Advertisement

تعارف شاعر:

پنڈت برج نرائن چکبست کی ولادت ایک کشمیری خاندان میں بہ مقام فیض آباد، (اتر پردیش) میں ہوئی۔ انھوں نے لکھنو میں تعلیم حاصل کی۔ ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لکھنو ہی میں وکالت کرنے لگے۔ ان کا انتقال بریلی میں ہوا اور آخری رسوم لکھنو میں ادا کی گئیں۔

Advertisement

چکبست نے روایتی انداز سے شاعری شروع کی اور غزلیں بھی کہیں۔ جلد ہی وہ نظم گوئی کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ وطن پرستی کو موضوع بنایا۔ چکبست نے ہوم رول‘ کے موضوع پر بہت سی نظمیں کہی ہیں۔ ان کی نظموں میں قدرتی مناظر کی عکاسی ، بیداری وطن کے جذبات، آزادی کی تڑپ اور دردمندی کے پہلو نمایاں ہیں۔

ان کے کلام میں سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔انھوں نے اپنے احباب ، بزرگوں اور قومی رہنماؤں پر مر جیے لکھ کر ان کی سیرت کی عمد عکاسی کی ہے ۔ان کی نظموں کا مجموعہ صبح وطن‘‘ اور مضامین کا مجموعہ’’ مضامین چکبست‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

نظم رامائن کا ایک سین کی تشریح:

رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہ وفا کی منزل اول ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا اہتمام
دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام
اظہار بے کسی سے ستم ہو گا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہو گا اور بھی

یہ اشعار”چکبست نرائن” کی نظم “رامائن کا ایک سین” سے لیے گئے ہیں۔ اس نظم میں شاعر نے رام چندر جی کے اس کی ماں کو شیلا سے جدائی کے منظر کو بہت پر درد انداز میں بیان کیا ہے۔ شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ رام چندر نے جب خدا کا نام لے کر اپنی منزل کی جانب جانے کا ارادہ کیایہاں پر اس کی منزل وفا تمام ہو چکی تھی۔ انھوں نے جانے سے قبل اپنی ماں کوشیلا سے ملنے کا ارادہ کیا۔یہ سوچتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔وہ اپنی قمیض کے دامن سے اپنے آنسو خشک کرنے لگے اور دل ہی دل میں یہ بات کی کہ ماں کے سامنے اس کمزوری کا اظہار ماں پر ایک ظلم ہو گا اور وہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر مزید اداس ہو جائے گی۔

دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نو نہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورت خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتہ سا ہو گیا ہے یہ ہے شدت ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ
گو یا بشر نہیں کوئی تصویر سنگ ہے۔

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر جب اپنے دل کی حالت پر قابو پاتے ہوئے اپنی ماں کے حضور پہنچا تو دیکھا کہ وہ ان کے خیال کی تصویر کی عکاس بنی ہوئی بہت خستہ حال ایک دروازے میں بیٹھی ہے۔دکھ کی شدت سے اس پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہے۔اس کا جسم ایسا زدر پڑا ہوا ہے کہ جیسے اس میں لہو کی ایک بوند بھی باقی نہ ہو۔گویا وہ کوئی انسان نہیں بلکہ پتھر کی کوئی مورتی ہو۔

Advertisement
کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نور نظر پہ دیدۂ حسرت سے کی نگاہ
جنبش ہوئی لبوں کو کھری ایک سر دآہ
لی گوشہ ہاۓ چشم سے آنکھوں نے رخ کی 
راہ چہرے کا رنگ حالت دل کھولنے لگا
ہر موۓ تن زباں کی طرح بولنے لگا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ نہ جانے وہ ماں کس خیال میں گم تھی۔اس نے حسرت بھری نگاہوں سے اپنے بیٹے یعنی نور نظر کو دیکھا۔اس کے ہونٹوں میں ذرا سی جنبش ہوئی اور اس کے ہونٹوں سے ایک آہ جدا ہوئی۔اس کی آنکھوں کے کونوں نے اس کے بیٹے کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے کا رنگ دیکھ کر اس کے دل کی حالت بدلنے لگی۔ اس کا رواں رواں زبان کی طرح بولنے لگا۔

