Qaseeda Shahr e Ashoob Tashreeh | قصیدہ شہر آشوب کی تشریح

0

قصیدہ شہر آشوب کی تشریح

اب سامنے میرے جو کوئی پیر و جواں
دعوی نہ کرے منہ میں زبان ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں نے ہر کسی کی قوت گویائی دیکھی ہے اس لئے میرے سامنے اب کوئی اپنی قوت دکھانے کے لائق نہیں رہاہے کہ اس کے منھ میں زبان ہے۔اب جو کچھ کہنا ہے وہ میں ہی کہہ دوں گا کیوں کہ دوسروں میں زبان نہیں ہے۔

میں حضرت سودا کو سنا بولتے دیکھا
اللہ رے کیا نظم بیان ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر کو بولتے ہوے سنا جو کہتا ہے کہ تمہاری نظم کا انداز بیان کتنا دلکش اور نرالا ہے۔

اتنا میں کیا عرض کہ فرمائے حضرت
آرام سے کٹنے کی طرح کوئی بھی یاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر سے صرف اتنا پوچھا کہ کیا کوئی فرد ایسا ہے جو اس دلی میں مسرت اور اطمینان سے زندگی گزار رہا ہے؟

سن کر یہ کہنے لگے کہ خاموش ہی رہ جا
اس امر میں قاصر تو فرشتے کی زبان ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میرا سوال سن کر میرے اندر کا شاعر کہنے لگا بس سودا چب رہ جا ان کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ یہ لوگ کس طرح زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں یہ فرشتے بھی بیان نہیں کر پائیں گے۔

کیا کیا میں بتاؤ ں کہ زمانے میں کئی شکل
ہے وجہ معاش اپنی، سو جس کا یہ بیاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ یہاں لوگوں کے ذرائع معاش الگ الگ ہیں۔یہ لوگ کس کس طرح اپنا روزگار چلاتے ہیں۔ اس کی کہانی آرام سے سنو۔

گھوڑا لے اگر نوکری کرتے ہیں کسو کی
تنخواہ کا پھر عالم بالا پہ مکاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی کسی کے ہاں اپنا گھوڑا لے کر نوکری کرتا ہے اور اپنی روزی کمانا چاہتا ہے تو اس کو کام کرنے کے بعد اس کے مالک کی طرف سے وقت پر تنخواہ نہیں ملتی کیونکہ وہ مالک خود خستہ حال ہوتا ہے۔ وہ خود کم آمدنی کا شکار ہوتا ہے۔ اسلئے تنخواہ نہیں دے پاتا۔

گزر ے ہے سدا یوں علف و دانہ کی خاطر
شمشیر جو گھر میں تو سپر بنیے کے ہاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اسکی تمام عمر گھوڑے کے چارے کا انتظام کرنے میں گزرتی ہے، یعنی جو بنیادی ضروریات ہیں ان کو پورا کرنے میں ہی زندگی گزر جاتی ہے۔ جو کمائی ہوتی ہے اس سے زیادہ ادھار چکانا پڑتا ہے۔

سودا گری کیجئے تو ہے اس میں یہ مشقت
دکھن میں بکے وہ جو خرید صفہاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ تجارت کرنے کا بھی کوئی آسان راستہ نہیں ہے کیوں کہ اس میں بھی بہت محنت لگتی ہے۔ ایران سے مال لانا پڑتا ہے اور دکن میں فروخت کرنا پڑتا ہے۔

شاعر جو سنے جاتے ہیں مستعفی الاحوال
دیکھیے جو کوئی فکر و تردد کو تو یاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ جو لوگ (شعرا) دنیا کی حالت سے بے پرواہ اور بے نیاز سمجھے جاتے ہیں اب ان حالات سے وہ بھی پریشان نظر آتے ہیں۔

مشاقِ ملاقات انھوں کا کس و ناکس
ملنا انھیں اس سے جو فلاں ابن فلاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ ان شعرا سے ملاقات کرنے کے لئے بے تاب ہوتے تھے اور شاعروں کو یہ پریشانی رہتی تھی کہ ان کو فلاں کے فلاں بیٹے سے ملنا ہے۔

