Advertisement

نظم پرچھائیاں کی تشریح

جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچل
مچل رہا ہے کسی خواب مرمریں کی طرح
حسین پھول حسیں پتیاں حسیں شاخیں
لچک رہی ہیں کسی جسم نازنیں کی طرح
فضا میں گھل سے گئے ہیں افق کے نرم خطوط
زمیں حسین ہے خوابوں کی سرزمیں کی طرح
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
کبھی گمان کی صورت کبھی یقیں کی طرح
وہ پیڑ جن کے تلے ہم پناہ لیتے تھے
کھڑے ہیں آج بھی ساکت کسی امیں کی طرح
انہی کے سائے میں پھر آج دو دھڑکتے دل
خموش ہونٹوں سے کچھ کہنے سننے آئے ہیں
نہ جانے کتنی کشاکش سے کتنی کاوش سے
یہ سوتے جاگتے لمحے چرا کے لائے ہیں

شاعر اس بند میں رات کے منظر کی خوبصورتی کو یوں بیان کرتا ہے کہ رات کا حسن ایسا ہے کہ جیسے کسی جواں کے سینے پر کسی نے چاندی کا آنچل ڈال دیا ہو۔حسین پھول اور ا س کی پتیاں کسی نازک اندام حسینہ کی طرح شاخوں پر لچک رہی ہیں۔فضا میں آسمان کے سارے رنگ کھلے ہوئے ہیں۔زمین کا یہ سب حسن یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ کوئی حقیقت نہیں بلکہ خوابوں کی سرزمین ہو۔اس کے ساتھ ہی تصورات کے پردوں پر کچھ پرچھائیاں ابھر رہی ہیں جو کبھی خواب اور کبھی حقیقت کا گمان دیتی ہیں۔جن پیڑوں کے سائے میں کبھی ہم پناہ لیا کرتے تھے وہ آج بھی کسی گواہ کی طرح یہاں پر موجود ہیں۔انہی پیڑوں کے سائے میں آج پھر سے دو دل آکر کھڑے ہوگئے ہیں۔ان کے ہونٹ تو خاموش ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو کچھ کہنے اور سننے کےلیے یہاں پر موجود ہیں۔ نامعلوم کتنی کوششوں اور بھر پور ریاضتوں کے بعد آج وہ پھر سے ان لمحات کو چرا کر یہاں آن موجود ہوئے ہیں۔

Advertisement
وہ لمحے کتنے دل کش تھے وہ گھڑیاں کتنی پیاری تھیں
وہ سہرے کتنے نازک تھے وہ لڑیاں کتنی پیاری تھیں
بستی کی ہر اک شاداب گلی خوابوں کا جزیرہ تھی گویا
ہر موج نفس ہر موج صبا نغموں کا ذخیرہ تھی گویا

شاعر پچھلے گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کرکے کہتا ہے کہ وہ لمحے کتنے حسین تھے۔ان سہروں کی وہ نرم ونازک لڑیاں بھی بہت پیاری تھی کہ اس وقت یہ بستی خوابوں کا جزیرہ ہوا کرتی تھی۔یہاں کی ہر ہر موج نغموں سے گونجا کرتی تھی اور وہ نہایت ہی حسین لمحات ہوا کرتے تھے۔

