Advertisement
Advertisement

نہکتاب”گلزارِ اردو”برائے نویں جماعت۔

Advertisement

تعارف مصنف:

ناصر کاظمی جدید اردو شاعری کا ایک بڑا نام ہیں۔آپ کا پورا نام ناصر رضا کاظمی تھا جبکہ آپ ناصر تخلص کرتے تھے۔1925ء میں آپ کی پیدائش انبالہ میں ہوئی اور1972ء میں سینتالیس برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔آپ کی غزلوں کے مجموعوں میں “دیوان”،”برگ نے”اور “پہلی بارش”شامل ہیں۔ “پہلی بارش” ان کے انتقال کے بعد 1975ء میں شائع ہوا۔ آپ کی دع نثری تصانیف “ناصر کاظمی کی ڈائری” اور مضامین کی کتاب “خشک چشمے کے کنارے” شامل ہیں۔ آپ “اوراق نو” اور ” ہمایوں” جیسے رسائل کے مدیر بھی رہے۔ ناصر کاظمی جدید غزل کے نمائندہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی غزلیں اپنے دھیمے لہجے،دبے دبے درد اور جدید طرز احساس کی وجہ سے ممتاز ہے۔آپ نے اپنی شاعری میں اکثر ایسے الفاظ کو بھی برتا ہے جو غزلیہ شاعری میں عام نہیں تھے۔ناصر کاظمی کے کلام میں بے حد تازگی پائی جاتی ہے۔آپ نے اردو غزل کی داخلیت اور درو بینی کو اپنے عہد کی عام اداسی کا ترجمان بنایا ہے۔

اشعار کی تشریح:-

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
شب فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

یہ شعر ناصر کاظمی کی غزل سے لیا گیا ہے اس شعر میں شاعر محبوب سے جدائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اکثر میری تنہائی خود کو تمھارے خیالوں کی لو سے روشن کرتی ہے۔محبوب کے خیال شاعر پر اس طور غالب آ جاتے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے کہ یہ فراق کی رات تھی کہ اس نے محبوب کی یادوں سے خود کو روشن کیا تھا یا محبوب حقیقت میں اس کے سامنے جلوہ آرا ہے۔

Advertisement
تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تم پر نئی منزلوں کی ایک دھن سوار ہے اور تم نے خود کو نئی راہوں اور منزلوں کا شیدا کر رکھا ہے مگر ان پر بھی غور کی ضرورت ہے جو کہ اکثر راستے میں ہی اپنی منزل سے بھٹک جاتے یعنی سو جاتے ہیں۔

Advertisement
رہ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ زندگی کی راہ میں کئی طرح کی منزلوں سے میرا واسطہ پڑا۔ہر منزل کو باآسانی اور بخوبی پار کرنے کی بھی کوشش کی لیکن ایک تمھاری طلب اور آرزو(یعنی محبوب کو پانے کی خواہش) ہی ایسی منزل ٹھہری جو مجھے چاہا کر بھی راس نہ آئی۔

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

اس شعر میں شاعر ایک بہت درد بھری کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبت میں مجھ پر جہاں بڑے بڑے سانحے گزرے وہاں ایک سب سے اذیت ناک سانحہ یہ بھی تھا کہ جس کی یاد میں میرا حال بے حال تھا اور جس محبوب کا فراق میری زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا اسی نے مجھ سےاکثر میرا حال دریافت کیا جو ایک سراسر اذیت تھی۔

Advertisement
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی

اس شعر میں شاعر ایک خواب کی سی کیفیت سے جگنے کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب یہ خواب کی کیفیت چھٹی اور آنکھ کھلنے پر یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ وہ پرانے لوگ یا وہ لوگ جو کبھی شہر اور اس کی محفلوں کی رونق ہوا کرتے تھے وہی موجود نہیں ہیں۔

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصرؔ
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

اس شعر میں شاعر محبوب کی یاد اور اس کے فراق کی تڑپ کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نجانے کیوں آج پھر سے میرا دل اس شخص کی یاد میں بے چینی اور تڑپ محسوس کر رہا ہے جس سے بھچڑنا میرے لیے شہر شہر رسوائی کا سبب تھا۔

سوالوں کے جواب لکھیے:-

سوال نمبر01:منزلوں کے شیدائی کے لیے شاعر کا کیا مشورہ ہے؟

منزلوں کے شیدائی کے لیے شاعر کا مشورہ ہے کہ ان لوگوں پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جو کبھی منزل کی تلاش میں راستے میں ہی سو گئے۔

سوال نمبر02:درج ذیل شعر میں شاعر نے کس لطیف احساس کی عکاسی کی ہے؟

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

اس شعر میں شاعر ایک بہت درد بھری کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبت میں مجھ پر جہاں بڑے بڑے سانحے گزرے وہاں ایک سب سے اذیت ناک سانحہ یہ بھی تھا کہ جس کی یاد میں میرا حال بے حال تھا اور جس محبوب کا فراق میری زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا اسی نے مجھ سےاکثر میرا حال دریافت کیا جو ایک سراسر اذیت تھی۔

Advertisement

سوال نمبر03:آنکھ کھلنے کے بعدشاعر نے کیا سماں دیکھا؟

آنکھ کھلنے کے بعد یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ وہ پرانے لوگ یا وہ لوگ جو کبھی شہر اور اس کی محفلوں کی رونق ہوا کرتے تھے وہی موجود نہیں ہیں۔

Advertisement

Advertisement