسی کہ میں سننے کی خواہش رکھتا ہوں یعنی کہ وہ کہانی حقیقت پہ مبنی ہو۔

ان سوالوں کے جواب دیجیے۔

بچہ کیسی کہانی سننا چاہتا ہے؟

بچہ ایسی کہانی سننا چاہتا ہے جس میں اس جیسا اچھا بچہ ہو جو سات سمندر پار جائے اور آسمانوں کی سیر کرے۔ جو بادلوں میں جھولا جھولے اور چاند ستاروں کو بھی چھو لے۔

بچہ نئی کہانی کس سے سننا چاہتا ہے؟

بچہ اپنی امی ( ماں ) سے نئی کہانی سںںا چاہتا ہے۔

بچے کو غصہ کس بات پر آتا ہے؟

بچے کو شیر کا قصہ سننے پہ غصہ آ جاتا ہے۔

بچہ کہاں کی سیر کرنا چاہتا ہے؟

بچہ سات سمندر پار اور آسمان کی سیر کرنا چاہتا ہے۔

بچہ کن چیزوں کو چھونا چاہتا تھا؟

بچہ چاند اور ستاروں کو چھونا چاہتا ہے۔

خالی جگہوں میں مناسب لفظ لکھیے۔

  • قصہ ، کہانی ، اچھی ، بچہ ، جھولا۔
  • نئی کہانی ہمیں سناؤ
  • ہم نہ سنیں گے شیر کا قصہ
  • ایک ہو بچہ اپنے جیسا
  • بادل میں وہ جھولا جھولے
  • امی میری اچھی امی

نیچے دیے ہوۓ لفظوں کے صحیح حرف پر تشدید لگا کر لکھیے۔

امی امّی
قصہ قصّہ
غصہ غصّہ
بچہ بچّہ
ا چھی اچھّی

نظم کی مدد سے حصہ ‘الف’ اور ‘ب’ کے صحیح جوڑ ملائیے۔

الف ب
ہم نہ سنیں گے اب یہ کہانی ایک تھا راجہ ایک تھی رانی
ہم نہ سنیں گے شیر کا قصہ آ جاتا ہے ہم کو غصہ
پار کرے جو سات سمندر سیر کرے آکاش پہ جا کر
بادل میں وہ جھولا جھولے چاند ستاروں کو بھی چھو لے
امی میری اچھی امی کہہ دو آج کہانی ایسی

مثال دیکھ کر نیچے دیے ہوۓ لفظوں کو بدل کر لکھیے۔

بچّہ بچّوں
قصّہ قصّوں
پرندہ پرندوں
ستارہ ستاروں
ہفتہ ہفتوں
حصّہ حصّوں

نظم دیکھ کر دوسری لائن لکھیے۔

ہم نہ سنیں گے اب یہ کہانی
ایک تھا راجہ ایک تھی رانی
ہم نہ سنیں گے شیر کا قصہ
آ جاتا ہے ہم کو غصہ
پار کرے جو سات سمندر
سیر کرے آکاش پہ جا کر
بادل میں وہ جھولا جھولے
چاند ستاروں کو بھی چھو لے
امی میری اچھی امی
کہہ دو آج کہانی ایسی

نیچے دی ہوئی تصویروں کے نام لکھیے۔

  • شیر ، چاند ، تارے
  • رانی ، بادل ، راجا

خوش خط لکھیے۔

کہانی ، بہلانا ، آکاش ، سمندر ، جھولا۔