سبق: قدرتی آفات، خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • پنجاب کریکولم اینڈ ٹکیسٹ بک بورڈ “اردو” برائے “آٹھویں جماعت”
  • سبق نمبر:06
  • سبق کا نام: قدرتی آفات

خلاصہ سبق:

انسان ہمیشہ سے قدرتی آفات سے گھرا رہا ہے۔ سائنسی ترقی سے قبل پہلے دور میں طاعون، ہیضہ اور ملیریا جیسی بیماریاں مہلک ہوا کرتی تھیں۔مگر انسان کو زلزلے ،بارشیں ، سیلاب اور طوفان جیسی آفات جو کہ قدرتی آفات کہلاتی ہیں کا بھی ہمیشہ سے سامنا رہا۔رفتہ رفتہ ہونے والی سائنسی ترقی کی وجہ سے بیماریوں کا تو اب نشان بھی نہیں موجود ہے کیونکہ انسان نے ممکنہ حد تک ان کا علاج دریافت کر لیا ہے۔قدرتی آفت کی بات کی جائے تو زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے۔

اس کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں ہزاروں انسان موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ مالی نقصان الگ ہوتا ہے۔ کئی کئی منزلہ عمارات آن واحد میں ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں اس ملبے سے زخمیوں اور زندہ بچ جانے والے انسانوں کو نکالنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ انسانوں کو نکال بھی لیا جائے تو عمارت کے ملبے کو اٹھانااور اُس کے بعد نئی عمارت تعمیر کرنا مہینوں یا برسوں میں ممکن ہو پاتا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ شدید زلزلہ ۱۹۶۰ء میں چلی میں آیا تھا۔ ریکٹر سکیل پر اس کی شدت ۹۔۶ تھی ۔ اس زلزلے میں چین کے دو صوبوں کی ساٹھ فیصد آبادی ہلاک ہو گئی۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں 1935ء میں 7۔7 شدت کو زلزلہ آیا جس سے 60 ہزار کے قریب اموات ہوئیں۔۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کوآزاد کشمیر کے علاقے مظفر آباد اور ملحقہ علاقوں میں ۷.۶ شدت کا زلزلہ آیا جس کی وجہ سے نوے ہزار کے قریب لوگ موت کے منھ میں چلے گئے جب کہ پچھتر ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔زلزلہ ایسی آفت ہے جس کا انسانی ترقی پہلے سے اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔انسان موسموں کے بارے میں تو پیشن گوئی کر سکتا ہے اور وہ ٹھیک بھی ہوتی ہے لیکن انسان ابھی ایسے آلات نہایت محدود پیمانے پر ہی بنا پایا ہے کہ جو اسے آنے والے زلزلے سے نہایت قلیل مدت قبل اس کا امکان بتا سکتے ہیں۔

یہ آلات ننھے ننھے نہایت حساس بلبوں کی مانند ہوتے ہیں جنھیں فالٹ لائنز والے مقامات یعنی زمین کے اُن حصوں پر کہ جہاں زیر زمین موجود مختلف براعظمی پلیٹیں ملتی یا ٹکراتی ہیں ، نصب کر دیا جاتا ہے۔ جب زمین میں زلزلے سے ذرا پہلے جنم لینے والی توانائی کی لہریں ابھرنے لگتی ہیں تو یہ بلب جل اٹھتے ہیں جن سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں زلزلہ آنے کا امکان ہے۔ چناں چہ وہاں سے فوری طور پر آبادی کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ انتظام دنیا بھر میں صرف امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک ساحلی مقام عصر کا ہے۔

