مضمون پھول والوں کی سیر کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0

مضمون پھول والوں کی سیر کا خلاصہ:

پھول والوں کی سیر، مرزا فرحت اللہ بیگ کا مضمون ہے جس میں دہلی کی معاشرتی زندگی کی بھر پور جھلک موجود ہے۔ اس مضمون کے ذریعے انھوں نے دہلی کے اہم اور دلچسپ تہوار پھول والوں کی سیر کو کہانی کی صورت میں بن کر نہ صرف دہلی کی معاشرتی زندگی کی جھلک پیش کی بلکہ ہندو، مسلم اتحاد اور ہم آہنگی کو بھی دکھایا۔

دہلی میں آخری مغل بادشاہ کے پاس اقتدار بھلے کم تھے مگر ان کی رعایا ان سے خوش تھی۔ وہ سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر شریک تھے۔ جو محبت بادشاہ کو رعایا سے تھی وہی محبت رعایا کو بادشاہ سے تھی۔ یہی محبت پھول والوں کی سیر کے تہوار میں دیکھنے کو ملتی تھی۔پھول والوں کی سیر کے لئے قلعہ کا منظر یوں تھا کہ گویا کوئی شادی کی تقریب ہو۔چوڑیوں والی چوڑیاں چڑھا رہی ہیں تو رنگریز ن دوپٹے رنگ رہی ہے۔ مہندی پس رہی ہے۔ کڑاہیاں نکل رہی ہیں سب کا کھانا سونا برابر ہو چکا ہے۔

تین بجے کے قریب سب سے پہلے بادشاہ کی سواری روانہ ہوئی جس کی معرفت میں باقی تمام لوگ بھی جوک در جوک روانہ ہونے لگے۔ شہزادیوں کی سواریوں کے گرد بھی شاہی قلمانیہ موجود تھیں۔مختلف راستوں سے ہوتی یہ سواریاں دہلی دروازے جا پہنچی۔جہاں ان کو شاہی جلوس نے سلامی پیش کی۔یہاں سے تمام عقیدت مند ہمایوں کے مقبرے اور درگاہ پر گئے۔میلے کے باعث مہر ولی کے بازار میں بھی خوب رونق تھی ایک سرے سے دوسرے سرے تک بازار کھچا کھچ بھرا تھا۔ طرح طرح کے میوے اور کھلونے بازار میں دستیاب تھے۔اور یہاں کئی طرح کے کھانے مثلاً ذائقے دار پراٹھے، بریانی وغیرہ بھی موجود تھی جن کی خوشبو سے سارا بازار مہک رہا تھا۔

گاہک تھے کہ ٹوٹے پڑتے تھے۔لوگ پنواڑن کی دوکان سے پان لے رہے تھے ۔پھول والوں کی دوکان سے گجرے خرید رہے تھے۔ سیر کو آئے لوگوں نے درگاہ اور جوگ مایا مندر پر پھولوں کے پھنک بھی چڑھائے۔ شاہی دروازے کا منظر کچھ یوں ہے کہ پھاٹک کے سامنے بڑا میدان تھا جہاں باجے اور اکھاڑے والے اپنے اپنے جو ہر دکھا رہے تھے۔ یہاں سب نے بادشاہ سے حسب مراتب انعام پایا۔شہر کے شرفا و امراء مجرا بجا لائے اور سب پر گلاب چھڑکا گیا اور پان اور عطر سے ان کی تواضع کی گئی۔جلوس نے بادشاہ سے سیلا،دوشالہ،مندیل اور کڑے جیسے انعام پائے۔تالاب کنارے آتش بازی کے جوہر بھی دکھائے گئے جس سے سارا تالاب جگمگا اٹھا۔بادشاہ نے ایک اونچے چبوترے کے ذریعے عوام سے خطاب کیا۔یہاں پر دہلی کے کئی قابل عزت امراء موجود تھے۔ غرض اس سیر کی سب نے خوب رونقیں لوٹی اور یوں یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو مہر ولی سنسان اور دہلی پھر سے آباد ہوگیا۔

سوالات:

سوال نمبر01:آخری مغل بادشاہ کے دور کی دہلی کی کیا خصوصیات تهیں؟

دہلی میں آخری مغل بادشاہ کے پاس اقتدار بھلے کم تھے مگر ان کی رعایا ان سے خوش تھی وہ سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر شریک تھے۔ جو محبت بادشاہ کو رعایا سے تھی وہی محبت رعایا کو بادشاہ سے تھی۔

سوال نمبر02:مصنف نے پھول والوں کی سیر کا کیا منظر پیش کیا ہے ؟

پھول والوں کی سیر کے لئے قلعہ کا منظر یوں تھا کہ گویا کوئی شادی کی تقریب ہو۔چوڑیوں والی چوڑیاں چڑھا رہی ہیں تو رنگریز ن دوپٹے رنگ رہی ہیں۔ مہندی پس رہی ہیں۔ کڑاہیاں نکل رہی ہیں سب کا کھانا سونا برابر ہو چکا ہے۔

سوال نمبر03:مہر ولی کے بازار کا کیا نقشہ تھا؟

مہر ولی کا بازار ایک سرے سے دوسرے سرے تک آئینہ بند تھا۔ میوے، مٹھائیوں اور کھلونوں سے سارا بازار پٹا پڑا تھا کبابوں پراٹھوں،بریانی ،مزعفر متنجن سے سارا بازار مہک رہا تھا۔گاہک تھے کہ ٹوٹے پڑتے تھے۔لوگ پنواڑن کی دوکان سے پان لے رہے تھے ۔پھول والوں کی دوکان سے گجرے خرید رہے تھے۔

سوال نمبر04:جلوس نے بادشاہ سے کیا انعام پایا؟

جلوس نے بادشاہ سے سیلا،دوشالہ،مندیل اور کڑے جیسے انعام پائے۔

سوال نمبر05:مہر ولی میں شاہی دروازہ پہنچ کر باب ظفر کا کیا منظر پیش کیا گیاہے؟

شاہی دروازے کا منظر کچھ یوں ہے کہ پھاٹک کے سامنے بڑا میدان تھا جہاں باجے اور اکھاڑے والے اپنے اپنے جو ہر دکھا رہے تھے۔ یہاں سب نے بادشاہ سے حسب مراتب انعام پایا۔شہر کے شرفا و امراء مجرا بجا لائے اور سب پر گلاب چھڑکا گیا اور پان اور عطر سے ان کی تواضع کی گئی۔

سوال نمبر06:جوگ مایا مندراور درگاہ شریف کا پھول والوں کی سیر سے کیا تعلق ہے ؟

جوگ مایا مندر اور درگاہ شریف پر پھول والوں کی سیر کو آئے لوگ پنکھا چڑھاتے تھے۔

سوال نمبر07:شمسی تالاب پر پھول والوں کی سیر کا کیا جشن ہوتا تھا؟

یہاں پر آتش بازی کی جاتی تھی اور اس آتش بازی سے سارا تالاب جگمگا اٹھتا تھا۔

زبان و قوائد:

دہلی کے بادشاہ کا اقتدار ضرور کم ہو گیا مگر جو عقیدت رعایا کو بادشاہ سے تھی ،اس میں ذرہ برابر فرق نہ آیا۔
انگریزوں کی حکمرانی اور مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں دہلی میں بادشاہت بس نام کی باقی تھی۔ مگر اس کے باوجود بادشاہ اور رعایا کے درمیان موجود تعلق جوں کو توں تھا۔

مہر ولی کے بازار کا کچھ نہ پوچھو ۔اس سرے سے اس سرے تک سارا آیئنہ بند تھا ۔میوے، مٹھائیوں اور کھلونوں سے سارا بازار پٹا پڑا تھا کبابوں پراٹھوں،بریانی ،مزعفر متنجن سے سارا بازار مہک رہا تھا۔
میلے کے باعث مہر ولی کے بازار میں بھی خوب رونق تھی ایک سرے سے دوسرے سرے تک بازار کھچا کھچ بھرا تھا۔ طرح طرح کے میوے اور کھلونے بازار میں دستیاب تھے۔اور یہاں کئی طرح کے کھانے مثلآ ذائقے دار پراٹھے، بریانی وغیرہ بھی موجود تھی جن کی خوشبو سے سارا بازار مہک رہا تھا۔
بادشاہ سلامت اوپر کی بارہ دری میں برآمد ہوۓ ۔بیگمات کے چلمنیں پڑ گئیں۔ اب ساری بھیڑ سمٹ سمٹا کر باب ظفر کے سامنے آ گئی ۔
بادشاہ سلامت کی سواری آنے کے بعد وہ بارہ دری کے جھروکے میں آگئے جہاں سے وہ رعایا سے مخطاطب ہوسکتے تھے ۔ جبکہ بیگمات کے آگے پردے گرا دیے گئے۔عوام کا تمام ہجوم باب ظفر کے سمنے اکھٹا ہوگیا جہاں سے بادشاہ کو عوام سے ہم کلام ہونا تھا۔

