• اردو کی ادبی اصناف (ثانوی و اعلیٰ جماعت کے لیے)
  • سبق نمبر06: شعری اصناف

رباعی کی تعریف

رباعی عربی لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں چار۔ رباعی اردو شاعری کی ایک اہم اور مقبول صنف ہے۔ یہ چار مصرعوں پر مشتمل مختصر نظم ہے جو فکر اور خیال کے اعتبار سے اپنے آپ میں مکمل ہوتی ہے۔ اس کے چاروں مصرعوں میں خیال مربوط ومسلسل ہوتا ہے اور آخری مصرعے میں خیال کی تکمیل ہوتی ہے۔

رباعی کا پہلا ، دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوتا ہے۔ عام طور پر تیسرے مصرعے میں قافیہ نہیں لاتے۔ تا ہم ایسی رباعیاں بھی ملتی ہیں جن کے چاروں مصرعوں میں قافیے کا التزام کیا گیا ہے۔ یہی معاملہ ردیف کا ہے۔ رباعی مردف بھی ہوسکتی ہے اور غیر مردف بھی۔ البتہ قافیوں کی پابندی ضروری ہے۔

رباعی بحر ہزج میں کہی جاتی ہے۔ اس بحر کے 24 اوزان رباعی کے لیے مخصوص ہیں۔ رباعی کے لیے کوئی موضوع مخصوص نہیں ہے۔ عام طور پر اس میں فلسفیانہ، اخلاقی اور نصیحت آموز مضامین بیان کیے جاتے ہیں۔ حمدیہ اور عشقیہ موضوعات پر بھی رباعیاں کہی گئی ہیں۔ رباعی کو ترانہ اور دو بیتی بھی کہا جاتا تھا۔ فارسی ادب میں رباعی کہنے کا رواج قدیم زمانے سے ہے۔ فارسی میں عمر خیام کی رباعیاں بے حد مقبول ہیں۔ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں خیام کی رباعیوں کے ترجمے ہوئے ہیں۔

رباعی کا آغاز و ارتقاء

اردو میں رباعی کا آغاز فارسی شاعری کے زیر اثر ہوا۔ ابتدا میں بعض دکنی شعرا جیسے قلی قطب شاہ اور ملا وجہی نے رباعیاں کہیں۔ اس کے بعد شمالی ہند میں رباعی لکھنے کا رواج شروع ہوا۔ ابتدائی دور کے شعرا میں میر تقی میر، مصحفی، میرحسن اور جعفر علی، حسرت لکھنوی نے بھی رباعیاں کہی ہیں۔ ان کے بعد میرانیس اور درد نے اردو میں رباعی گوئی کی روایت کو استحکام بخشا۔

مولانا الطاف حسین حالی نے بھی رباعیاں لکھی ہیں۔ بیسویں صدی میں رباعی گوئی کی روایت کو زیادہ اعتبار حاصل ہوا۔ امجد حیدر آبادی اور جگت موہن لال رواں صرف رباعی گوئی کے لیے مشہور ہیں۔ جوش ملیح آبادی، یگانہ چنگیزی اور فراق گورکھپوری نے رباعی کی طرف خاص توجہ دی اور کثرت سے رباعیاں کہیں۔نیچے جگت موہن لال رواں کی ایک رباعی دیکھیے:

کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا چیز تھا جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
اک موج فنا تھی زندگانی کیا تھی
(جگت موہن لال رواں