NCERT Gulzar e Urdu Chapter 8 | ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی تشریح

0

نہکتاب”گلزارِ اردو”برائے نویں جماعت۔

تعارف مصنف:

ناصر کاظمی جدید اردو شاعری کا ایک بڑا نام ہیں۔آپ کا پورا نام ناصر رضا کاظمی تھا جبکہ آپ ناصر تخلص کرتے تھے۔1925ء میں آپ کی پیدائش انبالہ میں ہوئی اور1972ء میں سینتالیس برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔آپ کی غزلوں کے مجموعوں میں “دیوان”،”برگ نے”اور “پہلی بارش”شامل ہیں۔ “پہلی بارش” ان کے انتقال کے بعد 1975ء میں شائع ہوا۔ آپ کی دع نثری تصانیف “ناصر کاظمی کی ڈائری” اور مضامین کی کتاب “خشک چشمے کے کنارے” شامل ہیں۔ آپ “اوراق نو” اور ” ہمایوں” جیسے رسائل کے مدیر بھی رہے۔ ناصر کاظمی جدید غزل کے نمائندہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی غزلیں اپنے دھیمے لہجے،دبے دبے درد اور جدید طرز احساس کی وجہ سے ممتاز ہے۔آپ نے اپنی شاعری میں اکثر ایسے الفاظ کو بھی برتا ہے جو غزلیہ شاعری میں عام نہیں تھے۔ناصر کاظمی کے کلام میں بے حد تازگی پائی جاتی ہے۔آپ نے اردو غزل کی داخلیت اور درو بینی کو اپنے عہد کی عام اداسی کا ترجمان بنایا ہے۔

اشعار کی تشریح:-

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
شب فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

یہ شعر ناصر کاظمی کی غزل سے لیا گیا ہے اس شعر میں شاعر محبوب سے جدائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اکثر میری تنہائی خود کو تمھارے خیالوں کی لو سے روشن کرتی ہے۔محبوب کے خیال شاعر پر اس طور غالب آ جاتے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے کہ یہ فراق کی رات تھی کہ اس نے محبوب کی یادوں سے خود کو روشن کیا تھا یا محبوب حقیقت میں اس کے سامنے جلوہ آرا ہے۔

تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تم پر نئی منزلوں کی ایک دھن سوار ہے اور تم نے خود کو نئی راہوں اور منزلوں کا شیدا کر رکھا ہے مگر ان پر بھی غور کی ضرورت ہے جو کہ اکثر راستے میں ہی اپنی منزل سے بھٹک جاتے یعنی سو جاتے ہیں۔

رہ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ زندگی کی راہ میں کئی طرح کی منزلوں سے میرا واسطہ پڑا۔ہر منزل کو باآسانی اور بخوبی پار کرنے کی بھی کوشش کی لیکن ایک تمھاری طلب اور آرزو(یعنی محبوب کو پانے کی خواہش) ہی ایسی منزل ٹھہری جو مجھے چاہا کر بھی راس نہ آئی۔

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

اس شعر میں شاعر ایک بہت درد بھری کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبت میں مجھ پر جہاں بڑے بڑے سانحے گزرے وہاں ایک سب سے اذیت ناک سانحہ یہ بھی تھا کہ جس کی یاد میں میرا حال بے حال تھا اور جس محبوب کا فراق میری زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا اسی نے مجھ سےاکثر میرا حال دریافت کیا جو ایک سراسر اذیت تھی۔

کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی

اس شعر میں شاعر ایک خواب کی سی کیفیت سے جگنے کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب یہ خواب کی کیفیت چھٹی اور آنکھ کھلنے پر یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ وہ پرانے لوگ یا وہ لوگ جو کبھی شہر اور اس کی محفلوں کی رونق ہوا کرتے تھے وہی موجود نہیں ہیں۔

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصرؔ
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

اس شعر میں شاعر محبوب کی یاد اور اس کے فراق کی تڑپ کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نجانے کیوں آج پھر سے میرا دل اس شخص کی یاد میں بے چینی اور تڑپ محسوس کر رہا ہے جس سے بھچڑنا میرے لیے شہر شہر رسوائی کا سبب تھا۔

سوالوں کے جواب لکھیے:-

سوال نمبر01:منزلوں کے شیدائی کے لیے شاعر کا کیا مشورہ ہے؟

منزلوں کے شیدائی کے لیے شاعر کا مشورہ ہے کہ ان لوگوں پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جو کبھی منزل کی تلاش میں راستے میں ہی سو گئے۔

سوال نمبر02:درج ذیل شعر میں شاعر نے کس لطیف احساس کی عکاسی کی ہے؟

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

اس شعر میں شاعر ایک بہت درد بھری کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبت میں مجھ پر جہاں بڑے بڑے سانحے گزرے وہاں ایک سب سے اذیت ناک سانحہ یہ بھی تھا کہ جس کی یاد میں میرا حال بے حال تھا اور جس محبوب کا فراق میری زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا اسی نے مجھ سےاکثر میرا حال دریافت کیا جو ایک سراسر اذیت تھی۔

سوال نمبر03:آنکھ کھلنے کے بعدشاعر نے کیا سماں دیکھا؟

آنکھ کھلنے کے بعد یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ وہ پرانے لوگ یا وہ لوگ جو کبھی شہر اور اس کی محفلوں کی رونق ہوا کرتے تھے وہی موجود نہیں ہیں۔