ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں تشریح

0

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام فراق گورکھپوری ہے۔ یہ غزل شبنمستان سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر :

فراق گورکھپوری، گورکھ پور کے ایک معزز ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اصل نام رکھو پتی سہائے تھا۔ کائستھ ہندو گھرانوں کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی میں ہوئی۔ بی اے الہ آباد یو نیورسٹی سے کیا۔ زمانہ طالب علمی ہی سے شعر کہنا شروع کر دیے تھے۔۱۹۳۰ء میں انھوں نے بطور پرائیویٹ امیدوار الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی ادبیات کا امتحان ریکارڈ نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ جس کے بعد اسی یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد مقرر ہو گئے۔ ابتدا میں افسانہ نگاری بھی کی مگر بنیادی طور پر وہ شاعر تھے۔ انھوں نے اردو غزل کو تازگی اور توانائی عطا کی۔ فراق گورکھپوری نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ اپنے تنقیدی مضامین سے بھی شہرت حاصل کی۔ ان کی تصانیف میں شعلۂ ساز، روح کائنات، اندازے، حاشیے، شبنمستان، اردو کی عشقیہ شاعری اور اردو غزل گوئی شامل ہیں۔

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

تشریح :فراق گورکھ پوری نے یہ غزل متضاد کیفیات میں لکھی ہے۔ وہ خود ہی ایک بات کرتے ہیں اور بعد میں خود ہی اس بات کی نفی کر دیتے ہیں۔ فراق کہتے ہیں کہ اب میرے سر میں عشق کا جنون نہیں رہا۔ میں نے اپنے محبوب کی یاد کو اپنے ذہن سے نکال دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی اپنے محبوب کی یاد سے خالی کر لیا ہے۔ اب میرے دل میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مجھے اب اپنے محبوب سے ملنے کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ میں نے اپنے آپ کو اس کی یاد سے آزاد کر لیا ہے، لیکن میری اس بات پر اعتماد اور بھروسا نہیں کیا جا سکتا کہ میں واقعی ایسا ہو گیا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ کل میں پھر اس کی یاد میں بے چین ہو جاؤں۔ اصل میں فراق کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کی رنگینوں میں کھو کر اپنے رب کو بھول جاتا ہے۔ جب اس کی امنگوں پر بہار ہوتی ہے۔ جب وہ جوان ہوتا ہے تو جوش جوانی میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات وہ خدا کو بھی بھول جاتا ہے مگر ایک نہ ایک دن اسے اس بات کی سمجھ آ جاتی ہے کہ اللہ تعالی ہی سب کچھ ہے تو وہ دوبارہ اللہ کی طرف رجوع کرلیتا ہے۔

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

تشریح : یہ شعر اپنے اندر حقیقی معنی سموۓ ہوۓ ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ بہت عرصے سے ہمیں اللہ تعالی کی یاد نہیں آئی یعنی ہم نے اس کے بتائے ہوۓ احکامات پر عمل نہیں کیا۔ اپنے ہی کاموں میں لگے رہے اور عبادت سے دور رہے۔ کاروبار جہاں ہی سنوارتے رہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالی سے دور ہوتے گئے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اللہ تعالی کو بالکل ہی بھول چکے ہیں۔ ہمیں جب بھی کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے ہم اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور ہم پھر دوبارہ اللہ کو خوش کرنے کی اور اس سے رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق
مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں

تشریح : شاعر کہتا ہے کہ جو لوگ کسی کے عشق میں مجنوں ہو جاتے ہیں وہ اپنے حال میں مست ہو جاتے ہیں۔ انھیں دنیا داری کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ دنیا داری کے کسی کام میں حصہ نہیں لیتے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی دنیا میں دوسرا بھی ہے لیکن ایسے لوگوں کا کچھ اعتماد بھی نہیں ہوتا کہ وہ کب ہنگامے پر آمادہ ہو جائیں اور ان کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ بن جاۓ۔ ایسا عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب انھیں اپنے عشق میں نا کامی ہو۔

آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں

تشریح : شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ آج میرے محبوب کی آنکھوں میں میرے لیے بے رخی پہلے سے بڑھ کر ہے۔ پہلے بھی میرا محبوب مجھ پر نظر التفات نہیں کرتا مگر آج تو اس کی بے رخی بہت بڑھی ہوئی ہے۔ آج تو میرا محبوب کچھ زیادہ ہی غصے میں دکھائی دیتا ہے اور اس پر یہ مصیبت کہ آج میرا دل بھی کچھ زیادہ ہی پریشان ہے۔ آج میرے دل سے بھی صبر نہیں ہو رہا ہے۔ دل کو کسی کروٹ سکون ہی نہیں آ رہا۔ میرا دل محبوب کی بے رخی پر صبر کرنے کا عادی ہو چکا تھا۔ مگر آج تو محبوب بھی بے رخی برتنے میں بہت آگے بڑھ چکا ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میرا دل اس بات پر صبر کرتا مگر دل کو تو آج صبر ہی نہیں آرہا۔

رنگ وہ فصلِ خزاں میں ہے کہ جس سے بڑھ کر
شانِ رنگینی حسن چمن آرا بھی نہیں

تشریح : شاعر کہتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی سے سمجھوتا کر لیا ہے۔ کہتا ہے کہ مجھے اپنی زندگی کا ہر روپ پیارا لگتا ہے کیوں کہ وہ مجھ سے منسلک ہے۔ میں مانتا ہوں کہ میری زندگی خزاں رسیدہ ہے۔ اس میں دکھ ہی دکھ بھرے ہوۓ ہیں۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو دل کو لبھا سکے مگر میں اس پر بھی خوش ہوں کیوں کہ یہ زندگی میری اپنی ہے۔ مالی باغ میں پھولوں کی حفاظت کرتا ہے۔ باغ کی تزئین و آرائش کا کام کرتا ہے۔ وہ چین کو حسن بخشتا ہے۔ باغ دیکھنے والوں کو خوب صورت لگتا ہے۔ دیکھنے والے باغ کی تعریف کرتے ہیں کہ باغباں نے باغ کی خوب سجاوٹ کی ہے مگر مالی اس باغ کو اپنا نہیں کہہ سکتا کیوں کہ باغ کا مالک کوئی اور ہوتا ہے جب کہ مجھے اپنی خزاں رسیدہ زندگی زیادہ اچھی لگتی ہے کیوں کہ یہ میری اپنی ہے۔

بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام
کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں

تشریح : شاعر کہتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں دل کا سکون میسر نہیں آتا ہے۔ انسان ساری زندگی سکون کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ محنت شاقہ سے کام لیتا ہے مگر اسے سکون کی دولت نہیں ملتی ہے۔ نہ تو الگ تھلگ رہنے سے انسان پرسکون ہوسکتا ہے اور نہ ہی میلے ٹھیلے میں۔ سکون صرف اور صرف اللہ تعالی کی یاد میں ہے۔ اپنے دل کو اللہ تعالی کی یاد سے آباد رکھا جاۓ تب ہی انسان سکون کی دولت سے مالا مال ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کو دنیا کے کسی گوشے میں سکون جیسی دولت میسر نہیں آ سکتی۔ شاعر کہتا ہے کہ دل ایک ایسا وحشی ہے جو تہذیب سے نا آشنا ہے۔ اس کی فطرت میں بے چینی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ یہ ہر وقت بے چین ہوتا ہے۔ چین حاصل کرنے کے لیے ایک ہی کام ہے کہ انسان اللہ تعالی کی یاد کو اپنے دل میں بسا لے۔

ہم اسے منھ سے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

تشریح : یہ بھی معرفت کا شعر ہے۔ اس مقطع میں فراق گورکھ پوری اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے منھ سے اپنے آپ کو برا نہیں کہتا حالانکہ مجھ میں سیکڑوں برائیاں ہیں۔ بے شک میں کوئی اچھا نہیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالی کے وجود پر یقین رکھتا ہوں اور اسے اپنا رب اور دوست مانتا ہوں۔ اگر چہ میرے اعمال اچھے نہیں ہیں لیکن چونکہ میں اللہ تعالی کو دوست رکھتا ہوں اس لیے اپنے آپ کو برا کہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ کوئی کیا کہے گا کہ ہوں تو میں اللہ تعالی کا دوست اور برا ہوں۔ اس لیے میں اپنے آپ کو اپنے ہی منھ سے برا نہیں کہہ سکتا۔

