وحدانیت

0
  • نظم : وحدانیت
  • شاعر : مست توکلی
  • ترجمہ : طارق قریشی

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”وحدانیت“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام مست توکلی ہے۔ اس نظم کو اردو ادب میں طارق قریشی نے ترجمہ کیا ہے۔

تعارفِ شاعر :

مست توکلی کا اصل نام “طوق علی”تھا۔ان کے عنوانات منفرد ہیں وہ توکل ، استقلال اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔وہ بلوچی زبان کے شاعر تھے۔

اے خدا تو ہے واحد و یکتا
ہے یہ شاہی فقط تجھے زیبا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اے اللہ! تو کل کائنات کا خالق و مالک ہے، تو ہی واحد ہستی ہے۔ تیری یکتائی کی کتنی مثالیں ہیں ، یہ کائنات تیرے وجود کے ہونے کی شاہد و دلیل ہے۔ رب کائنات اکیلا ہے اور اسے ہر چیز پر قدرت ہے ، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ دین اسلام میں اول عقیدہ باری تعالیٰ کی ذات کو واحد یکتا ماننا ہے۔ اس سب کائنات کا بنانے والا ایک اللہ ہی اس کائنات کو چلا رہا ہے ، وہی سارے معاملات کا واحد نگہبان ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ساری کائنات کا نقشہ بنایا ہے تو اسے ہی اس قدرت کا حق ہے یہ بادشاہی اسی کی مختیاری ہے۔

تو اگر قہر پر اتر آئے
تیری سطوت کا ہی رہے چرچا

تشریح :

اس شعر میں شاعر مست توکلی خدا تعالیٰ کی صفت قہار کو بیان کرتے ہیں۔ قہار خدا تعالیٰ کی وہ صفت جس میں اس کی قدرت ظاہر ہوتی ہے کہ وہی سب پر غالب ہے۔ نہ صرف زمین پر بلکہ آسمان پر بھی اس کی ہی بادشاہی ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اے اللہ ہر چیز ہر نفس تیرے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کوئی اس کا منکر ہو جائے، اسے اس دنیا میں تو مہلت ہے مگر اس کی پکڑ روز قیامت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا وہ جس پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے پھر ان کو کوئی بچانے والا نہیں آتا۔ اس کی مثال ہمیں فرعون و نمرود کی خودسری سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ جھوٹےخدا بنے مگر خدا تعالیٰ نے انھیں نیست و نابود کر دیا پھر باقی وہی رہا جو قہار و رزاق ہے۔انسان بہت کمزور ہے اس کی نافرمانی کرتا ہے حالانکہ انسان کو تو موت آجانی ہے مگر وہ ہمیشہ باقی ہے اس کی طاقت لازوال ہے اور یہ شان و جلال ہمیشہ غالب رہے گی۔

اور اگر رحمتوں پہ مائل ہو
کوئی مشفق نہیں ترے جیسا

تشریح :

اس شعر میں شاعر مست توکلی اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم و کریم بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے۔ وہ کل جہاں کو اپنی رحمت سے کھلاتا پلاتا ہے۔ اس کی بادشاہی میں کوئی بھی اس کی رحمت سے محروم نہیں۔وہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔ انسان غلطی کرے اور پھر معافی مانگ لے تو اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ اسے معاف کرتا ہے اور اس پر اپنی خاص کرم نوازی کرتا ہے۔ اس کے رحمت کے در تادم مرگ کھلے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ باری تعالیٰ! تیرے جیسا کوئی مہربان نہیں۔ کوئی ہزار بار بھی گناہ کرکے آجائے اور موت سے پہلے توبہ کر لے تو اس کی سنتا ہے اسے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔

قہر و رحمت پہ قادر، اے ستار
میرا مقصد ہے بس ترا جلوا

تشریح :