گر عید کا مسجد میں پڑھیں جا کے دو گانہ
نیت قطعہ تہنیتِ خان زماں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ آج حال یہ ہے کہ شعرا کو ہی امیروں کے دروازے کھٹکھٹا نے پڑتے ہیں۔ اگر عید کی نماز بھی پڑھنے جاتے ہیں وہاں بھی یہی سوچتے ہیں کہ کس صاحب ثروت کا قطعہ لکھوں تاکہ کچھ رقم مل جائے۔

ملّائی اگر کیجئے تو ملا کی ہے یہ قدر
ہوں دو روپے اُس کے جو کوئی مثنوی خواں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ ملا کا بھی شعرا جیسا حال ہے۔ ہاں اگر وہ مثنوی کے چند اشعار پڑھیں تو ایک دو روپے مل سکتے ہیں۔

اور ما خضر اخوند کا اب کیا میں بتاؤں
یک کاسئہ دال عدس وجو کی دوناں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں کیا بتاؤں ملا کا حال، دن بھر بچوں کو پڑھانے کے بعد ان کے دسترخوان پر صرف دال اور جو کی روٹی ہوتی ہے۔

دن کو تو وہ بیچارہ پڑھایا کرے لڑکے
شب خرچ لکھے گھر کا اگر ہندسہ داں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ دن بھر وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور رات بھر وہ اپنے گھر کے اخراجات کا حساب لگاتے ہیں۔ اس طرح اس کی زندگی بھی پریشانی میں ہی گزرتی ہے۔

اب کیجیے انصاف ، کہ جس کی ہو یہ اوقات
آرام جو چاہے وہ کرے، وقت کہاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اگر وہ آرا م کرنا بھی چاہے تو ان حالات میں کہا ں کر پائیں گے۔

چاہے جو کوئی شیخ بنے بہر فراغت
چھٹتے ہی تو شعرا کا وہ مطعونِ زبان ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اس حالت میں اگر وہ پیر و مرشد اور صوفی بزرگ بننا چاہے تو اس پر فوراً شعرا طنز کرنے بیٹھیں گے۔

تحقیق ہو ا عرس تو کر داڑھی کنگھی
لے خیل مریدں گئے وہ بزمِ جہاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ جب شیخ کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ عرس ہے تو جلد سج دھج کر اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں پہنچ جاتا ہے۔

ڈھولک جو لگی بجنے، تو واں سب کو ہوا وجد
کوئی کودے کوئی رو دے، کوئی نعرہ زناں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ پھر وہاں جب ڈھولک بجتی ہے تو سب پر جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ کوئی پھرکودتا ہے، کوئی رو پڑتا ہے ، کوئی نعرہ دیتا ہے۔

بے تال ہوئے شیخ جو ٹک وجد میں آ کر
سر گوشیوں مٰیں پھر بد اصولی کا بیاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ پھر جب پیر بھی وجد میں آتا ہے تو اصول وجد توڑ دیتا ہے۔ پھر لوگ ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگتے ہیں کہ اس نے مستی میں آکر وجد کے اصول توڑے ہیں۔

آرام سے کٹنے کا سنا تو نے کچھ اصول
جمعیت خاطر کوئی صورت ہو، کہا ں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ یہاں کوئی آرام سے زندگی گزار سکے، اسکی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔

دنیا میں تو آسودگی رکھتی ہے فقط نام
عقبٰی میں یہ رکھتا تھا کوئی اس کا نشاں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ دنیا میں آسودگی ا ور اطمنان اور سکون کبھی حاصل نہیں ہو پاتا ہے۔ البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آخرت میں اطمنان وسکون ملے گا۔

سو اس پہ تیقن کسی کے دل کو نہیں ہے
یہ بات بھی گویندہ ہی کا محض گماں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہاں سکون ہوگا اور اطمنان ہوگا مگر مجھے لگتا ہے کہ شائد یہ ان کا وہم اور گمان ہے کیونکہ اگر یہاں اطمنان نہ مل سکا تو پھر وہاں بھی نہیں مل پائے گا۔

