نرگس آپا

0


              شبنمی قطرے مسلسل بوندوں کی شکل اختیار کرتے اور پھسل جاتے کار کی کھڑکی سے اب باہر دیکھ پانا مشکل تھا ۔ میں سمٹ کر  امی کے شانوں سے جا لگی مدھم نیند میں، میں نے خود کو وہاں پایا جہاں بے شمار نرگس کے پھول تھے ۔ سبز میدان میں جہاں تک نظر جاتی وہاں صرف سفید نرگسی گلوں کا بسیرا تھا ۔ہارن کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی ، نرگس آپا کا نام خود بہ خود لب پر آگیا اور میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ۔ ایک بار پھر میں نے آنکھیں بند کرلیں۔

جب ہم اپنی منزلِ مقصود پر پہنچے ، اس وقت تک بارش تھم چکی تھی۔ کار کا دروازہ کھلا سامنے استقبال کے لئے پورا خاندان کھڑا تھا یا یوں بھی کہ سکتے ہیں پورا گاؤں ۔ سبھوں نے تمام چھوٹے بڑے بیگ اور سامان وغیرہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور گھر کے اندر جانے لگے ہمیں دیکھ ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی گھر کے اندر آنگن میں بڑی سی چٹائی بچھائی گئی جو پھوس سے بنائی گئی تھی ۔ ابا جان تو تمام مرد حضرات کے ساتھ باہر والے کمرے میں تشریف لے گئے ہمیں چٹائی پر بیٹھایا گیا ۔ امی کے آس پاس چند بوڑھی اور ادھیڑ عمر کی عورتیں بیٹھ گئیں اور ان میں سے ایک خوش نما ہاتھ پنکھے کو جھلنے لگی ۔ ہندوستان کے تمام گاؤں کے حالات یکساں ہی ہیں لہذا یہاں بھی بجلی مستقل نہیں بلکہ مہمانوں کی طرح آتی ہے ۔ شادی میں شامل ہونے والے مہمانان کے علاوہ گاؤں کی بہت سی عورتوں اور لڑکیوں نے ہمیں گھیر رکھا تھا جو نہ جانے ایک دوسرے کے کانوں میں کیا کیا کہتیں اور مسکراتی جاتیں ۔ مجھے سبھوں کا یوں دیکھنا پسند نہیں آیا میں وہاں سے اٹھ کر جانے لگی ، مگر بھابھی نے جھٹ ہاتھ کھینچ کر بیٹھا دیا وہ اپنے ساتھ ایک بڑا برتن لے آئیں  اور اس میں امی کے پیر ڈال دیے ایک دوسری لڑکی پانی ڈالتی جاتی ۔ جب انہوں نے اپنا ہاتھ میرے پیروں کی طرف بڑھایا تو میں نے منع کر دیا انہوں نے ضد کی لیکن میں نے پیر نہیں دھلواے ایک بار پھر وہاں موجود عورتوں نے نہ جانے کیا سرگوشی کی اور پھر سب ہنسنے لگیئں میں فوراً کھڑی ہوئی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔

میں یہ سوچتی رہی کہ آخر یہ کیسی رسم ہے ؟ امی سے دریافت کرنے پر انہوں نے  بتایا کہ مہمانوں کے اسی طرح پیر دھلواے جاتے ہیں یہ دراصل ان کی عزت افزائی کا ایک طریقہ ہے ۔ دوبارہ اس تعلق سے کچھ نہیں سوچا کیونکہ اتنی بھیڑ میں مجھے تو صرف ایک ہی انسان سے ملنے کی خواہش تھی یعنی اپنی نرگس آپا سے جو سر سبز کھیتوں اور تالابوں کے درمیان ڈھلتے آفتاب کے نظارے سے بھی زیادہ پرکشش لگتی تھیں ۔ ان کی سادگی میں ایک عجیب صوفیت تھی۔ اجلی رنگت،  سنہرے بال، سرمئ آنکھیں، معصوم لہجہ اور گفتگو کا انداز ان جیسا شاید ہی کسی دوسرے کا ہو ۔ میں نے انہیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا ۔ کوئی ان سے تلخ لہجے میں بات بھی کرتا تو وہ اس کا جواب بڑی نرمی اور مسکراہٹ سے دیتیں ۔ پہلی ملاقات سے ہی میں ان کی مرید ہوچکی تھی ۔ امی سے زیادہ میں ان کے پاس ہوتی ان کے ساتھ سونا، اٹھنا، گھومنا پھرنا اور ان کے چھوٹے کام کرکے مجھے جو قلبی سکون ملتا اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

اسلامی کتابوں کا مطالعہ وہ خوب کیا کرتیں ، خود عمل کرتیں اور دوسروں کو بھی تلقین کرتیں  ۔ ان کی باتوں کا اثر مجھ پر بھی خوب ہوا لیکن امی نے کتابوں کو واپس کروا دیا ۔ وہ پردے کا خاص خیال رکھتیں ان کی بہت سی باتیں مجھے متاثر کرتیں وہ بالکل مختلف تھیں شاید ہی ان میں کسی طرح کی بھی کمی ہو ۔ ان کے تعلق سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ کل اپنے شوہر کے ساتھ تشریف لائیں گی۔

ابا جان مصروفیت کی وجہ سے ہمیں آپا کے گھر نہیں لے کر گئے ۔ عرصے بعد جب ان کی شادی کی خبر آئی تو میں خوشی سے جھوم اٹھی ، مگر یہ خوشی وقتی ثابت ہوئی کیونکہ جن دنوں ان کی شادی ہونے والی تھی انہی دنوں ہمارے دسویں کے امتحانات بھی تھے ۔ یعنی میں چاہ کر بھی ان کی شادی میں شریک نہیں ہوسکتی تھی ۔ مگر آج ہم ملنے والے ہیں ، اب ایسی کوئی وجہ یا مجبوری بھی ہمارے درمیان نہیں ہے۔ میں یہی سب سوچتے ہوئے کب نیند کی آغوش میں چلی گئی مجھے یاد نہیں۔  تھکان کی وجہ سے دیر تک سوتی رہی حالانکہ اس درمیان گھر میں موجود عورتوں کے گیت سے نیند میں خلل ضرور آئی ، مگر نیند نے مجھے اپنی آغوش میں اس طرح جکڑ لیا تھا کہ اس خلل کا بھی اثر نہیں ہوا ۔ میری نیند اس وقت کھلی جب نرگس آپا کی آمد سے گھر میں ایک الگ طرح کی ہلچل پیدا ہوئی ۔ میں بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آئی تو دیکھا سامنے ایک برقعہ پوش عورت کھڑی ہیں اور سلام و دعا کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ نرگس آپا تھیں ۔ ان کی نگاہ جیسے ہی مجھ پر پڑی ، انہوں نے آگے بڑھ کر مجھےگلے سے لگا لیا۔

” کتنی بڑی ہوگئی ہے ثانیہ ”  انہوں نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا اور امی سے بات کرتی ہوئی کمرے میں آگئیں۔

میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ہی کمرے میں چلی آئی ۔ جیسے ہی انہوں نے برقعہ اتارا ، میں انہیں دیکھ کر دنگ رہ گئ ۔ مجھے لگا یہ نرگس آپا نہیں کوئی اور خاتون ہے ، سرمئ آنکھوں کے نیچے گہرے سیاہ دھبے،  ان سے کچھ اوپر ماتھے پر ایک لمبی بندی،  سرخ ہونٹ ، بڑے جھومر نما جھمکے جو گردن کو چھوتے ہوئے شانے تک آتے  اور سرخ ساڑھی جس میں ملبوس یوں تو وہ بہت خوبصورت اور جاذب نظر آرہی تھیں  مگر ان کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں مجھے ایک اداسی نظر آئی،  ایسا محسوس ہوا کہ یہ بناو سنگھار انہوں نے اپنی کسی تکلیف کو چھپانے کے لیے کیا ہے ۔ میں نے چونکہ انہیں سادگی میں دیکھا تھا اور ان کا وہ روپ مجھے متاثر بھی کرتا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا نیا روپ مجھے حیران کرگیا ، پھر ان کی آنکھوں کی اداسی نے مجھے اندر سے بے چین کردیا ۔ میں کمرے سے باہر نکل آئی ۔ بار بار آپا کا خیال ذہن میں آتا رہا اور میں سوچتی رہی کہ آپا کیسے بدل گئیں اور ان کی آنکھوں میں موجود اداسی کی وجہ کیا ہے ؟  میرا دل بے چین ہوگیا ، میں اس سوچ سے نکلنا چاہتی تھی ، یہ سوچ کر میں امی کے پاس چلی گئی جو گھر اور محلے کی عورتوں کے ساتھ آنگن میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔

کل بارات تھی سبھی لڑکیاں اور عورتیں مہندی لگوانے اور لگانے میں مصروف تھیں ۔ آپا خاموش بیٹھی ان سب کو دیکھ رہی تھیں ان کی آنکھوں میں وہی عجیب سی اداسی تھی  وہ بھیڑ میں بھی تنہا معلوم ہو رہی تھیں ۔ نہ جانے کیوں میں ان کے پاس چلی گئی ۔ ایک دو رسمی بات کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ ، میں انہیں مہندی لگادوں ؟ پہلے تو انہوں نے منع کیا مگر میرے دوبارہ کہنے پر مسکراتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو میری جانب بڑھا دیا ۔ مہندی لگواتے ہوئے وہ مجھ سے میری پڑھائی اور مشغولیات کے بارے میں بات کرتی رہیں ۔ انہوں نے مسکرانے کی کوشش بھی کی مگر ان کی اداسی اس وقت بھی صاف طور پر نظر آرہی تھی ۔ میں موقع کی تلاش میں تھی کہ باتوں باتوں میں ان کی اداسی کی وجہ پوچھوں ، وہ آنکھیں  جو نرگس کے تازہ پھولوں کی طرح تروتازہ ہوا کرتی تھیں اب وہاں سیاہ سائے کیوں ہیں ؟ جو انکھیں اپنی چمک سے لوگوں کا من موہ لیا کرتی تھیں آج ان میں اداسی نے کیوں اپنا ڈیرہ جما لیا ہے۔

اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کوئی میرے پیچھے کھڑا ہے ، اس سے پہلے کہ میں پیچھے مڑتی اس کی قہرناک آواز نے نہ صرف مجھے بلکہ وہاں موجود دوسری لڑکیوں کو بھی چونکا دیا۔
” یہ ضروری تھا -“
     آپا کانپ اٹھیں،  لرزتی ہوئی آواز میں کہا ” نہیں  …. نہیں بس یوں ہی “

” یہاں آو ” بول کر وہ شخص وہاں سے چلا گیا۔
          آپا مہندی دھو کر چلی گئیں ۔ یہ آدمی کوئی اور نہیں آپا کے شوہر تھے ۔ میں نے انہیں پہلی بار دیکھا تھا ۔ میں کچھ سوچتی اس سے قبل موجود کسی عورت کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔
 ” نرگس کی تو زندگی برباد ہوگئ ۔ بے چاری سب بیٹیوں میں سب سے حسین پر قسمت دیکھو۔
ہاں! قسمت ہی تو ہے ۔ سنا ہے مارتا بھی ہے ۔
مارتا ہے اور نشہ بھی کرتا ہے تمہیں شاید معلوم نہ ہو ، بلکل نکما اور بیکار انسان ہے لیکن کیا کریں لڑکی والے ہیں مجبور ہیں ۔”
         قریب بیٹھی دو عورتوں کی یہ گفتگو نشتر کی طرح دل کو جالگی ۔ میں ان کے انتظار میں کافی دیر وہاں بیٹھی رہی لیکن وہ نہیں آئیں  ۔ رات کے کھانے کے وقت بھی آپا نظر نہیں  آئیں ۔
        صبح سب تیاریوں میں مصروف تھے ۔ بارات چند وقفے میں روانہ ہونے والی تھی ایک گوشے میں مجھے ایک خاتون نظر آئی جنہوں نے وہی ساڑھی پہن رکھی تھی جو اس دن آپا پہن کر آئی تھیں ۔ یہ آپا ہی تھیں جو مسکراتی ہوئی کاموں میں ہاتھ بٹا رہی تھیں۔

          بارات کی روانگی پر کچھ دور تک تمام عورتیں بھی گیت گاتے ہوئے ہمراہ ہوگئیں لیکن میں چند منٹوں میں لوٹ آئی گھر میں داخل ہوتے ہی  دوسرے کمرے سے کچھ آواز آئی،  دیکھا تو بھابھی بستر کے ایک کنارے پر بیٹھی اشکوں کو مسلسل پوچھتیں اور نرگس آپا ان کی گود میں سر رکھے دل خراش آواز میں روئے جارہی تھیں۔

” آپا ….نرگس آپا ” میں نے انہیں آواز دی اور ان کی طرف بڑھی تو انہوں نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا ۔ ان کے چہرے پر طمانچے کے نشان تازہ تھے وہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگیں ، میرا ضبط بھی جواب دے گیا اور میں بھی ان سے لپٹ کر رونے لگی ۔ میں آپا سے رونے کی وجہ کیا پوچھتی ، ان کے آنسوؤں نے میرے ہر سوال کا جواب دے دیا تھا ،  ان کی نرگسی آنکھیں داستانِ غم کے ہر باب کو بیان کر رہی تھیں ۔ آپا روتے روتے سو گئیں ۔ میں کچھ سمجھ نہیں پائی کہ کیا ہوا، ۔ لیکن بھابھی کا یوں رونا اور آپا کی خاموشی نے بہت کچھ بتا دیا ۔