ناگاہ لہکتے کھیتوں سے ٹاپوں کی صدائیں آنے لگیں
بارود کی بوجھل بو لے کر پچھم سے ہوائیں آنے لگیں
تعمیر کے روشن چہرے پر تخریب کا بادل پھیل گیا
ہر گاؤں میں وحشت ناچ اٹھی ہر شہر میں جنگل پھیل گیا
مغرب کے مہذب ملکوں سے کچھ خاکی وردی پوش آئے
اٹھلاتے ہوئے مغرور آئے لہراتے ہوئے مدہوش آئے
خاموش زمیں کے سینے میں خیموں کی طنابیں گڑنے لگیں
مکھن سی ملائم راہوں پر بوٹوں کی خراشیں پڑنے لگیں
فوجوں کے بھیانک بینڈ تلے چرخوں کی صدائیں ڈوب گئیں
جیپوں کی سلگتی دھول تلے پھولوں کی قبائیں ڈوب گئیں
انسان کی قسمت گرنے لگی اجناس کے بھاؤ چڑھنے لگے
چوپال کی رونق گھٹنے لگی بھرتی کے دفاتر بڑھنے لگے
بستی کے سجیلے شوخ جواں بن بن کے سپاہی جانے لگے
جس راہ سے کم ہی لوٹ سکے اس راہ پہ راہی جانے لگے
ان جانے والے دستوں میں غیرت بھی گئی برنائی بھی
ماؤں کے جواں بیٹے بھی گئے بہنوں کے چہیتے بھائی بھی
بستی پہ اداسی چھانے لگی میلوں کی بہاریں ختم ہوئیں
آموں کی لچکتی شاخوں سے جھولوں کی قطاریں ختم ہوئیں
دھول اڑنے لگی بازاروں میں بھوک اگنے لگی کھلیانوں میں
ہر چیز دکانوں سے اٹھ کر روپوش ہوئی تہہ خانوں میں
بد حال گھروں کی بد حالی بڑھتے بڑھتے جنجال بنی
مہنگائی بڑھ کر کال بنی ساری بستی کنگال بنی
چرواہیاں رستہ بھول گئیں پنہاریاں پنگھٹ چھوڑ گئیں
کتنی ہی کنواری ابلائیں ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ گئیں
افلاس زدہ دہقانوں کے ہل بیل بکے کھلیان بکے
جینے کی تمنا کے ہاتھوں جینے کے سب سامان بکے

شاعر کہتا ہے کہ یکدم سے جیسے ان مہکتے اور حسین کھیتوں سے ٹاپوں یا قدموں کی آوازیں آنے لگیں۔اس حسین وادی کی پچھم سے جو ہوائیں آتی تھی ان میں صبا کی مہک کی بجائے بارود کی بدبو سمائی ہوئی تھی۔ ترقی کے روشن چہرے پر یکدم تخریب کا بادل چھا گیا تھا اور ہر گاؤں اور شہر میں جنگل کی سی وحشت پھیلنے لگی۔اس خوف کی فضا کی وجہ مغربی ممالک سے آنے والے خاکی وردی پوش لوگ تھے۔ جو بہت پر مغرور انداز میں یہاں داخل ہوئے۔ان کے آنے سے یہاں کی خاموش فضا میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔یہاں ان کے خیمے گڑھنے لگے اور یہاں کے نرم راستوں پر ان کے بوٹوں کا شور سنائی دینے لگا۔ ان فوجوں کے نگاروں تلے مشرق کے چرخوں کی آواز دبنے لگی۔ یکایک یہاں کیا رنگ چھایا کہ انسان کی قیمت یہاں گرگئی اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا۔چوپال کی جگہ دفاتر نے لے لی۔یہاں کے نوجوان فوج میں بھرتی ہوکر اس راستے کواپنی منزل بنانے لگے کہ جہاں سے بمشکل ہی کوئی لوٹ کر آتا ہے۔بستی کی رنگا رنگ بہا ریں ختم ہو گئیں۔ شاخوں پر جھولے ڈلنا ختم ہونے لگے۔کھیتوں میں بھوک کا رسج ہونے لگا اور یہاں کا اگایا زر تہہ خانوں میں ذخیرہ اندوز ہونے لگا۔مہنگائی اور غریبوں کی بد حالی میں اضافہ ہونے لگ گیا۔یہاں کی رنگا رنگی اور زندگی ختم ہونے لگی اور اس کی جگہ افلاس نے لے لی۔مارے مہنگائی اور بھوک کے کسانوں کے کھیت کھلیان بکنے لگے اور غربت بڑھنے لگی۔

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
تمہارے گھر میں قیامت کا شور برپا ہے
محاذ جنگ سے ہرکارہ تار لایا ہے
کہ جس کا ذکر تمہیں زندگی سے پیارا تھا
وہ بھائی نرغہ دشمن میں کام آیا ہے
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
ہر ایک گام پہ بد نامیوں کا جمگھٹ ہے
ہر ایک موڑ پہ رسوائیوں کے میلے ہیں
نہ دوستی نہ تکلف نہ دلبری نہ خلوص
کسی کا کوئی نہیں آج سب اکیلے ہیں