سوال ۱ : مندرجہ ذیل سوالوں کے مختصر جواب دیں:

(الف)فراق گورکھپوری کی شامل نصاب غزل ان کے کس مجموعے سے لی گئی ہے؟

جواب : فراق گورکھپوری کی شامل نصاب غزل ان کے مجموعے شبنمستان سے لی گئی ہے۔

(ب) شاعر نے سر اور دل میں کس چیز کی کمی کا ذکر کیا ہے؟

جواب : شاعر نے سر میں سودا اور دل میں تمنا کی کمی کا ذکر کیا ہے۔

(ج) شاعر کو کسی کی یاد کتنے عرصے سے نہیں آتی؟

جواب : شاعر کو کسی کی یاد ایک مدت سے نہیں آتی ہے۔

(د) شعری اصطلاحات کے حوالے سے اس عزل کی دریف کیا ہے؟

جواب : اس غزل کی ردیف ” بھی نہیں“ ہے۔

سوال۲: آپ حسرت موہانی کی غزل کی مشق میں مطلع اور مقطع کے بارے میں پڑھ چکے ہیں، اس کی روشنی میں درج ذیل سوالات میں درست جواب پر نشان (✓) لگائیں:

(الف) درج ذیل شعر قواعد کے لحاظ سے کیا ہے؟

سر میں سودا بھی نہیں، دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

(۱) غزل کا پہلا شعر
(۲) غزل کا آخری شعر
(۳) مطلع (✓)
(۴) مقطع

(ب)ہم اسے منھ سے برا تو نہیں کہتے کہ فراق

دوست تیرا ہے، مگر آدمی اچھا بھی نہیں
یہ شعر قواعد کی رو سے کیا ہے؟

(۱) مطلع
(۲)مقطع (✓)
(۳) عام شعر
(۴)آخری شعر

(ج) اس غزل میں ردیف کیا ہے؟

(۱) تمنا، بھروسا
(۲)نہیں
(۳)بھی نہیں (✓)
(۴)غیر مردف ہے

(د) اس غزل میں شکیبا، اچھا ایسا قواعد کی رو سے کیا ہیں؟

(۱) قافیے (✓)
(۲)ردیف
(۳)فعل
(۴)استعارہ

سوال۴: فراق کی غزل کے متن کو ذہن میں رکھ کر درست جواب پر نشان (✓) لگائیں:

(الف) سر میں سودا بھی نہیں دل میں
(۱) درودل بھی نہیں
(۲)چاہت بھی نہیں
(۳) تمنا بھی نہیں (✓)
(۴)امنگ بھی نہیں

(ب) سکون دل وحشی کا مقام کہاں نہیں؟
(۱) گنج زنداں میں
(۲)وسعت صحرا میں (✓)
(۳) زمیں میں
(۴)کہیں نہیں

(ج) شاعر کو محبوب کی یاد کب سے نہیں آئی؟
(۱) ایک ماہ سے
(۲)ایک سال سے
(۳)ایک مدت سے (✓)
(۴)ایک عرصے سے

(د) مقطعے میں کسے برا نہ کہنے کا ذکر کیا گیا ہے؟
(۱) محبوب کے دوست کو
(۲) رقیب کو
(۳)اپنے دوست کو (✓)
(۴)جو برا لگے

سوال۵: مصرعے مکمل کریں:

  • ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے تری یاد بھی آتی نہ ہمیں (مدت)
  • یو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھاتے نہیں دیوانہ عشق (ہنگامے)
  • آج غفلت بھی ان آنکھوں میں سے پہلے سے۔۔۔۔۔۔ (سوا)
  • بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (مقام)
  • ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرا ہے، مگر آدمی اچھا بھی نہیں (دوست)