شاعر مست توکلی اس شعر میں باری تعالیٰ کی صفت ستار مطلب کہ بندوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرنے والا بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے، وہ ہر دل کا راز جانتا ہے۔ انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے وہ ہے عمل سے خبردار ہے وہ اتنا رحیم ہے کہ اپنے بندوں کے گناہوں کسے خبردار ہو کر بھی اپنی رحمت کی چادر تلے ڈھکے ہوئے ہے۔ انھیں زمانے کے سامنے کھول کر کسی کی تذلیل نہیں کرتا بلکہ اسے موقع دیتا ہے۔ مگر اگر کوئی سرکش ہو جائے تو اس کے غضب سے نہیں بچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ بندوں کو چاہے تو بخش دے یا اپنی یاد سے غافل کرکے محرومیوں کے اندھیروں میں دھکیل دے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ شاعر کہتا ہے تیری یہ صفات تو اپنی جگہ مگر میں فقط تیری رضا و خوشنودی چاہتا ہوں۔ تو مجھ سے راضی ہو تو میں تیرے دیدار کی دولت سے سرفراز ہو جاؤں۔میری زندگی کا مقصد خداوند تعالیٰ! تیرا دیدار ہے۔میری یہ کوشش ہے کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے تو میں اپنی زندگی کی کامیابی کو ابدی کامرانی سمجھوں۔

جب قیامت کی آئے گی ساعت
دید سے اپنی بہرہ ور فرما

تشریح :

اس شعر میں شاعر مست توکلی نے خدا تعالیٰ سے عرض کیا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا جب سب اپنے حساب و کتاب کے لیے پریشان ہونگے، ہر نفس کو اپنی جان کی پڑی ہوگی، جنت جہنم کا فیصلہ ہوگا، ایک بڑا ترازو لگے گا، اس دن میری یہ خواہش ہے کہ میں باری تعالیٰ! تیرا دیدار کر سکوں۔ میری کامرانی کا یہی معیار ہے کہ میں تجھے دیکھوں۔ شاعر کہتا ہے کہ قیامت کے دن میرے ساتھ اپنی رحمت والا معاملہ فرما ، میری خطاؤں سے درگزر کرکے مجھ پر اپنا کرم کر۔ اس دن کامیابی کا درمیدار حق تعالیٰ کے دیدار پر ہوگا۔ نیک بندوں کو انعام کے طور پر جنت ملے گی مگر اصل انعام تو رب تعالیٰ کا دیدارہے۔ کامیاب لوگ کتنا ہی وقت اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے مگر انہیں یوں محسوس ہوگا کہ ابھی چند ساعت ہی گزرے ہیں اور ان میں شوق دید بڑھتی جائے گی۔

مثل مجنوں کے ہوں جنوں ساماں
میرا پیکر گنہ میں ہے ڈوب

تشریح :

مست توکلی جوانی میں ایک خاتون “سموں” کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ہر وقت اس کی محبت میں کھوئے رہتے۔ اس کے خیالوں میں کھو کر کہیں بھی نکل جاتے ، پہاڑوں بیابانوں کی جانب یہاں تک کہ انھیں اپنا کچھ ہوش نہیں رہتا تھا۔ سموں کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کی ہر نظم اللہ کے نام سے شروع ہوتی اور سموں کے ذکر پر ختم ہوتی۔ وہ ایک فقیر شاعر تھے جو اللہ تعالیٰ کی ثناء خوانی کرتے تھے۔ وہ خود کو مجنوں سے مشابہ بتاتے ہیں جیسے مجنوں پہاڑوں، صحراؤں، بیابانوں میں لیلیٰ کی تلاش میں سرگرداں تھا وہ بھی اسی طرح دنیا سے بیگانے ہو گئے تھے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں اس راہ پر ان سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے وہ التماس کرتے ہیں کہ ان کی غلطیاں درگزر کر دی جائیں اور خدا انھیں اپنے دیدار سے سرفراز کر دے۔

