صحابہ اکرام ، معنی مفہوم، فضائل

0

سبق نمبر 21:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ مناقب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مضمون تحریر کریں۔

جواب: صحابہ عربی زبان کے لفظ ”صحب“ سے ماخوذ ہے، جس کے لفظی معنی رفاقت کے ہیں اصطلاح میں صحابی اس شخصیت کو کہا جاتا ہے، جس نے ایمان کی حالت میں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے ملاقات کی ہو اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس کی وفات ہوئی ہو۔

ایسی بابرکت ہستیاں جن کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہو وہ روئے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد دنیا کے باقی تمام لوگوں میں اعلیٰ شان اور بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔

فضائل صحابہ:

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اس شخص کے لیے بڑی خوشخبری ہے جس نے مجھے دیکھا، اور اس کے لیے بھی جس نے ایسے آدمی کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہو۔

اس حدیث میں صحابی اور تابعی کو آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے خوشخبری سنائی ہے، اسی طرح حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:

ترجمہ: تم میں سے بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔(صحیح بخاری)
حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں جن کے ذریعے ہم تک قرآن و سنت اور پورا دین پہنچا ہے۔ ان کی قربانیوں کے ذریعے دین اسلام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔ اس لیے ہر مسلمان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت رکھنا اور دل میں ان کی عزت و احترام رکھنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اپنی رضا مندی کا اعلان فرما دیا، ارشاد پاک ہے:
ترجمہ: انصار، مہاجرین اور ان کے پیروکار جو ایمان میں سبقت کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں۔ (سورۃ توبہ:۱۰۰)

اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔

مناقب صحابہ رضوان اللہ اجمعین:

جناب رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے بابرکت صحبت کی بدولت وہ عظیم شخصیات اپنے بلند مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ بعد والوں میں کوئی ان کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا اور کسی نبی سے ملے بغیر کوئی صحابی نہیں بن سکتا۔ وہ اس دور میں گزرے ہیں جس دو رکو آپ کریم اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے بہترین زمانہ فرمایا ہے۔(بخاری)
چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکباز جماع سے دلی جماعت اور عقیدت رکھنا عین ایمان ہے جبکہ ان کی شان میں ادنی سے ادنی بے ادبی اور گستاخی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور کریم اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ارشاد گرامی ہے: میرے صحابہ کو برا مت کہنا کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے گا تو بھی وہ ان کے ایک ”مد“ کے برابر نہیں پہنچے گا، نہ ہی آدھے مدکے برابر(بخاری)

ایک مد(صاع کے چوتھے حصے کو کہا جاتا ہے جو ۷۹۶۰ گرام ہوتا ہے۔)

۲۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کریں۔

جواب: ایسی بابرکت ہستیاں جن کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہو وہ روئے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد دنیا کے باقی تمام لوگوں میں اعلیٰ شان اور بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔
فضائل صحابہ: حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اس شخص کے لیے بڑی خوشخبری ہے جس نے مجھے دیکھا، اور اس کے لیے بھی جس نے ایسے آدمی کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہو۔

اس حدیث میں صحابی اور تابعی کو آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے خوشخبری سنائی ہے، اسی طرح حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:
ترجمہ: تم میں سے بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔(صحیح بخاری)
حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں جن کے ذریعے ہم تک قرآن و سنت اور پورا دین پہنچا ہے۔ ان کی قربانیوں کے ذریعے دین اسلام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔ اس لیے ہر مسلمان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت رکھنا اور دل میں ان کی عزت و احترام رکھنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اپنی رضا مندی کا اعلان فرما دیا، ارشاد پاک ہے:

ترجمہ: انصار، مہاجرین اور ان کے پیروکار جو ایمان میں سبقت کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں۔ (سورۃ توبہ:۱۰۰)
اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ صحابہ کے لفظی و اصطلاح معنی تحریر کریں۔

جواب: صحابہ عربی زبان کے لفظ ”صحب“ سے ماخوذ ہے، جس کے لفظی معنی رفاقت کے ہیں اصطلاح میں صحابی اس شخصیت کو کہا جاتا ہے، جس نے ایمان کی حالت میں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے ملاقات کی ہو اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس کی وفات ہوئی ہو۔

۲۔ عشرہ مبشرہ کے لفظی معنی بتائیں۔

جواب: عشرہ مبشرہ:

عربی زبان میں ”عشرۃ“ کے معنی دس ہے جبکہ ”مبشرہ“ لفظ بشارۃ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں بشارۃ دیا ہوا۔ عشرہ مبشرہ سے مراد وہ دس جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین ہیں جن کو حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت فرمائی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ فرمایا:
ترجمہ: ابوبکر جنت میں ہوگا، عمر جنت میں ہوگا، عثمان جنت میں ہوگا، علی جنت میں ہوگا، طلحہ جنت میں ہوگا، زبیر جنت میں ہوگا، عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں ہوگا، سعد جنت میں ہوگا،سعید جنت میں ہوگا، ابوعبیدہ بن الجراح جنت میں ہوگا۔(سنن ترمذی)

۳۔ عشرہ مشرہ کے نام تحریر کریں۔

جواب: عشرہ مبشرہ کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،۲۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، ۳۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ۴۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، ۵۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ،۶۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، ۷۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ، ۸۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، ۹۔ حضرت سعید بن زیدرضی اللہ عنہ، ۱۰۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ۔