Advertisement
Advertisement
اصول سے چلتی ہے زندگی اپنی
صاحب جو وفا دار نہیں وہ اپنا یار نہیں
قسمت کہاں پڑی ہے کوئی پتہ نہیں
میں غمِ زندگی کی چابی اٹھائے پھرتا ہوں
خاموش سا شہر اور گفتگوں کی آرزو
ہم کس سے کریں بات کوئی بولتا ہی نہیں
خیال کیجیے کہیں مر نہ جائیں ہم
بہت زہریلی ہیں خاموشیاں آپ کی
جانتا تھا کہ مجھے موت سکون بخشے گی
وہ ستم گر تھا سو جینے کی دعا دی اُس نے
اصول محبت میں تو میں خود بے وفا ہوں
تو جو بچھڑا تو میں مر کیوں نہ گیا

Advertisement
Advertisement