رامائن کا ایک سین کا خلاصہ

0

اس نظم میں رام چندر جی کے بن باس جاتے وقت اپنے والدین خصوصاً اپنی والدہ سے رخصت ہونے کے واقعات کو نظم کیا گیا ہے۔ والدہ نے اپنی آنکھوں کے لال کو حسرت بھری آنکھوں سے دیکھا۔ ان کے چہرے پر ان کے دل کے حالات ظاہر ہونے لگے۔ جب ماں بولنے لگی تو اس کی باتوں میں خون جگر کا رنگ تھا۔ وہ بیٹے سے کہنے لگی کہ میں جانتی ہوں کہ تم یہاں میرے پاس اس وقت کیوں آئے ہو۔ سب اسی میں خوش ہیں کہ تم جنگل کا راستہ لو۔ دنیا کا تو خون ہی سفید ہو گیا ہے۔ کسی کے دل میں کسی کے لیے ہمدردی ہی نہیں رہی۔

میں نے کتنی محنت اور لگن سے تمہاری پرورش کی۔جب تم شادی کے قابل ھو گے تو میں تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اپنی خوشی سے تمہاری شادی بھی کی لیکن اب جب میں بوڑھی ہو گئی ہوں تو مجھے تم سے دور ہونا پڑ رہا ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ میری کوئی اولاد نہ ہوتی اور مجھے آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔اپنی ماں کی یہ درد بھری فریاد سن کر رام چندر جی کے ٹوٹے دل پر غم کی تلوار چل پڑی لیکن انہوں نے بہت صبر کیا اور آنکھوں میں آنسوں نہیں آنے دیے۔

یہی سوچا کہ ہمیں روتے ہوئے دکھی ہوتے دیکھ کر ماں کواور زیادہ دکھ ہوگا۔ اس لئے اپنے دل پر قابو رکھا اپنی ماں کی خدمت میں عرض کرنے لگے کہ آپ اس قدر مایوس کیوں ہوتی ہیں۔ بڑھاپے کی حالت میں یہ ایک بڑا صدمہ ضرور ہے لیکن پھر بھی آپ صبر سے کام لیجئے۔ رام چندر جی اپنی ماں کو صبر کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور کہتے کہ ہمارے ساتھ ہونے والے یہ، فریب،جعل سازیاں اور دھوکہ توظاہری اسباب ہیں۔ان سے اپنے دل کو دکھى نہ کیجئے۔ یہ تو بہانے ہیں جو ہونا ہوتا ہے اس کے کچھ بہانے تو بن ہی جاتے ہیں۔ کیا معلوم خدا کو کیا منظور ہے۔ انسان دکھوں سے گرا بڑا آنکھوں سے گھرا ہویا اسے خوشیاں حاصل ہو ں،اسے چاہے ہے کہ ہر حال میں خدا کا شکر کرتا رہے۔

مزید ڈھارس بنرھاتے ہوے اپنی ماں سے رام چندر جی کہتے ہیں کے اس دنیا میں صرف آپ ہی زمانے کے فریبوں کی ماری ہوی نہیں ہیں بلکہ یہاں تو لاکھوں انسان دکھی ہیں۔کون ہے جس نے دکھ دکھ اور تکلیفیں نہیں اٹھائیہں۔یہ تو اس دنیا کا دستور ہے۔اس لیے لیے صبر سے کام لینا ہی پڑتا ہے۔اس دنیا میں تو بے گناہوں کی عمر یہں تباہ ہو گیہں اور اندر کے غموں نے لوگوں کے دل اور جگر جلا کر کباب کر دیے ہیں۔کسی کا بڑھاپا برباد ہو گیا اور کسی کی جوانی برباد ہوگئی جن کی قسمت روٹھ جاتی ہے تو پھر انسان سے کچھ بن نہیں پاتا۔رام چندر جی ماں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماں باپ کو جن بچوں سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں جن کے دامن پر وہ کبھی دھول بھی جمنے نہیں دیتے ہیں۔

ان ہی کو جب موت ماں باپ سے چھین لیتی ہے تو انہیں خود اپنے ہاتھوں سے ان کی نعشوں کو جلانا پڑتا ہے۔بلا آخرانہیں بھی صبر کرنا پڑتا ہے۔سوائے صبر کے وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔جس پر دکھوں اور مصیبتوں کا بوجھ پڑتا ہے اسے خدا صبر بھی عطا کرتا ہے۔انسان مایوس ہوجائے تو گنہگار ہوتا ہے۔کیا انسان یہ نہیں جانتا کے خدا دنیا والوں کے دکھ مٹانے والا ہے۔ انسان کو چاہے کی وہ اس کے بلکہ راستے سے ڈگمگائے نہیں بلکہ اس کی خوشی میں خوش رہے۔انسان کو خدا جس حال میں رکھے،اسی حال میں خوش رہنا چاہیے اور اس کی رضامندی حاصل ل کرنی چاہے۔مجھے تو بن باس ختم ہونے کے بعد خوشی خوشی گھر واپس لوٹنا ہے۔14سال کوئی بڑا عرصہ تو نہیں ہے جلدی ختم ہو جائے گا۔

دنیا تو امید پر ہی قائم ہے۔رام چندر جی والدہ محترمہ کی ڈھارس بنرھانے کے لیے مزید کہتے ہیں کے جنگل میں جو بے شمار پھول کھلتے ہیں۔ان کی بہار کا دارومدار محنت پر نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ خدا کی قدرت دیکھئے کے وہ بارشوں اور برف باری میں بھی ہرے بھرے رہتے ہیں۔یعنی کوئی نقصان نہیں پہنچ پاتا۔چونکہ کہ ان پر خدا کا فضل اور اس کا سایہ ہوتا ہے۔تمہاری نظر بی تو اسی خداے کار ساز پر ہے جو سب کی کام بنانے والا ہے۔وہ چاہے تو جنگل بھی گلستان میں تبدیل ہو سکتا ہے۔اگر اس کا کرم ہم پر رہے گا تو ہمارے لئے جنگل کا دامن ماں کے دامن سے کم نہیں ہوگا اور ہمیں کوئی غم نہیں ہوگا۔