جن ماؤں کے جوان بیٹے اور بہنوں کے بھائی فوج میں بھرتی ہو کر گئے تھے ان پر قیامت ٹوٹنے لگی کہ ان کی طرف خط آنے لگے کہ ان کے گھروں کے چراغ بجھ رہے ہیں۔رشتوں سے محبت خلوص رخصت ہو چکا ہے۔اس کی جگہ سرد مہری اور خود غرضی لینے لگی ہے کہ ہر شخص محض اپنی ذات کے لیے جی رہا ہے۔

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

ذہن پر تصور کی پرچھائیاں دوبارہ سے ابھر کر ایک یاد کو تازہ کر جاتی ہیں کہ اب تک وہ خون آلودہ شامیں مجھے یاد ہیں کہ جن میں سنہرے خوابوں کا خون ہوا تھا۔

Advertisement
اس شام مجھے معلوم ہوا کھیتوں کی طرح اس دنیا میں
سہمی ہوئی دوشیزاؤں کی مسکان بھی بیچی جاتی ہے
اس شام مجھے معلوم ہوا اس کارگہ زرداری میں
دو بھولی بھالی روحوں کی پہچان بھی بیچی جاتی ہے
اس شام مجھے معلوم ہوا جب باپ کی کھیتی چھن جائے
ممتا کے سنہرے خوابوں کی انمول نشانی بکتی ہے

کہ اس شام مجھے معلوم ہوا تھا کہ یہاں محض کھیتوں کی نہیں بلکہ نواجوان لڑکیوں کی مسکراہٹ کے بھی سودے ہوتے ہیں۔یہاں روحوں کی شناخت کو مسخ کیا جاتا ہے۔ یہاں باپ کی کھیتی تو بکتی ہے یہاں ماں کے خوابوں کی بھی قیمت لگائی جاتی ہے۔

سنگین حقائق زاروں میں خوابوں کی ردائیں جلتی ہیں
اور آج جب ان پیڑوں کے تلے پھر دو سائے لہرائے ہیں
پھر دو دل ملنے آئے ہیں
پھر موت کی آندھی اٹھی ہے پھر جنگ کے بادل چھائے ہیں
میں سوچ رہا ہوں ان کا بھی اپنی ہی طرح انجام نہ ہو
ان کا بھی جنوں ناکام نہ ہو
ان کے بھی مقدر میں لکھی اک خون میں لتھڑی شام نہ ہو
سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

شاعر کہتا ہے کہ یہاں سنگین حقائق کے پردے میں کئی سنہرے خوابوں کو مسخ کیا جاتا ہے۔آج جب پھر سے ان پیڑوں کے تلے دو سائے اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے آ کھڑے ہوئے ہیں تو آج پھر سے موت کی آندھی اور بادل ان کے سر پر منڈلانے لگے ہیں۔ان کا انجام بھی مجھے اپنی طرح ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ ان کی شام کا انجام بھی سورج کی طرح خون سے لتھڑی شام سے نہ ہو۔ان کی چاہت اور سنہرے خوابوں کو بھی کچلا نہ جائے۔

بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
بہت دنوں سے یہ ہے خبط حکمرانوں کا
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں

کیونکہ بہت دنوں سے سیاست کے رنگ ڈھنگ بدل گئے ہیں۔ ماؤں کے بچے جب جوان ہوتے ہیں تو انھیں سیاست کی بھینٹ چڑھا کر قتل کردیا جاتا ہے۔حکمرانوں کو یہ خبط ہو چلا ہے کہ وہ ذخیرہ اندوزی کر کے قحط کو عروج دیں۔

چلو کہ آج سبھی پائمال روحوں سے
کہیں کہ اپنے ہر اک زخم کو زباں کر لیں
ہمارا راز ہمارا نہیں سبھی کا ہے
چلو کہ سارے زمانے کو رازداں کر لیں

آج سب روندی گئی روحوں سے یہ عہد لینے کا وقت آ پہنچا ہے کہ وہ سب یک زباں ہو کر آواز اٹھائیں۔ کیونکہ یہ تکلیف کسی ایک کی تکلیف نہیں ہے بلکہ یہ ہر ایک کا کرب ہے تو کیوں نہ سب کو اپنا رازداں بنا دیا جائے۔

چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہیں
کہ ہم کو جنگ و جدل کے چلن سے نفرت ہے
جسے لہو کے سوا کوئی رنگ راس نہ آئے
ہمیں حیات کے اس پیرہن سے نفرت ہے
کہو کہ اب کوئی قاتل اگر ادھر آیا
تو ہر قدم پہ زمیں تنگ ہوتی جائے گی
ہر ایک موج ہوا رخ بدل کے جھپٹے گی
ہر ایک شاخ رگ سنگ ہوتی جائے گی
اٹھو کہ آج ہر اک جنگ جو سے یہ کہہ دیں
کہ ہم کو کام کی خاطر کلوں کی حاجت ہے
ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں
ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے

سب کو یک زبان ہوکر سیاست کے ان جواریوں سے ایک بات کہنی ہو گی کہ ہمیں ان کی جنگ و جدل سے نفرت ہے۔ جہاں زندگی میں بس لہو کا رنگ ہی باقی رہنا ہو تو ہمیں اس رنگ سے بھی نفرت ہے۔ یہ ہماری سرزمین ہے اب اگر یہاں کوئی قاتل آیا تو ہم اس کے لیے یہ زمین تنگ کردیں گے۔ہم یہاں کی ہواؤں کا رخ بدل دیں گیں۔ یہاں ہمیں کسی کا حق چھیننا نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنے لیے انفرادی طوع پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ سب کو اپنے کھیتوں میں ہل چلانے ہیں۔

Advertisement
یہ سر زمین ہے گوتم کی اور نانک کی
اس ارض پاک پہ وحشی نہ چل سکیں گے کبھی
ہمارا خون امانت ہے نسل نو کے لئے
ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے
زمیں کی خیر نہیں آسماں کی خیر نہیں
گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

یہ سرزمین تو گوتم اور نانک کی سرزمین ہے جہاں وحشیوں کے آنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ہم اپنا خون آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے بطور امانت بہا کر جائیں گے۔اگر ہم خاموش ہیں تو ہماری یہ خاموشی ان پر قہر بن کر ٹوٹنے والی ہے۔ ہماری یہ خاموشی ان کے ایٹمی اسلحے سے بھی بھڑ جانے والی ہے۔ پچھلی جنگ سے اب کی جنگ بہت الگ ہونے والی ہے کہ اب کی بار تصور کی پرچھائیاں بھی جلا ڈالی جائیں گی۔

سوالات:

سوال نمبر01:شاعر نے زمین کو کس کی مانند بتایا ہے؟

شاعر نے زمین کوحسین خوابوں کی سرزمین کی طرح بتایا ہے۔جہاں تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں۔

سوال نمبر02:لمحوں کو چرا کر کون لایا ہے؟

تصورات کی پرچھائیاں لمحوں کو چرا کر لائی ہیں۔

سوال نمبر03:شاعر نے جنگ بند کرنے کےلیے کن لوگوں کو مخاطب کیا ہے؟

شاعر نے سیاسی مقامروں کو جنگ بندی کے لیے کہا ہے۔

سوال نمبر04:شاعر نے اس زمین کو کس سے منسوب کیا ہے؟

شاعر نے اس سرزمین کو “گوتم” اور “نانک” سے منسوب کیا ہے۔

Advertisement

سوال نمبر05: شاعر کوکن چیزوں کے تباہ ہوجانے کا ڈر ہے؟

شاعر کو زمین اور آسمان کے تباہ ہو جانے کا خوف ہے جو انسانیت کے مٹنے کے سبب بنے گا۔

سوال نمبر06:شاعر نے کن کن ادوار کا موازنہ کیا ہے؟

شاعر نے انگریزوں کی آمد سے قبل اور ان کے آنے کے بعد کے ادوار کا موازنہ کیا ہے۔

زبان وقواعد:

نظم میں شاعر نے جن مختلف تشبیہات کا استعمال کیا ہے انھیں لکھیں۔

نازنیں کے جسم کو حسین پھول پتیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

نظم میں شاعر نے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے مشرق اور مغرب کی تہذیب کا موازنہ ہوتا ہے۔ان الفاظ کو مشرق اور مغرب کی ذیل میں لکھیے۔

مشرق:گوتم،نانک، چوپال ،پنہاریاں، چرواہیاں وغیرہ۔
مغرب:دفتر، سپاہی، فوجی بوٹ،ایٹمی ہتھیار وغیرہ۔