نہیں ہے مجھ سے تعلق کوئی تو ایسا کیوں

0
نہیں ہے مجھ سے تعلق کوئی تو ایسا کیوں
کہ تو نے مڑ کے فقط اک مجھی کو دیکھا کیوں

میں اس سفر میں کہیں بھی نہ رکنے والا تھا
یہ اک درخت مرے راستے میں آیا کیوں

گزشتہ شام و سحر یاد کیوں نہیں آتے
ہوائے وقت مجھے تو نے اتنا بدلا کیوں

میں اجنبی تو نہ تھا شہر آرزو کے لیے
تمام عمر رہا پھر یہاں اکیلا کیوں

مری ان آنکھوں کو کب روشنی سے نسبت تھی
ازل سے میرے تعاقب میں ہے اندھیرا کیوں

غرورِ تشنہ لبی بھی نہیں رہا باقی
سراب دیکھ کے آیا خیال دریا کیوں

طویل ہونے لگیں پھر اسی طرح راتیں
خطا یہی تھی کہ قصہ وفا کا چھیڑا کیوں