بادشاہ سلامت نے مہتابی پر جلوس کیا۔مصاحبوں اور دہلی کے اکثر امرا وشرفا کو اوپر بلایا گیا سارے سیلانی تلاب کے کنارے جم گئے۔
بادشاہ نے ایک اونچے چبوترے کے ذریعے عوام سے خطاب کیا۔یہاں پر دہلی کے کئی قابل عزت امراء موجود تھے۔ سب لوگ جو چلنے پھرنے کے شوقین تھے وہ تالاب کے کنارے رک کر ان کو سننے لگے۔

نیچے لکھے محاوروں کو جملوں میں استعمال کریں۔

پائمال ہونا اس کی عزت اس کے اپنوں کے ہاتھوں ہی پائمال ہو گئی
آنکھیں بند کرنا بلی کو دیکھ کر کبوتر نے آنکھیں بند کرلیں۔
ٹھاٹ ہونا پھول والوں کی سیر کے خوب ٹھاٹ تھے
سر جھکانا ماں،باپ کے حکم کے سامنے اولاد کو سر جھکانا چاہئے۔
نامراد جانا اللہ کے در سے کوئی سوالی نامراد نہیں جاتا ہے۔
آئینہ بند ہونا مہر ولی کا بازار ایک سرے سے دوسرے سرے تک آئینہ بند تھا۔
پٹا پڑا ہونا کتے کے گلے میں پٹا پڑا ہوا تھا۔
ٹوٹ پڑنا بھوک کی شدت کی وجہ سے ہم کھا نے پر تقریباً ٹوٹ پڑے۔
مجرا بجا لانا دلی کے شرفا و امراء بادشاہ کے حضور مجرا بجا لائے۔

عملی کام :

مصنف نے دہلی کی معاشرتی زندگی کی جن مختلف ایشیا کا ذکر اس مضمون میں کیاہے ،انھیں اپنے الفاظ میں لکھییے۔

مصنف نے دہلی کی درباری زندگی سے وابستہ کئی چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً بادشاہ کی شاہی سواری اور اس کی شان و شوکت، بارہ دری مہتابی وغیرہ شہزادیوں کی شاہی سواری کے ساتھ موجود قلمانیاں جو کہ سپاہی کا کام کرتی تھی۔اس شاہی سواری کی شان و شوکت اور بادشاہ کے انعامات وغیرہ۔ساتھ ہی وہاں کے بازاروں کی رونقیں، میلے، پکوان ،رسوم و رواج غرض ہر چیز میں دہلی کی معاشرتی زندگی کی جھلک موجود ہے۔

موجودہ دور میں پھول والوں کی سیر کی کیا اہمیت ہے ؟مختصراً لکھیے۔

موجودہ دور میں پھول والوں کی سیر کو دہلی کے تمام تہواروں میں اپنی رنگا رنگی کی وجہ سے جو امتیاز اورمقا م حاصل ہے، وہ دوسرے تہواروں کو حاصل نہیں۔ یہ ایسا سالانہ تہوار ہے، جس میں دہلی کی صدیوں پرانی مشترکہ تہذیب کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اس میلے سے دہلی کی شناخت قائم ہے۔

یہ تہوار ہمارے مشترکہ تہذیبی وراثت کی یادگار ہے، آج بھی اس تہوار کے موقع پر جہاں مہرولی میں خواجہ قطب الدین بختیارکاکی کی درگاہ پر پھولوں کی چادر چڑھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، وہیں قریب میں ہی واقع جوگ مایا مندر میں بھی پھولوں کا پنکھاپیش کیاجاتا ہے۔ مشترکہ ثقافت اور قومی یک جہتی کو فروغ دینے کے حوالے سے پھول والوں کی سیر کا یہ میلہ دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ اور امن کا پیغام بر ثابت ہوا، دوسری ریاستیں بھی اس تہوار کے لیے روایتی پنکھا بھیج کر ہندو مسلم اتحاد کی اس علامت کو زندہ رکھنے میں اپنا بھرپور تعاون دے رہی ہیں۔ جس سے مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ بھائی چارے کو بھی فروغ مل رہا ہے۔