یہاں فکر معیشت ہے تو واں دغدغہ حشر
آسودگی حرفیست، نہ وہ یاں ہے نہ واں ہے

تشریح :

مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ یہاں اگر فکر روزگار ہے توہ وہاں دوزخ سے بچنے کی فکر ہوگی۔ اسطرح انسان کو کبھی آسودگی اور اطمنان نہیں مل سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ بے سکون ہی رہتا ہے۔

3. سوالات

سوال: سودا ؔ نے اس قصیدے جن پیشوں کا ذکر کیا ہے ان کی فہرست بنائیے۔

جواب: سودا نے اس قصیدے میں جن پیشوں کا ذکر کیا ہے ان میں سوداگری ،شاعری،مثنوی خوانی ،معلمی ، درویشی بطورپیشہ ،سپاہی، ملائی وغیرہ ہیں۔

سوال: اس نظم میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی اب بدل گئے ہیں یا جو اب استعمال نہیں ہوتے “مثلاً تحقیق ہوا” ”بہ معنی“ ”خبر لگی“ “معلوم ہوا ” ایسے کچھ الفاظ آپ بھی ڈھونڈیے۔

جواب: کسو ،انہوں کا ، واں ،چھٹتے ،یاں وغیرہ۔

سوال: شہر آشوب سے کیا مراد ہے؟

جواب: ایسی نظم جس میں زمانہ بدل جانے ،لوگوں کے اخلاق و عادات بگڑ جانے، معاملات کے درہم برہم ہو جانے ،شرفا کی خوداری اور ذلیلوں کی گرم بازاری اور کسی شہر کی بربادی ، اور تباہ کاری کا ذکر ہو اسے شہر آشوب کہتے ہیں۔ اس صنف کی پہچان اس کے مخصوص موضوع سے ہوتی ہے۔اس صنف کو غزلیہ ،شہر آشوب ، مسدس ،مخمس ،مثمن ،وغیرہ ہیتوں میں لکھا جاتا ہے۔

سوال: اس قصیدے کو شاعر نے شہر آشوب کیوں قرار دیا ہے؟

جواب: اس قصیدے میں احمد شاہ ابدالی کے حملے کی وجہ سے ہونے والی دلی کی بربادی اور ویرانی کا ذکر موجود ہے اور مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کی مفلسی، لاچاری اور بے بسی کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، اسلئے اس قصیدے کو شہر آشوب قرار دیا گیا ہے۔

سوال: اس قصیدے (قصیدہ شہر آشوب) کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

خلاصہ:

مرزا محمد رفیع سوداؔ نے اپنے قصیدے شہر آشوب میں دلی کی تباہ حالی کی داستان پیش کی ہے اور بڑا مؤثر انداز بیاں اپنایا ہے۔ سودا اس قصیدے میں فرماتے ہیں کہ میں نے ہر کسی کی قوت گویائی دیکھی ہے اس لئے میرے سامنے اب کوئی اپنی قوت دکھانے کے لائق نہیں رہاہے کہ اس کے منہ میں زبان ہے۔ اب جو کچھ کہنا ہے وہ میں ہی کہہ دوں گا کیوں کہ دوسروں میں زبان نہیں ہے۔

آگے شاعر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر کو بولتے ہوے سنا جو کہتا ہے کہ تمہاری نظم کا انداز بیان کتنا دلکش اور نرالا ہے۔ پھر میں نے اپنے اندر کے شاعر سے صرف اتنا پوچھا کہ کیا کوئی فرد ایسا ہے جو اس دلی میں مسرت اور اطمینان سے زندگی گزار رہا ہے؟ میرا سوال سن کر وہ کہنے لگا بس سودا چپ رہ جا ان کا تو خدا ہی حافظ ہے۔لوگ کس طرح زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ فرشتے بھی بیان نہیں کر پائیں گے۔ یہاں لوگوں کے ذرائع معاش الگ الگ ہیں۔ یہ لوگ کس کس طرح اپنا روزگار کماتے ہیں۔