اس کے علاوہ سر دست دنیا بھر میں اور کہیں ایسے کوئی آلات نہیں ہیں۔سائنسی ترقی کی بدولت جاپان میں زلزلہ پروف عمارات تعمیر کر لی گئی ہیں۔زلزلے کی طرح سیلاب بھی انسان کے لیے ڈراؤنا خواب رہے ہیں۔ سیلابوں کی وجہ سے ہزاروں انسان اور جانورموت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ مکانات ڈھے جاتے ہیں۔ گاڑیاں سیلاب کے پانی میں یہ جاتی ہیں اور فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔پاکستان میں 2010ء آنے والے شدید سیلاب نے پورے پاکستان کو متاثر کیا۔ چاروں صوبوں میں ریلوں ریل کے پل بہ گئے سیلاب زدگان تک مدد پہنچانا بھی مشکل ہو گیا۔ کئی فصلیں اور باغات تباہ و برباد ہو گئے۔ جانی نقصان ہوا اور لوگوں کے مکانات گر گئے۔

مویشی اور گھروں کا ساز و سامان سیلاب میں بہ گئے۔مگر سیلاب ایسی قدرتی افت ہے کہ جس سے بچاؤ ممکن ہے جیسے کہ اگر ہم دریاؤں کے راستے میں ڈیم یا بیراج بنا لیں۔ سیلاب کے فالتو پانی کا رخ ایسے علاقوں کی طرف موڑ دیں جو بنجر یا صحرائی ہیں تو سیلاب کی تباہ کاریوں کو فائدے میں بدلا جا سکتا ہے۔ ڈیم میں ذخیرہ شدہ پانی سے بجلی بنائی جاسکتی ہے جب کہ ڈیم اور بیراج کا پانی ضرورت پڑنے پر دریاؤں اور نہروں میں ڈال کر پانی کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں۔

قدرتی آفت کے کہتے ہیں؟

زلزلے ،بارشیں ، سیلاب اور طوفان جیسی آفات قدرتی آفات کہلاتی ہیں۔

پہلے کون سی بیماریاں مہلک ہوا کرتی تھیں؟

پہلے دور میں طاعون، ہیضہ اور ملیریا جیسی بیماریاں مہلک ہوا کرتی تھیں۔

کیا آج کل طاعون کی بیماری موجود ہے ؟

جی نہیں اب طاعون کی بیماری موجود نہیں ہے۔

زلزلے سے کیا ہوتا ہے؟

زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں ہزاروں انسان موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ مالی نقصان الگ ہوتا ہے۔ کئی کئی منزلہ عمارات آن واحد میں ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں اس ملبے سے زخمیوں اور زندہ بچ جانے والے انسانوں کو نکالنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ انسانوں کو نکال بھی لیا جائے تو عمارت کے ملبے کو اٹھانااور اُس کے بعد نئی عمارت تعمیر کرنا مہینوں یا برسوں میں ممکن ہو پاتا ہے۔

سب سے زیادہ شدت کا زلزلہ کب اور کہاں آیا؟ اس کی شدت کیا تھی ؟

دنیا میں سب سے زیادہ شدید زلزلہ ۱۹۶۰ء میں چلی میں آیا تھا۔ ریکٹر سکیل پر اس کی شدت ۹۔۶ تھی ۔

کوئٹہ کے زلزلے میں کتنے افراد ہلاک اور زخمی ہوئے؟

اس زلزلے کی وجہ سے ۲۰۰۰۰ کے قریب افراد موت کے منھ میں چلے گئے اور ۲۰ فی صد سے زیادہ عمارات ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔

۱۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے دن مظفر آباد میں کیا ہوا تھا؟

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کوآزاد کشمیر کے علاقے مظفر آباد اور ملحقہ علاقوں میں ۷.۶ شدت کا زلزلہ آیا جس کی وجہ سے نوے ہزار کے قریب لوگ موت کے منھ میں چلے گئے جب کہ پچھتر ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

سیلاب کس طرح نقصان پہنچاتا ہے؟

زلزلے کی طرح سیلاب بھی انسان کے لیے ڈراؤنا خواب رہے ہیں۔ سیلابوں کی وجہ سے ہزاروں انسان اور جانورموت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ مکانات ڈھے جاتے ہیں۔ گاڑیاں سیلاب کے پانی میں یہ جاتی ہیں اور فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔

(الف) زلزلے زیادہ نقصان دہ ہیں یا سیلاب؟ دلائل سے جواب دیں۔

زلزلہ ہو یا سیلاب دونوں ہی قدرتی آفت ہیں دونوں کی اپنی شدت اور نقصانات ہوتے ہیں۔ زلزلوں سے جانی اور مالی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں تو یہی صورتحال سیلاب کی صورت میں بھی ہے کہ جہاں جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ مگر دیکھا جائے تو زلزلے انسانی زندگی کے لیے زیادہ نقصان دہ ہیں کیونکہ سیلاب کی انسان کسی حد تک بروقت آگاہی پالیتا ہے اور ممکنہ حد تک لوگوں کو اور مویشیوں کو محفوظ مقامات پہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مگر زلزلے کی صورت میں ایسا قدم اٹھانا ناممکن ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی وجہ سے شدید جانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

(ب) سیلاب کی تباہ کاریوں کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے؟

اگر ہم دریاؤں کے راستے میں ڈیم یا بیراج بنا لیں۔ سیلاب کے فالتو پانی کا رخ ایسے علاقوں کی طرف موڑ دیں جو بنجر یا صحرائی ہیں تو سیلاب کی تباہ کاریوں کو فائدے میں بدلا جا سکتا ہے۔ ڈیم میں ذخیرہ شدہ پانی سے بجلی بنائی جاسکتی ہے جب کہ ڈیم اور بیراج کا پانی ضرورت پڑنے پر دریاؤں اور نہروں میں ڈال کر پانی کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔سیلاب آنے پر اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں مناسب آگاہی پھیلائی جانی چاہیے۔انتباہی نظام قائم کیا جانا چاہیے تاکہ لوگوں کو اپنے آپ کو بچانے کے لیے وقت مل سکے۔اس کے علاوہ، بارش کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک موثر نظام ہونا چاہیے۔ سب سے اہم اقدامات میں سے ایک نکاسی آب کے نظام کو مضبوط کرنا ہے۔ اس سے پانی کو جمع ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔زیادہ سے زیادہ اور مضبوط ڈیموں کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے۔مختصر یہ کہ بروقت مناسب اقدامات ایک بڑی تباہی کو روک سکتے ہیں۔

متن کے مطابق دُرست جواب پر ✔️ کا نشان لگا ئیں۔

  • (الف) ایک وبا کا نام ہے:
  • بخار کھانسی ملیریا ✔️ ذیابیطس
  • (ب) نا گہانی آفت ہے:
  • بخار مہنگائی زلزلہ✔️ کھانسی
  • (ج) جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے:
  • سیاحت سے بارش سے زلزلے سے ✔️ بیماری سے
  • (د) چلی میں سب سے زیاد شدید زلزلہ آیا:
  • 1960ء ✔️ 1956ء 1964ء 1963ء
  • (ہ) ۱۵۵۶ء کے زلزلے میں چین کے دو صوبوں کی آبادی ہلاک ہو گئی:
  • فیصد 60 فیصد ✔️ 70 فیصد 40 فیصد50
  • (و) کوئٹہ میں بدترین زلزلہ آیا:
  • 1930ء میں 1935ء میں✔️ 1932ء میں
  • ء میں1945
  • (ز) ۲۰۰۵ء میں مظفر آباد میں آنے والے زلزلے میں لوگ ہلاک ہوئے :
  • ہزار ✔️ 80 ہزار 70 ہزار 60 ہزار90
  • (ح) کس ملک میں زلزلہ پروف عمارتیں بنائی گئی ہیں؟
  • امریکہ چین جاپان✔️ پاکستان

واحد الفاظ کی جمع اور جمع کے واحد لکھیں۔

واحد جمع
نقصان نقصانات
مکان مکانات
حادثہ حادثات
فائدہ فوائد
آفت آفات
عمارت عمارات
حیوان حیوانات
بخارا بخارات
ایجاد ایجادات
کلمہ کلمات

درج ذیل الفاظ کے متضاد الفاظ تحریر کریں۔

الفاظ متضاد
ترقی تنزلی
قبل بعد
بیماری تندرستی
انسان حیوان
علاج لا علاج
ممکن نا ممکن
  • تخلیقی لکھائی:

سیلاب کے نقصانات کے عنوان پر مفصل مضمون تحریر کریں۔

سیلاب سب سے خطرناک قدرتی آفات میں سے ایک ہے۔ جو بارشوں کے ہونے پردریاؤں میں پانی کے زیادہ بہاؤ کی وجہ سے آتا ہے۔ جس کے نتیجے میں دریاؤں کا پانی کناروں سے نکل کر میدانی علاقوں میں چلا جاتا ہے۔ یہ لوگوں کے مال اور فصلوں کو بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔عام طور پر جب زیادہ بارشیں ہوتی ہے تو پاکستان میں سیلاب کا قوی امکان ہوتا ہے۔شدید دریائی بارشوں کی وجہ سے دنیا کے کئی مقامات کو اس قدرتی آفت کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیم کا ٹوٹنا اور پہاڑوں پر برف کا پگھلنا سیلاب کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔

اگر ہم ساحلی علاقوں کی بات کریں توطوفان اور سونامی ان علاقوں میں سیلاب کا باعث بنتے ہیں۔سیلاب کی تباہی اس قدر ہے کہ سیلاب سے حالات زندگی کو نقصان پہنچتا ہے اور اس تباہی سے نکلنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس لیے سیلاب کے نتائج کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔سیلاب متاثرہ علاقے کے روزمرہ کے کام میں خلل ڈالتا ہے۔ شدید سیلاب بعض اوقات بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے بہت سے لوگ اور جانور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اورکئی زخمی ہوجاتے ہیں۔

سیلاب سے بیماریوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کھڑا پانی مچھروں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جو ملیریا، ڈینگی اور دیگر بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔اس کے علاوہ، لوگوں کوبجلی کی بندش اور مہنگی قیمتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے خوراک اور اشیاء کی فراہمی محدود ہو جاتی ہے، قیمتیں قدرتی طور پر بڑھ جاتی ہیں اوراس سے عام آدمی کے لیے بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ پورے ملک کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کو بچانے اور اس آفت سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل ایک بھاری رقم مانگتے ہیں۔اس سب کے علاوہ، سیلاب ہمارے ماحول کو بھی متاثر کرتا ہے اور اس سے مٹی کا معیار خراب ہوتا ہے۔ ہم زرخیز زمین سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سیلاب نباتات اور حیوانات کوبھی نقصان پہنچاتا ہے۔ لہذا ان سنگین نتائج سے بچنے کے لئے اقدام کرنا ضروری ہیں۔

حکومت اور شہریوں کو مل کر سیلاب سے بچاؤ کے طریقے تیارکرنے چاہئیں۔ سیلاب آنے پر اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں مناسب آگاہی پھیلائی جانی چاہیے۔انتباہی نظام قائم کیا جانا چاہیے تاکہ لوگوں کو اپنے آپ کو بچانے کے لیے وقت مل سکے۔اس کے علاوہ، بارش کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک موثر نظام ہونا چاہیے۔ سب سے اہم اقدامات میں سے ایک نکاسی آب کے نظام کو مضبوط کرنا ہے۔ اس سے پانی کو جمع ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔زیادہ سے زیادہ اور مضبوط ڈیموں کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے۔مختصر یہ کہ بروقت مناسب اقدامات ایک بڑی تباہی کو روک سکتے ہیں۔

  • سرگرمیاں:

کیا انسان سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر مکمل طور پر قابو پاسکتا ہے؟ بحث کیجئے۔

موجودہ دور میں مکمل طور پر نہ سہی لیکن ممکن حد تک انسان سیلاب سے ہونے والی نقصانات کے لحاظ سے بروقت اقدامات کرکے اس پہ قابو پا سکتا ہے۔جیسے کہ زیادہ سے زیادہ ڈیم بنا کر پانی کا رخ صحرائی علاقوں کی جانب موڑ کر اور لوگوں میں آگاہی مہم پھیلا کر ہم ممکنہ نقصان سے بچ سکتے ہیں۔