صبر و استقلال کے معنی و مفہوم

0
  • سبق نمبر 23

سوال۱: آپ ﷺ کے صبر و استقلال پر نوٹ لکھیں۔

جواب: اللہ تعالی نے مصیبت اور پریشانی کے وقت اپنے بندوں کو صبر ورضا کی تاکید کی ہے اور چونکہ انسان کی جان اور اس کا مال سب اللہ کا عطا کر دہ ہے۔ اس لیے انسان پر لازم ہے کہ آزمائش کے وقت رضائے الہی کی خاطر صبر و سکون سے کام لے۔ جب حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم کو طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو جھٹلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کا مذاق اڑایا۔ کسی نے (معاذ اللہ) جادو گر کہا اور کسی نے کا ہن ، مگر آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے صبر واستقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور تبلیغ دین سے منہ نہ موڑا۔

سوال۲: صبر و استقلال کے معنی و مفہوم بیان کریں۔

جواب: صبر کے لغوی معنی روکنے اور برداشت کرنے کے ہیں۔ یعنی اپنے نفس کو خوف اور گھبراہٹ سے روکنا اور مصائب و شدائد کو برداشت کرنا ۔ اِستقلال کے لغوی معنی استحکام اور مضبوطی کے ہیں۔ الغرض صبر و استقلال، دل کی مضبوطی، اخلاقی بلندی اور ثابت قدمی کا نام ہے۔ قرآن مجید میں صبر کی بڑی فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔ قرآن میں حضرت لقمان کی اپنےبیٹے کو نصیحت نقل کی گئی ہے:
ترجمہ : اور جو مصیبت تجھے پیش آئے اسے برداشت کر۔ یہ بڑے عزم کی بات ہے۔ ( سورة لقمان :۱۷)
ایک دوسری جگہ پر فرمان ہے۔
ترجمہ: بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورة البقرة : ۱۵۳)

سوال۳: آپ ﷺ کے صبر و استقلال کے حوالے سے ایک واقعہ تحریر کریں۔

جواب:ایک دن حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم خانہ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے۔ حرم شریف میں اس وقت کفار کی ایک جماعت موجود تھی۔عقبہ بن ابی معیط نے ابو جہل کے اکسانے پر اونٹ کی اوجھڑی سجدہ کی حالت میں آپ صلی علی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ و سلم کی پشت مبارک پر ڈال دی اور مشرکین زور زور سے قہقہے لگانے لگے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کواس واقعہ کی اطلاع دی۔ وہ فوراً دوڑی ہوئی آئیں اور غلاظت آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی پشت سے دور کی اور ان کافروں کو بدد عادی۔ اس پر حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹی صبر سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔ یہ نہیں جانتے کہ ان کی بہتری کس چیز میں ہے “۔

ابولہب حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلّم کا چچا تھا لیکن جب سے حضرت محمدرسول الله خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلّم نے تبلیغ دین شروع کی وہ اور اس کی بیوی ام جمیل دونوں آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے دشمن ہو گئے۔ ابو لہب نے یہ کہنا شروع کیا۔ ”لوگو! ( معاذ اللہ ) یہ دیوانہ ہے۔ اس کی باتوں پر کان نہ دھر و“۔ اس کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و اصحابہ و سلم کے راستے میں کانٹے بچھاتی تھی۔ کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وعلى آلہ واصحابہ وسلّم کے تلوے لہو لہان ہو گئے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے نہایت صبر واستقلال کے ساتھ اس تکلیف کو برداشت کیا۔ کبھی بد دعا کے لیے ہاتھ نہ اُٹھائے۔

ابولہب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے حقیقی چچا ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلّم سے دشمنی میں حد کر دی جسے اللہ تعالیٰ نے بے حد ناپسند فرمایا اور قرآن مجید میں ابو لہب اور اُس کی بیوی کی ہلاکت کے لیے ایک پوری سورہ نازل ہوئی جو قرابت داروں کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والوں کے لیے ایک سبق بھی ہے۔

دشمنان حق نے جب یہ دیکھا کہ ان کی تمام تدبیروں کے باوجود حق کا نور چاروں طرف پھیلتا جارہا ہے۔ تو انھوں نے نبوت کے ساتویں برس محرم الحرام میں خاندان بنو ہاشم سے قطع تعلق کر لیا۔ جس کی رو سے تمام قبائل عرب کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ بنو ہاشم سے ہر طرح کا لین دین اور میل جول بند کر دیں اور ابو لہب کے سوا پورا خاندان بنو ہاشم تین سال تک حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ وسلم کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور رہا۔ اس دوران انھوں نے اتنی تکلیفیں اٹھائیں جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر اس موقع پر “رحمتہ اللعالمین” نے نہایت صبر وضبط اور بڑی پامردی و استقامت سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے جان نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی رضائے الہی کی خاطر مصروف جہاد رہے اور اس راہ میں پیش آنے والی م تکلیفوں کو بے مثال صبر و استقامت اور پامردی سے برداشت کرتے رہے۔