میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں تشریح

0
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بُت کدۂ صفات میں
حُور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیّلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں
گرچہ ہے میری جُستجو دَیر و حرم کی نقش بند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
گاہ مری نگاہِ تیز چِیر گئی دلِ وجُود
گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہّمات میں
تُو نے یہ کیا غضب کِیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
مَیں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں!

شعر نمبر 1

میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بُت کدۂ صفات میں

مشکل الفاظ کے معانی:

غلغلہ ہنگامہ شور
الامان خدا کی پناہ، پناہ
بت کدۂ صفات کائنات، جس میں اہل بصیرت کو خدا کی مختلف صفتیں نظر آتی ہیں۔

تشریح: غزل کے پہلے شعر میں اقبال محبوب حقیقی کی بارگاہ میں عرض گزار ہیں کہ اے ذات مطلق، اے حسن مطلق، تیری ذات کا جلوہ مخلوق دیکھے یہ تو ممکن نہیں ، لیکن ہاں جذبۂ عشق میں بلند ہونے والی صدا سے ضرور دیم ذات میں ہنگامہ ہو سکتا ہے۔ اقبال اپنی شاعری کے حوالے سے یہ خصوصیت یہاں بیان کر رہے ہیں کہ میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات یعنی عرش معلیٰ پر ہنگامہ ضرور ہوا ہے اور کس قدر ہوا ہے کائنات میں جو تیری تخلیقیت سے تیری صفات ظاہر ہو رہی ہیں، موجودات اس ہنگامے سے خوفزدہ ہوکر اپنی حفاظت کی پناہ مانگ رہی ہیں۔

محاسنِ شعری: اس شعر میں اقبال نے اپنی شاعری اور انسان کے جذبۂ عشق کی بنا پر جو فریاد نکلتی ہے اسے ”نوائے شوق“ عرش اعظم کو ”حریم ذات“ موجودات کو ”بتکدۂ صفات“ جیسے استعاروں میں کامیابی سے ڈھالا ہے۔

شعر نمبر 2

حُور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیّلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں

مشکل الفاظ کے معانی:

اسیر قیدی
تخیلات تخیل کی جمع، ذہن میں آئے ہوئے خیالات
خلل رختہ، فتور
تجلیات تجلی کی جمع، خدا کے جلوے

تشریح : اس شعر میں بھی شاعر محبوب حقیقی کے دربار میں عرض گزار ہے کہ میں تیری ذات کا عاشق ہوں تیری مخلوقات کا نہیں، حور و فرشتہ اگر دنیا میں مادی وجود نہیں رکھتے لیکن وہ میرے خیالات میں اسیر ہیں۔ وہ میرا مقصود منزل نہیں وہ تو مصنوع ہیں، مجھے تو صانع کی تلاش ہے یعنی اے محبوب حقیقی ان موجودات کی حقیقت تو میں جان چکا ہوں یہ میری نگاہ میں جچتے نہیں ہیں۔ میری نگاہ تو تیری ذات میں خلل چاہتی ہے یعنی ی منت الہیہ تو یہ ہے کہ ایک نظام کے ساتھ موجودات جاری و ساری رہے اور اس محبوب حقیقی کا جلوہ نہ دیکھ پائے، لیکن اس نظام کے برعکس یہ چاہتا ہوں کہ یہ نظام خلل پذیر ہو اور میں ذات کا جلوہ پاسکوں۔

محاسن شعری: اس شعر میں بھی اقبال نے عشق کی شدید خواہش جلوۂ محبوب حقیقی کو مختلف استعارات و تعبیرات کے دبیز پردے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس شعر میں ”حور و فرشتہ“ تخیلات“ ”نگاہ“ اور ”تجلیات“ کی تعبیرات میں جمالیاتی عناصر کو ہنر مندی سے ڈھالا ہے۔

شعر نمبر 3

گرچہ ہے میری جُستجو دَیر و حرم کی نقش بند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں

مشکل الفاظ کے معانی:

جستجو تلاش ، تحقیق
دیر و حرم مندر اور کعبہ، کفر اور اسلام، الگ الگ دین و مذہب
نقشبند صورت گر ، کسی شے کو شکل دینے والی
فغاں فریاد، یہاں مراد ہے فکر انگیز شاعری
رستخیز قیامت، ہنگامہ
کعبہ و سومنات تمام اسلام و کفر کے حلقے

