ایماں ہے ہمارا

0
از قلم دلشاد دل سکندر پوری
ایماں ہے ہمارا ایماں ہے ہمارا
کرتا ہے مدح آپ کی قرآن کا پارہ
حاصل ہے فرشتوں کو جو یہ صور کا صدقہ
موسی کو جو حاصل ہے سرے طور کا صدقہ
یوسف کو کہاں ملتا رخ حور کا صدقہ
تخلیق دوعالم ہے تیرے نور کا صدقہ
منسوب تیری ذات سے ہے کن کا اشارہ
تو ذات خدا مظہر لو لاک لما ہے
القاب تیرا صل علی نور خدا ہے
توں ہاشمی رحمان و امیں صدق و وفا ہے
کونین کا ہر ذرہ ترے دم سے بنا ہے
بہتا ہے تیرے نام سے دریا کا یہ دھارا
ہونٹوں پہ تیرا نام سجا لیتے ہیں ہم سب
دنیا کے مصائب کو اٹھا لیتے ہیں ہم سب
دریاؤں میں اک راہ بنا لیتے ہیں ہم سب
طوفاں میں چراغوں کو جلا لیتے ہیں سب
اے فخر رسل ہم پہ جو احساں ہے تمھارا
تعلیم فنا اور بقا اس سے ملی ہے
بے پردا سروں کو بھی ردا اس سے ملی ہے
سنسار کو جینے کی ادا اس سے ملی ہے
بیمار مریضوں کو شفا اس سے ملی ہے
سرکا ر کی آمد کا لگاتے رہو نعرہ
قرآن ملا دین کے رہبر کی بدولت
منبر ہے یہ اصحاب کے جوہر کی بدولت
مسجد میں ازاں یارے پیمبر کی بدولت
بوبکر و عمر عٿماں و حیدر کی بدولت
اسلام کی کشتی کو دیا تم نے کنارا
یہ گھر نہیں گھر ہوتا یہ حیوان کا مسکن
انسانی زہن ہوتا یہ شیطان کا مسکن
کعبہ نا کبھی ہوتا یہ ایمان کا مسکن
دل ہوتا نا پھر سید سلطان کا مسکن
ہے شکر خدا اس نے جو قرآن اتارا
پتھر بھی پگھل سکتا ہےاک ماں کی دعا سے
زم زم بھی ابل سکتا ہے اک ماں کی دعا سے
گرتا بھی سنبھل سکتا ہے اک ماں کی دعا سے
حاکم بھی بدل سکتا ہے اک ماں کی دعا سے
ماں ایسی ہیں تاریخ میں دو ہاجرہ سارہ
کربلا میں گرا جو وہ پیمبر کا لہو تھا,,,
زہرا کا جگر فاتح خیبر کا لہو تھا
چہرے پہ ملا جس کو وہ اصغر کا لہو تھا
مٹی پہ اگر گرتا تو محشر کا لہو تھا
اس خوں سے ہے روشن ابھی کعبے کا منارہ
اس صبر نے بخشی ہے بہتر کو جوانی
اسلام کے گلشن کے گل تر کو جوانی
تسبیح میں گوندھے ہوۓ گوہر کو جوانی
اس خوں سے ملی دین پیمبر کو جوانی
کربل میں دیا خون وہ حیدر کا دلارا
اجمیر کچھوچہ اسی بھارت کی زمیں پر
مخدوم ہیں خواجہ اسی بھارت کی زمیں پر
کلیر کہیں دیوا اسی بھارت کی زمیں پر
دل اس لئے شیدا اسی بھارت کی زمیں پر
یہ جان فدا اس پہ ہے ایمان ہمارا
انصارو مہاجر کے وہ سردار کی آمد
ہاں ہاں اسی مختار کی دلدار کی ہے آمد
ہم بے کسو افلاس کے غم خوار کی آمد
ہے آج زمیں پر اسی انوار کی آمد
صدیوں سے چمکتا تھا جو اک عرش پہ تارا
کسری سے فلسطین سے پہچان لے دنیا
فاروق کا تیور ہیں ہمیں جان لے دنیا
ہم خالد ے جاں باز ہیں یہ مان لے دنیا
تاریخ کے اوراق میں یہ چھان لے دنیا
دریا کی روانی پہ بھی قبضہ ہے ہمارا
تلواروں کے ساۓ میں ازاں دیتا گیا ہے
اور نام محمد وہ سدا پڑھتا گیا ہے
تپتے ہوۓ پتھر پہ اسے کھینچا گیا ہے
سانچے میں محبت کے مگر ڈھلتا گیا ہے
حبشہ کا وہ باشندہ ہے سرکار کا پیارا
اللہ کی رحمت سے بہت دور ہوۓ ہیں
دعویٰ ہے کہ جنت سے بہت دور ہوۓ ہیں
ہم اپنی شفاعت سے بہت دور ہوۓ ہیں
سرکار کی سنت سے بہت دور ہوۓ ہیں
پھر کیوں نہ مسلمان پھرے درد کا مارا
آئیگا نہ اب کوئی پیمبر.. تو اب جاگو
بن کر کے ابابیلوں کا لشکر. تو اب جاگو
غیرت ہے مسلمانوں کے رہبر تو اب جاگو
خطرے میں فلسطیں کا ہے منبر.. تو اب جاگو
اقصی کا صدا دیتا ہے گنبد وہ منارہ
جب فرقےء اسلام کو جوڈیں گے مسلماں
حالات کا رخ لمحوں میں موڈیں گے مسلماں
ظالم کی کلائ کو مروڈیں گے مسلماں
جب صبر کی دیوار کو توڈیں گے مسلماں
ڈھونڈے گی حکومت تیری پھر کشتی کنارا
گھبراتا ہے گھبراۓ زمانہ سرے محشر
مدحت کا لٹاوں گا خزانہ سرے محشر
قدموں میں ملے ان کے ٹھکانا سرے محشر
*دلشاد* *یہی نعت سنانا سرے محشر*
*محشر میں کریں گے وہ تری سمت اشارہ