قرآن کے متعلق سوالات، فضائل، پہلی وحی

0

سبق نمبر 26

سوال۱: قرآن مجید کے اسماء کون کون سے ہیں؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے جو کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے ان میں قرآن مجید آخری مکمل اور ابدی ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اس کے فضائل و برکات اور علوم و اسراربے حد و حساب ہیں۔

قرآن مجید کے اسماء

قرآن مجید کے اسماء کے بارے میں علماء کے کئی اقوال ہیں۔ جن میں سے کتاب البرہان کا بیان بھی ہے کہ قرآن کریم کے پچپن نام ایسے ہیں جو خود آیات قرآنیہ سے ماخوذ ہیں۔ ان میں کا سے چند اسماء مبارک مندرجہ ذیل فہرست میں مذکور ہیں:

  • الكتاب: دنیا کی تمام کتابوں میں کتاب کہلانے کا مستحق قرآن ہی ہے۔
  • الفرقان: سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والی۔
  • نور: روشنی اور ہدایت دکھانے والی۔
  • شفاء: روحانی شفاء اور پیغام صحت۔
  • تذکرہ: عبرت و نصیحت کا سامان۔
  • العلم: یہ کتاب سراپا علم و معرفت ہے۔
  • البیان: اس کتاب کی ہر کتاب وضاحت سے پیش کی جاتی ہے۔
  • اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن کی چند صفتوں کا بھی بیان فرمایا۔ مثلاً:
  • حکیم: حکمت والا
  • مجید: بزرگ
  • مبارک: بابرکت
  • العزیز: زبردست عزت والا
  • مبین: ہدایت کو واضح کرنے والا۔
  • کریم: کرامت اور بزرگی والا۔

اس کتاب کی خوبیوں کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ اس کے مضامین و مطالب کی کوئی حد نہیں۔ کوئی شخص بھی جس کے دل میں ہدایت کی سچی تڑپ ہو وہ اپنی فہم کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

سوال۲: پہلی وحی کے نزول کا واقعہ تفصیل سے لکھیں؟

جواب: قرآن کریم نزول سے پہلے بھی لوح محفوظ میں مکتوب تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ : یہ قرآن مجید ہے، لوح محفوظ میں لکھا ہوا۔(سورة البروج : ۲۱، ۲۲-)
پھر لیلتہ القدر میں جو رمضان المبارک میں ہے، یہ پورے کا پورا لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔(سورۃ البقرۃ: ۱۵۸)
ایک اور جگہ ارشادہے:
ترجمہ: بے شک ہم نے اسے لیلتہ القدر میں اُتارا ہے۔ (سورة القدر : ١)

اس کے بعد اللہ تعالی کی حکمت اور فیصلے کے مطابق اس کا نزول حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے حضرت محمد رسول الله خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم پر شروع ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال کو پہنچی تو، آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم بکثرت سچے خواب دیکھا کرتے تھے۔ جو حرف بحرف پورے ہوتے تھے۔ ان دنوں آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم مکہ سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر فاران نامی پہاڑ کے حرا نامی غار میں کئی کئی دن تنہائی میں گزارتے اور عبادت میں مصروف رہتے کہ اچانک ایک دن حضرت جبرائیل علیہ السّلام ظاہر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم سے فرمایا:

“اقراء” ( پڑھیے ) آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم فرمایا۔ ” ما انا بقارئ”( میں پڑھا ہوا نہیں ہوں) جبرائیل امین نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو سینے سے لگا کر بھینچا اور پھر چھوڑ کر کہا ” اقراء ” ( پڑھیے) آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا۔ تیسری مرتبہ پھر جبرائیل علیہ السّلام نے ایسا ہی کیا اور پھر سورۂ علق کی پہلی پانچ آیات پڑھیں۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ بلکہ روز قیامت تک تمام انسانوں کی ہدایت اور ہنمائی کا عظیم بار امانت تھا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم پر ڈال دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے قلب مبارک پر اس کا بڑا اثر تھا۔

واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو، جب کچھ سکون ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے تمام واقعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سنایا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے اطمینان کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ جو نہایت عمر رسیدہ اور تورات کے بہت بڑے عالم تھے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے حالات سُن کر کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی لاتا تھا۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک کوئی وحی نہ آئی۔ اسے “فترة الوحی” کا زمانہ کہتے ہیں۔

اس کے بعد سورۃ مد شر کی ابتدائی آیات سے وحی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد مسلسل قرآن مجید موقع اور محل کے مطابق تقریباً بیس سال تک نازل ہو تا رہا۔ اس طرح نزول وحی کا کل زمانہ ۲۳ سال کے لگ بھگ ہے۔ عام طور پر تین تین، چار چار آیتیں ایک ساتھ اُترتیں۔ بعض اوقات زیادہ آیتیں یا پوری سورت آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم پر نازل ہو جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کاتبان وحی کو بلا کر ہر وحی کو اس کی متعلقہ سورت میں لکھوا لیتے۔

سوال۳: فضائلِ قرآن مجید کے متعلق لکھیں؟

جواب: فضائل قرآن مجید:

قرآن مجید کے فضائل بہت سی آیات و احادیث میں مذکور ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:۔ اے لوگو! تمھارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے ایک پیغام نصیحت آچکا ہے۔ جو دلوں کی بیماریوں کا علاج اور مومنوں کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ (سورۃ یونس:۵۷)
قرآن مجید کی تلاوت باعث برکت اور موجب اجر و ثواب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کا ایک حرف پڑھے اس کے لیے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر ملتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف لام ایک حرف، میم ایک حرف ہے (گویا ایک لفظ میں تین حروف ہوئے جس کے بدلے میں تیس نیکیاں ملیں گی )۔

حضرت معاذجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ” جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو اس کے والدین کو روز قیامت ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بہتر ہو گی۔” قرآن مجید پر عمل دین ودنیا کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سےروایت ہے۔ اے لو گو !تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بے شک اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعے بہت سی قوموں کو عزت و سربلندی عطا کرتا ہے (ایمان و عمل کے ذریعے ) اور بہت سوں کو (اس سے رو گردانی پر) ذلیل ورسوا کر دیتا ہے”۔