تشریح: اس شعر میں دو لفظ خاص ہیں ”جستجو“ اور ”فغاں“ جستجو سے مراد عقل و فکر ہے اور فغاں سے مراد ذکر کا ثمر عشق ہے۔ اس شعر میں دیر و حرم اور مختلف مذاہب کے اختلافات کی وجوہ پیش کیا ہے، عقلوں کے نتائج سے کراہتیں پیدا ہوئی ہیں ان کو نشان زد کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے اے حقیقی محبوب، اگرچہ انسان نے تیری جستجو میں رنگارنگ طریقے اختیار کیے ہیں اور وہ طریقے دیر و حرم۔ یعنی کسی تیرے چاہنے والے نے تجھے دیر میں مقید کیا تو کسی چاہنے والے نے حرم میں، اپنے اپنے رویے اور سوچ و عقیدے کے مطابق ہر کسی نے نتیجہ نکالا ہے۔ اختلاف مکان کے سبب خیالات میں اختلاف پیدا ہو گئے ہیں۔ حرم والوں کا کہنا ہے کہ تو دیر میں نہیں اور دیر والوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ تو حرم میں نہیں ہے، دراصل یہ اختلاف آرا عقل کا نتیجہ ہے۔ لیکن رہا عشق جس کو شاعر نے فغاں کہا ہے، جو ذکر کا نتیجہ ہے اس نے اس اختلاف کو مٹا دیا ہے۔ ان دونوں جگہ دیر و حرم میں ہنگامہ اور خلل پیدا کر دیا ہے، عشق حرم میں بھی تجھ کو پایا ہے اور دیر میں بھی تیرے جلووں کا نظارہ کرتا ہے۔

محاسن شعری: یہاں ”جستجو“ اور ”فغاں“ کنایوں کے ساتھ ساتھ ”دیر و حرم“ ” کعبہ و سومنات“ جیسی علامتوں کے ذریعے معنی کا ایک جہان حسین پیرائے میں آباد کر دیا ہے۔

شعر نمبر 4:

گاہ مری نگاہِ تیز چِیر گئی دلِ وجُود
گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہّمات میں

مشکل الفاظ کے معانی

گاہ کبھی
توہمات توہم کی جمع، وسوسے، شک، گمان
دل وجود کائنات کا باطن، اندرونی کیفیت، ہستی

تشریح: اس شعر میں اقبال نے سماج کی مختلف کیفیات اور کجیوں کو پیش کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ انسان اپنی اصلیت یا سرشت کے اعتبار سے ایسا ناقص اور محدود تصور ہے کہ وہ محض اپنی عقل کی مدد سے کائناتی یعنی (موجودات) حقیقت دریافت نہیں کر سکتا، ہاں اس کے دل میں عشق ایسی طاقت ہے کہ اس کی مدد سے وہ حقیقت کی معرفت حاصل کر لے۔ اقبال کے نظریے کے مطابق انسان پر دو حالتیں طاری ہوتی ہیں کبھی تو اس کی نگاہ اس قدر تیز ہو جاتی ہے کہ وہ کائنات کی حقیقت سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اس کی نگاہ وجود (شی) کے آر پار ہو جاتی ہے اور کبھی وہ اپنے ہی پیدا کردہ وہم، شک یا گمان کے توہمات میں الجھ جاتا ہے اور حقیقت کی معرفت سے قاصر رہتا ہے۔

محاسن شعری: اس شعر میں بھی دو تعبیریں ”دل وجود“ اور ”توہمات“ ایسی برتی گئی ہیں کہ جن میں معنی کا خزینہ موجود ہے۔ دل وجود سے استعارہ موجودات و مخلوقات کی حقیقت ہے اور توہمات سے استعارہ انسان کی اپنی بنائی رسومات، تصورات اور وہم و گمان ہیں، جن میں انسان اصل حقیقت سے ہٹ کر انہیں کو سب کچھ تصور کرتا رہتا ہے۔ غزل نام ہی اس صنف کا ہے جس میں شاعر اختصار اور مبہم لفظیات میں حسین پیرائہ اظہار خلق کرے۔

شعر نمبر 5

تُو نے یہ کیا غضب کِیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
مَیں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں!

مشکل الفاظ کے معانی

فاش کرنا ظاہر کرنا
الجھ کے رہ جانا اٹک کر یا پھنس کر رہ جانا
سینہ کائنات کائنات کا سینہ

تشریح: اس شعر کا مفہوم تو بہت وسیع ہے لیکن یہاں مختصراً پیش ہے کہ اقبال کے نظریے اور صوفیا کے نظریہ کے مطابق انسان خدا کا راز ہے، اس کا بھید ہے، خالق حقیقی کا شاہکار ہے، انسان فلاسفہ نہ ہو تو اس کو صرف جسم کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی صرف روح سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انسان کے باطن میں ایک جوہر ہے اور وہ ہے ’انا‘ لیکن یہ انا (خودی) مقید ہے اور محبوب حقیقی کی انا مطلق ہے لہذا اس مقید انا کا ایک خاص تعلق اناے مطلق سے ہے ہی وہ راز ہے جس راز سے متعلق اقبال خدا کی بارگاہ میں شوقیانہ لہجے میں استعجابی سر بلند کر رہے ہیں۔ دراصل یہ لہجہ مالک حقیقی یا محبوب حقیقی کی بارگاہ کے شایان شان نہیں ہے مگر شاعر اس کو بے تکلفانہ انداز دے کر خاص معنی اور کیفیت کو قارئین تک پہنچانا چاہتا ہے اس لئے شعر کی شریعت میں اس سے روا رکھا گیا ہے۔

شعری محاسن: اس شعر میں شوخی کے ساتھ ساتھ بے تکلفی کا حسن نظر آتا ہے اور جس طرح اقبال نے محبوب حقیقی کی جناب میں کلام کیا ہے اس کو شعراً اصطلاح میں مراعات شاعرانہ کہا جاتا ہے۔

از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک
اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری