رسول، رسالت کی تعریف اور اہمیت، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 04

سوال۱:اسلام کا دوسرا عقیدہ کیا ہے؟ رسول کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کیجیے۔

جواب: انسا ن کو ذات الہیٰ کی صحیح پہچان اس کے رسولوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اس لیے اسلام کے سلسلہ عقائد میں توحید کے بعد رسالت کا درجہ ہے۔ رسول کے لغوی معنی ہیں پیغام دےکر بھیجا ہوا یعنی پیغام پہنچانے والا۔ دین کی اصطلاح میں رسول وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے منتخب فرمایا ہو۔

سوال۲: رسول کو اور کیا کہتے ہیں اور اس لفظ کے کیا معنی ہوتے ہیں؟

جواب: ۔ رسول کو نبی بھی کہتے ہیں۔ جس کے معنی ہیں خبردینے والا۔ رسول کو ہم پیغمبر بھی کہتے ہیں، یعنی پیغام لانے والا۔

سوال۳: رسالت ملنے سے پہلے رسول کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟ قرآنی آیت سے وضاحت کیجیے۔

جواب: رسالت ملنے سے پہلے بھی رسول کی زندگی اپنی قوم میں بہترین زندگی ہوتی ہے۔وہ پاکباز، نرم،خو، نیک طبیعت، سچا اور امنت دار ہوتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتے وقت کوئی اس کو بے اعتباریا جھوٹا نہ کہہ سکے۔ اور وہ دعویٰ سے کہے:
ترجمہ: میں نے اس سے پہلے تمہارے درمیان کافی زندگی گزاری ہے۔ (سورۃ یونس: ۱۶)

سوال۴: وحی کے معنی بیان کیجیے۔

جواب:رسالت کے لیے اگرچہ کوئی عمر مقرر نہیں لیکن اکثر رسل علہیم السلام کو کافی پختہ عمر میں وحی کے ذریعے رسالت ملی ہے۔ وحی کے معنی ہیں دل میں چپکے سے کوئی بات ڈالنا، اشارہ کرنا یا کسی فرشے کے ذریعہ پیغام پہنچانا۔ دین کی اصطلاح میں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام ہے جو اس نے اپنے کسی رسول پر فرشتوں کے ذریعے نازل کیا ہو یا براہ راست اس کے دل میں ڈال دیا ہو یا کسی پردے کے پیچھے سے اسے سنوادیا ہو۔ قرآن مجید میں وحی کالفظ ان تینوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
ترجمہ: اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے روبرو بات کرے اس کی بات یا تو وحی کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے، یا وہ کسی قاصد کو بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے۔ (سورۃ الشوریٰ: ۵۱)

اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مختلف اقوام کی طرف رسول بھیجے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
ترجمہ: اورہم نے ہر امت میں رسول بھیجے۔ (سورۃ النحل: ۳۶)
اللہ کی دنیا بہت پھیلی ہوئی ہے، اس لیے اللہ کے تمام رسولوں کی صحیح تعداد نہ جانے کتنی ہوگی۔ کچھ لوگوں نے یہ تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار بیان کی ہے۔ ممکن ہے اس سے بھی زیادہ یا کم ہو۔ ان میں سے صرف چند انبیاء کرام علہیم السلام کے نام قرآن مجید میں ذکر کیے گئے ہیں جن کے ناموں کے ساتھ عرب مانوس تھے۔

بہت سے انبیاء کرام علہیم السلام کے نام قرآن مجید میں نہیں ہیں۔ جس طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے:
ترجمہ: (ان رسولوں) میں بعض کا حال ہم نے آپ سے بیان کیا ہے اور بعض کا حال ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا۔ (سورۃ المومن: ۷۸)
اس لیے ہر قوم کو اسلام سے پہلے کی برگزیدہ ہستیوں کا احترام کرنا چاہئے۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی نبی ہو اور بعد میں اس کی تعلیمات لوگ بھول گئے ہوں۔

انبیاء کرام علیہم السلام کا یہ سلسلہ حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبین ﷺ پر ختم ہوگیا اور اب قیامت تک تمام انسانوں پر صرف آپﷺ کی پیروی فرض ہے لیکن دین کی رو سےتمام گزرے ہوئے انبیاء کرام علہیم السلام کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے، ان میں کوئی فرق کرنا جائز نہیں۔
ترجمہ: ہم نے اس کے رسولوں (پر ایمان لانے) میں کسی میں تفریق نہیں کرتے۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۸۵)
یہ سب اللہ کے نیک، پاک اور سچے رسول تھے۔ سب نےتوحید کی تعلیم دی ہے اور سب کی نبوت پر ہمارا ایمان ہے۔ البتہ ان کی تعلیمات میں لوگوں نے ردوبدل کیا ہے۔ اور ان کی صحیح تعلیم وہی ہے جو قرآن مجید نے بیان فرمائی ہے۔

سوال۵: رسول بھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انسانوں ہی میں سے رسول بھیجے کیونکہ انسان کی رہنمائی کے لیے انسان ہی رسول ہو سکتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ: ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں، آدمی ہی بھیجے ہیں۔ جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اگر تم لوگ خود نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے (اسی طرح) روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح وتوضیح بیان کردو، جو ان کے لیے اتاری گئی ہے۔

حضور ﷺ کو خود اپنی زندگی میں قرآنی اصولوں پر مبنی ایک عملی مظاہرہ کرنا تھا۔ صرف یہی نہیں کہ آکر پیغام سنا دیتے۔ بلکہ اس پیغام کے مطابق انسانی زندگی کی اصلاح بھی آپ ﷺ کی ذمہ داری تھی۔ پیغام الہیٰ فرشتوں کے ذریعے سے بھی بھیجا جاسکتا تھا مگر محض پیغام بھیجنے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس عظیم مقصد کی تکمیل و تفصیل کے لیے لازمی تھا کہ اس پیغام کو بنی نوع انسان ہی میں سے ایک فرد لے کر آئے جو کہ انسان کامل ہونے کے باوجود بہر حال انسان اور بشر ہو۔ اس کو مشکلات اور مجبوریوں کا اسی طرح سامنا کرنا پڑتا ہو جس طرح اس کی امت کے لیے معمولی فرد کو اور جو ساری مجبوریوں کا اسی طرح سامنا کرنا پڑتا ہو جس طرح اس کی امت کے ایک معمولی فرد کو اور جو ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائیٹی کو بطور مثال رکھ دے۔ جس کا اجتماعی نظام اسی پیغام الہیٰ کے منشا کی شرح ہو۔