اس کی کہانی آرام سے سنو کہ جب کوئی کسی کے ہاں اپنا گھوڑا لے کر نوکری کرتا ہے اور اپنی روزی روٹی کمانا چاہتا ہے تو اس کو کام کرنے کے بعد اس کے مالک کی طرف سے وقت پر تنخواہ نہیں ملتی کیونکہ وہ مالک خود خستہ حال ہوتا ہے۔ وہ خو دکم آمدنی کا شکار ہوتا ہے، اسلئے تنخواہ نہیں دے پاتا۔ تمام عمر زندگی گھوڑے کے چارے کا انتظام کرنے میں گزرتی ہے، یعنی جو بنیادی ضروریات ہیں ان کو پورا کرنے میں ہی زندگی گزر جاتی ہے۔

جو کمائی ہوتی ہے اس سے زیادہ ادھار چکانا پڑتا ہے۔ تجارت کرنے کا بھی کوئی آسان راستہ نہیں ہے کیوں کہ اس میں بھی بہت محنت لگتی ہے۔ ایران سے مال لانا پڑتا ہے اور دکن میں فروخت کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ (شعرا) دنیا کے حالت سے بے پرواہ اور بے نیاز سمجھے جاتے ہیں اب ان حالات سے وہ بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ ان شعرا سے ملاقات کرنے کے لئے بے تاب ہوتے تھے اور شاعروں کو یہ پریشانی رہتی تھی کہ ان کو فلاں کے فلاں بیٹے سے ملنا ہے، آج حال یہ ہے کہ شعرا کو ہی امیروں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں۔

اگر عید کی نماز بھی پڑھنے جاتے ہیں وہاں بھی یہی سوچتے ہیں کہ کس صاحب ثروت کا قطعہ لکھوں تاکہ کچھ رقم مل جائے۔ملا کا بھی شعرا جیسا حال ہے، ہاں اگر وہ مثنوی کے چند اشعار پڑھیں تو ایک دو روپے مل سکتے ہیں۔ میں کیا بتاؤں ملا کا حال؛ دن بھر بچوں کو پڑھانے کے بعد ان کے دسترخوان پر صرف دال اور جو کی روٹی ہوتی ہے۔دن بھر وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور رات بھر وہ اپنے گھر کے اخراجات کا حساب لگاتے ہیں۔اس طرح اس کی زندگی بھی پریشانی میں ہی گزرتی ہے۔ اگر وہ آرا م کرنا بھی چاہے تو ان حالات میں کہاں کر سکے گا۔

اس حالت میں اگر وہ پیر و مرشد اور صوفی بزرگ بننا چاہے تو اس پر فوراً شعرا طنز کرنے بیٹھیں گے۔ جب شیخ کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ عرس ہے تو جلد سج دھج کر اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں پہنچ جاتا ہے۔پھر وہاں جب ڈھولک بجتی ہے تو سب پر جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، کوئی پھر کودتا ہے، کوئی رو پڑتا ہے ، کوئی نعرہ دیتا ہے۔ پھر جب پیر بھی وجد میں آتا ہے تو وہ اصول وجد توڑ دیتا ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سر گوشی کرنے لگتے ہیں کہ اس نے مستی میں آکر وجد کے اصول توڑے ہیں۔

شاعر مزید فرماتے ہیں کہ یہاں کوئی آرام سے زندگی گزار سکے، اس کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دنیا میں آسودگی اور اطمنان اور سکون کبھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آخرت میں اطمنان وسکون ملے ہوگا مگر مجھے نہیں لگتا ہے۔ شائد یہ ان کا وہم اور گمان ہے کیونکہ اگر یہاں اطمنان نہ مل سکا تو پھر وہاں بھی نہیں مل پائے گا۔یہاں اگریہاں فکر روزگار ہے توہ وہاں دوزخ سے بچنے کی فکر ہوگی۔اسطرح انسان کو کبھی آسودگی اور اطمنان نہیں مل سکتا، وہ ہمیشہ بے سکون ہی رہتا ہے۔