ساحر لدھیانوی | Sahir Ludhianvi Biography In Urdu

0
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

ساحر لدھیانوی کی ولادت 8 مارچ 1921 میں لدھیانہ کے کریم پورا علاقہ میں ہوئی۔ ان کا اصل نام عبدالحی تھا۔ ان کے دادا کا نام فاتح محمد اور والد کا نام فضل محمد تھا۔

ساحر نے اردو اور فارسی میں ابتدائی تعلیم مولانا فیاض ہریانوی سے سیکھی۔ انھوں نے خالسہ ہائی اسکول لدھیانہ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ ایک ذہین اور محنتی طالبِ علم تھے۔  1937 میں میٹرک کے امتحان کے بعد انھوں نے لدھیانہ کی ایس سی دھون گورمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ لیکن ان کی بے راہ روی کی وجہ سے انھیں برخاست کردیا گیا۔ بعد ازاں 1943 میں ساحر لاہور پہنچے جہاں انھوں نے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں انھیں پہلی مرتبہ کامیابی ملی اور انھیں اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا صدر منتخب کیا گیا۔ ساحر طالبِ علمی کے زمانے سے اپنی نظموں اور غزلوں کے لیے مشہور تھے۔ اور یہی انھوں نے اپنی پہلی نظموں کی کتاب تلخیاں 1945 میں جاری کی۔ جس کی اشاعت نے انھیں مقبول بنا دیا۔ ساحر 1948 میں شاہکار،  آدابِ لطیف اور سویرا وغیرہ اردو میگزینوں کے منتظم بنے۔

ہندوستان کے بٹوارے کے بعد 1949 میں ساحر لاہور سے دہلی اور پھر بمبئی پہنچے۔ انھیں تلخیاں کی وجہ سے مقبولیت حاصل تھی لیکن کافی جدوجہد کے بعد بھی انھیں فلموں میں کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ آخرکار 1949 میں آزادی کی راہ پر نامی فلم کے ذریعے انھوں نے نغمہ نگاری کا آغاز کیا۔ اس فلم میں انھوں نے چار نغمے لکھے۔ لیکن اس فلم کو خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ البتہ 1951 وہ سال تھا جس نے ساحر کو کامیابی کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انھوں نے فلم نوجوان میں ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں نغمہ کے بول لکھے۔

ساحر نے بالی وڈ کی فلموں میں متعدد مشہور نغمے لکھے ہیں۔ جن میں تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، میں پل دو پل کا شاعر ہوں، اے میری ظہراجبین، کبھی کبھی میرے دل میں اور ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر وغیرہ شامل ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے تک کامیاب نغمہ نگار کے طور پر نغمے لکھتے رہے۔ انھوں نے مشہور موسیقی سازوں مثلاً ایس ڈی برمن، مدن موہن، روشن، اور کنہیا روی کے ساتھ 1950 سے 1960 کے دوران کام کیا۔ وہ گرودت کی ٹیم کا حصہ تھے اور ایس ڈی برمن کے ساتھ مل کر بہت سے مشہور نغمے تکمیل دیے۔  ساحر نے فلمی نغموں کو فضول الفاظ کے جنگل سے باہر نکال کر بامقصد شاعری سے آشنا کرایا۔

روشن کے ساتھ مل کر ساحر نے بہت سی فلموں کے لیے شاندار نغمے لکھے، جس میں تاج محل بھی شامل ہے۔ اس فلم کے نغموں کے لیے انھیں بہترین نغمہ نگار کا فلم فئیر ایوارڈ ملا۔ 1970 کے دوران انھوں نے یش چوپڑا کی فلموں کے لیے نغمے لکھے۔ کبھی کبھی فلم کی نغمہ نگاری کے لیے انھیں ان کا دوسرا فلم فئیر ایوارڈ ملا۔ بعد ازاں 1971 میں انھیں حکومتِ ہند کی جانب سے پدماشری کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔

ساحر کے نغمے دوسروں سے مختلف تھے کیونکہ وہ خدا، محبت، حسن، اور جام کے بارے میں لکھنے کی بجائے سماج کے بگڑتے حالات، مادّہ پرستی کا محبت پر غلبہ، سیاست اور جنگ کی بے حسی پر توجہ دیتے تھے۔ 25 اکتوبر 1980 میں دل کا دورہ پڑنے سے ساحر لدھیانوی کی وفات ہو گئی۔ انھیں بمبئی کے جوھو قبرستان میں دفن کیا گیا۔