رو کر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جاں
میں جانتی ہوں جس لیے آۓ ہو تم یہاں
سب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں
لیکن میں اپنے منہ سے نہ ہر گز کہوں کی ہاں
کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں
جوگی بنا کے راج دلارے کو بھیج دوں

اس بند میں شاعر نے رام چندر اور اس کی ماں کے مکالمے کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ رام چندر کی ماں نے رو کر اس سے یہ کہا کہ میری جان تم خاموش کیوں کھڑے ہو۔مجھے معلوم ہے کہ تم کس لیے یہاں کھڑے ہو۔اگر سب کی خوشی اسی میں ہے تو تم صحرا کی جانب روانہ ہو جاؤلیکن میں اپنے منھ سے جانے کی تمھیں ہر گز اجازت نہ دوں گی۔کہ میں کس طرح اپنے آنکھوں کے تارے کو خود سے دور بھیجوں۔اپنے شھزادے کو فقیر بنا کر روانہ کر دوں۔

لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم
ہوتے نہ میری جان کو سامان یہ بہم
ڈستانہ سانپ بن کے مجھے شوکت و حشم
تم میرے لال تھے مجھے کس سلطنت سے کم
میں خوش ہوں پھونک دے کوئی اس تخت و تاج کو 
تم ہی نہیں تو آگ لگادوں گی راج کو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر کی ماں نے اپنے بیٹے سے اظہار محبت کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر میں کسی کی فقیر کے گھر جنم لیتی تو میری جان کو یہ روگ نہ لگتے۔یہ شان و شوکت اور رعب داب مجھے نہ ڈستے۔ میرے جگر گوشے تم میرے لیے کسی سلطنت اور ریاست سے کم نہیں ہو۔ اگر میرے تخت و تاراج کو کوئی آگ بھی لگا دے تو میں خوش ہوں کہ جہاں تم موجود نہیں ہو وہاں یہ تخت و تاج بامعنی ہیں۔

کن کن ریاضتوں سے گذارے میں ماہ و سال
دیکھی تمہاری شکل جب اے میرے نو نہال ،
پورا ہوا جو بیاہ کا ارمان تھا کمال
آفت یہ آ ئی مجھ پہ ہوۓ جب سفید بال
چھٹتی ہوں ان سے جوگ لیا جن کے واسطے
کیا سب کیا تھا میں نے اسی دن کے واسطے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ماں اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ تمھیں کیا معلوم ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے سال اور مہینے کن کوششوں میں گزارے ہیں۔لیکن جب تمھاری صورت میں اولاد میری جھو لی میں آئی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میری شادی کا خواب پورا ہو گیا ہو۔ مگر اس پہ بھی یہ مصیبت آئی کہ جب میرے بال سفید ہوئے اور میں اپنے بڑھاپے میں ہوں تو جس کے واسطے میں نے یہ فقیری اپنائی تھی آج وہ ہی مجھ سے جدا ہو رہا ہے۔کیا میری ساری قربانیاں اسی لیے تھیں۔

سرزد ہوئے مجھ سے خدا جانے کیا گناہ
منجدھار میں جو یوں مری کشتی ہوئی تباہ
آتی نظر نہیں کوئی امن و امان کی راہ
اب یاں سے کوچ ہو تو عدم میں ملے پناہ
تفصیر میری خالق عالم بحل کرے
آساں مجھ غریب کی مشکل اجل کرے

اس بند میں شاعر نے رام چندر جی کی ماں کوشیلا کے مکالمات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ رام چندر کی ماں اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے کیا غلطی سرزر ہوئی ہے۔جو یوں میں مشکلات کے طوفان میں گھر چکی ہوں۔مجھے اس مشکل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ اب اگر موت کی صورت میں،میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو ہمیشہ رہنے والی دنیا میں ہی مجھے پناہ مل سکتی ہے۔ میری یہ خطا مجھے تخلیق کرنے والا خالق ہی معاف کرسکتا ہے اور موت ہی میری یہ مشکل آسان کر سکتی ہے۔

Advertisement
سن کر زباں سے ماں کی یہ فریاد درد خیز
اس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز
عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز
لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز
سوچا یہی کہ جان سے بیکس گذر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندرنے جب اپنی ماں کی یہ دلخراش فریاد سنی تو گویا اس کے دل پر کسی نے تلوار چلا دی ہو۔اس وقت اس کی کیفیت یوں تھی کہ انکھوں سے آنسو بہنے کے قریب تھے۔مگر ہزار کوشش کے باوجود بھی وہ ان کو روک نہ پا رہا تھا۔اس نے یہ سوچا کہ خود سے عاجز آئی ماں یہ صورت حال اور اپنے بیٹے کو نا خوش پا کر جان سے ہی نہ گز جائے۔

پھر عرض کی یہ مادر ناشاد کے حضور
مایوس کیوں ہیں آپ الم کا ہے کیوں وفور
صدمہ یہ شاق عالم پیری میں ہے ضرور
لیکن نہ دل سے کیجئے صبر و قرار دور
شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی
کچھ مصلحت اسی میں ہو پر ور دگار کی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر نے اپنی ناخوش ماں کے حضور یہ درخواست کی کہ اے ماں تم نہ خوش نہ ہو اور اتنا زیادہ دکھ مت کرو۔اس بزرگی میں یہ صدمہ ضرور ہے۔بے شک دل سے بے چینی اور بے قراری کو ختم نہ کرو۔لیکن۔ہو سکتا ہے کہ اسی غم کے ساتھ خوشی پوشیدہ ہو۔اسی خزاں کے بعد کوئھ بہار دکھلائی دے۔اسی میں پروردگار کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوگی۔

پڑتا ہے جس غریب پر رنج و محن کا بار
کرتا ہے اس کو صبر عطا آپ کر دگار
مایوس ہو کے ہوتے ہیں انسان گناہ گار
اوہ یہ جانتے نہیں وہ ہے داناۓ روزگار
انسان اس کی راہ میں ثابت قدم رہے
گردن وہی ہے امر رضا میں جو خم رہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر نے اپنی ماں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ جس انسان پر غم کا بوجھ پڑتا ہےاس کو پاک پروردگار ہی صبر عطا کرتا ہے۔ مایوسی چونکہ کفر ہے اس لیے وہ انسان کو گناہ کی جانب لے جاتی ہے۔ اللہ کی ذات ہی انسان کو سب کچھ عطا کرنے والی ذات ہے۔ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کی راہ میں ثابت قدم رہے۔وہی بہترین انسان ہے جس کی گردن اس کے رب کی رضا میں جھکی رہے۔

اکثر ریاض کرتے ہیں پھولوں پہ باغباں
ہے دن کی دھوپ رات کی شبنم انہیں گراں
لیکن جو رنگ باغ بدلتا ہے ناگہاں
وہ گل ہزار پردوں میں جاتے ہیں رائیگاں
رکھتے ہیں جو عزیز انہیں اپنی جان کی طرح
ملتے ہیں یاس وہ برگ خزاں کی طرح

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے باغ پھولوں کے باغباں ہوتے ہیں۔انھیں ان پھولوں کے لیے دن کی دھوپ اور رات کی شبنم بہت بری لگتی ہے۔لیکن جو باغ اچانک رنگ بدل جائے اس کے پھول ہزار پردوں میں بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ لیکن جو انھیں اپنی جان کی طرح عزیز رکھیں وہ بھی اکثر خزاں کے پتے کی طرح افسوس سے اپنے ہاتھ مل رہے ہوتے ہیں۔

لیکن جو پھول کھلتے ہیں صحرا میں بشمار
موقوف کچھ ریاض پہ ان کی نہیں بہار
دیکھو یہ قدرت چمن آراۓ روزگار
وہ ابروباد و برف میں رہتے ہیں برقرار
ہوتا ہے ان پہ فضل جو رب کریم کا
موج سموم بنتی ہے جھونکا نسیم کا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندر اپنی ماں سے کہتا ہے کہ لیکن جو پھول کسی صحرا میں کھلتے ہیں۔ان پر کسی باغ کی بہار کا انحصار نہیں ہوتا ہے۔یہ بھی قدرت کے کرشمے ہیں کہ یہ باغ بادل، ہوا ،برف ہر طرح کے موسموں میں اپنی بہار برقرار رکھتے ہیں۔ان پر جب ان کے پروردگار کا فضل ہو تو جھلسا دینے والی گرم ہوا بھی ان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہے۔

Advertisement
اپنی نگاہ ہے کرم کار ساز پر
صحرا چمن بنے گا وہ ہے مہر باں اگر
جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہو حضر
رہتا نہیں وہ حال سے بندے کے بے خبر
اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں
دامان دشت دامن مادر سے کم نہیں

شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ رام چندر جی نے کہا کہ اگر خدا کی مدد اور اس کا کرم اس کے شامل حال ہے تو صحرا بھی اس کے لیے باغ ثابت ہوگا۔جنگل، پہاڑ اور سفر ہو یا آرام کی کیفیت وہ کسی صورت بھی اپنے بندے سے بے خبر نہیں رہتا ہے۔اگر اس کا کرم شامل حال ہے تو کیسا غم کہ اس صورت میں جنگل کا دامنبھی کسی ماں کی آغوش سے کم نہیں ہوتا۔

سوالوں کے جواب لکھیے:-

راہ وفا کی منزل اول ہوئی تمام یہ کہ کر شاعر نے کس کی طرف اشارہ کیا ہے؟

راہ وفا کی منزل تمام ہونے سے شاعر کی مراد رام۔چندر کا سفر کی جانب بڑھنے کے فیصلے کی طرف اشارہ ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ شاعر نے کس کے لیے استعمال کیے ہیں؟ صورت خیال ،خستہ حال ،شدت ملال ، تصویر سنگ۔

درج بالا الفاظ شاعر نے رام چندر جی کی ماں “کوشیلا” کی بیٹے سے جدائی کی کیفیت کے بیان میں استعمال کیے ہیں۔

شاعر کے خیال میں شوکت وحشم سانپ بن کر کس طرح ڈس رہا ہے؟

شوکت و حشم اس طرح سے سانپ بن کر ڈس رہے ہیں کہ اس شان و شوکت اور مرتبے کی وجہ سے رام چندر کو اس کی ماں سے جدا ہونا پڑ رہا ہے۔

موۓ تن زبان کی طرح بولنے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

موئے تن زبان کی طرح بولنے سے شاعر کی مراد رونگٹے کھڑے ہو جانے سے ہے۔یا جسم کا ایک ایک بال بھی زبان رکھتا ہو اور بول رہا ہو۔

Advertisement

چھٹے اور ساتویں بند کی تشریح کیجیے۔

بند نمبر06:

سرزد ہوئے مجھ سے خدا جانے کیا گناہ
منجدھار میں جو یوں مری کشتی ہوئی تباہ
آتی نظر نہیں کوئی امن و امان کی راہ
اب یاں سے کوچ ہو تو عدم میں ملے پناہ
تفصیر میری خالق عالم بحل کرے
آساں مجھ غریب کی مشکل اجل کرے

اس بند میں شاعر نے رام چندر جی کی ماں کوشیلا کے مکالمات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ رام چندر کی ماں اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے کیا غلطی سرزر ہوئی ہے۔جو یوں میں مشکلات کے طوفان میں گھر چکی ہوں۔مجھے اس مشکل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ اب اگر موت کی صورت میں،میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو ہمیشہ رہنے والی دنیا میں ہی مجھے پناہ مل سکتی ہے۔ میری یہ خطا مجھے تخلیق کرنے والا خالق ہی معاف کرسکتا ہے اور موت ہی میری یہ مشکل آسان کر سکتی ہے۔

بند نمبر07:

سن کر زباں سے ماں کی یہ فریاد درد خیز
اس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز
عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز
لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز
سوچا یہی کہ جان سے بیکس گذر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ رام چندرنے جب اپنی ماں کی یہ دلخراش فریاد سنی تو گویا اس کے دل پر کسی نے تلوار چلا دی ہو۔اس وقت اس کی کیفیت یوں تھی کہ انکھوں سے آنسو بہنے کے قریب تھے۔مگر ہزار کوشش کے باوجود بھی وہ ان کو روک نہ پا رہا تھا۔اس نے یہ سوچا کہ خود سے عاجز آئی ماں یہ صورت حال اور اپنے بیٹے کو نا خوش پا کر جان سے ہی نہ گز جائے۔

عملی کام:

اس نظم سے متضادالفاظ تلاش کر کے لکھیے۔

مشکل، آسان۔ خزاں، بہار۔ غم،خوشی۔ دن،رات۔ ابر،باد۔ وغیرہ۔

نظم میں ایک لفظ ناشاد آیا ہے جس کے معنی خوش نہ ہونے کے ہیں لیکن اگر ہم اس میں س سے نا ہٹاد یں تو لفظ شاد بن جاۓ گا جس کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔آپ بھی ایسے ہی کچھ الفاظ لکھیے جس میں نا کا استعمال کیا گیا ہے۔
ناخوش، ناراض،نامناسب،نامراد، ناتواں، نالائق وغیرہ۔

اضافت کی تعریف اس سے پہلے آپ پڑھ چکے ہیں ۔ اس نظم میں بھی کچھ اضافتیں آئی ہیں ۔جیسے خالق عالم ۔آپ نظم میں آئی اضافتوں کی نشاندہی کیجیے۔

Advertisement

دامانِ دشت، دامنِ مادر، برگ خزاں، امر رضا، خالق عالم، تصویر سنگ، صورت خیال وغیرہ۔

اسی طرح کچھ الفاظ ایسے آۓ ہیں جن میں دو الفاظ کے درمیان میں و کا استعمال ہوا ہے۔ شوکت و حشم یہ لکھتے تو ولگا کر ہیں لیکن پڑھتے ہیں ملا کر جیسے ( شوکت حشم ) دولفظوں کو اس طرح ملانے والے کو حرف عطف کہتے ہیں ۔آپ اس نظم میں سے اس طرح کے الفاظ کو تلاش کر کے لکھیے جن میں عطف کا استعمال ہوا ہو۔

اس نظم میں آنے والے حروف عطف درج ذیل ہیں:
تخت و تاج ،امن و اماں،صبر و قرار،رنج و محن، ابر و باد و برف وغیرہ۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی لکھیے اور انھیں جملوں میں استعمال کیجیے:

الفاظمعنیجملے
بہمساتھ ساتھ احمد اور علی ہمیشہ بہم پائے جاتے ہیں۔
اشک ریز
آنسو بہاناہم اللہ تعالیٰ کی ذات کے سامنے اشک ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔
خالق عالم
سب کو بنانے والااللہ تعالیٰ کی ذات خالق عالم ہے۔
عیاں
ظاہر کائنات کے ہر منظر میں اللہ کی ذات کے جلوے عیاں ہیں۔
رنج ومحن
دکھ دردغم دوسروں کا رنج و محن محسوس کرنے والا انسان یقیناً ایک درد مند دل رکھتا ہے۔
منجدھار بھنوران کی کشتی منجدھار میں پھنس گئی۔
الم
غمملکی افلاس ایک الم ناک صورت حال ہے۔
وفورزیادتیدوسروں کا حق کھانا وفور ہے۔