باوجود یکہ پر ہوں عصیاں سے
تیری رحمت کا پھر بھی ہے سودا

تشریح :

شاعر مست توکلی اس شعر میں خدا تعالیٰ کی رحمت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ شاعر عرض کرتے ہیں کہ وہ گنہگار ہے اور ساری زندگی اس نے گناہوں میں گزار دی ہے۔ اس کے تب پر گناہوں کی داغ دار قباء ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے پھر بھی مایوس نہیں وہ اپنے آپ لیے خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے کا طلب گار ہے۔ انسان تو کمزور ہے وہ گناہ کرنا کب چھوڑتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی رحمانی ہے جو اسے معاف کرتا ہے اور درگزر کرتا ہے۔ شاعر کو یہ امید ہے کہ وہ جیسا بھی ہے خطا کار ہے گنہگار ہے مگر ہے تو اس کا بندہ وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے رحمت والا معاملہ اور معافی والا معاملہ کی استدعا کرتا ہے۔ شاعر کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا کیونکہ وہ بڑا مہربان اور رحیم ہے۔

سوال 1 : نظم “وحدانیت ” کے متن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، درج ذیل سوالات کے درست جواب پر (✓) کا نشان لگائیں۔

۱ : پہلے شعر میں اللہ تعالیٰ کی کس صفت کا ذکر ہے؟

٭ وحدت ویکتائی (✓)
٭ سطوت
٭ رحمت
٭ شفقت

۲ : چوتھے شعر میں شاعر نے اپنے کون سے دلی مقصد کا اظہار کیا ہے؟

٭اپنی مغفرت کاحصول
٭اللہ کی رحمت کا حصول
٭اللہ کے جلوے کا حصول(✓)
٭توبہ کی توفیق کا حصول

۳ : شاعر نے اپنے پیکر کے بارے میں کیا کہا ہے؟

٭گنہ میں ڈوبا ہوا ہے۔(✓)
٭بہت زیادہ ہے
٭جنوں ساماں اور لاغر
٭تمام قویٰ مضبوط ہیں۔

سوال 2 : اس نظم کے تمام قوافی الگ الگ کرکے لکھیں۔

جواب : اس نظم میں لفظ
”یکتا۔ زیبا۔ چرچا۔ جیسا۔ جلوا۔ فرما۔ ڈوبا۔ سودا۔“ بطورِ قوافی استعمال ہوئے ہیں۔

سوال 3 : اس نظم کے اس شعر کی تشریح کریں جس میں تلمیح استعمال کی گئی ہو۔

مثل مجنوں کے ہوں جنوں ساماں
میرا پیکر گنہ میں ہے ڈوب

تشریح :

مست توکلی جوانی میں ایک خاتون “سموں” کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ہر وقت اس کی محبت میں کھوئے رہتے۔ اس کے خیالوں میں کھو کر کہیں بھی نکل جاتے ، پہاڑوں بیابانوں کی جانب یہاں تک کہ انھیں اپنا کچھ ہوش نہیں رہتا تھا۔ سموں کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کی ہر نظم اللہ کے نام سے شروع ہوتی اور سموں کے ذکر پر ختم ہوتی۔ وہ ایک فقیر شاعر تھے جو اللہ تعالیٰ کی ثناء خوانی کرتے تھے۔ وہ خود کو مجنوں سے مشابہ بتاتے ہیں جیسے مجنوں پہاڑوں، صحراؤں، بیابانوں میں لیلیٰ کی تلاش میں سرگرداں تھا وہ بھی اسی طرح دنیا سے بیگانے ہو گئے تھے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں اس راہ پر ان سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے وہ التماس کرتے ہیں کہ ان کی غلطیاں درگزر کر دی جائیں اور خدا انھیں اپنے دیدار سے سرفراز کر دے۔

سوال 4 : اس نظم کا مرکزی خیال تحریر کریں جو تین سطروں سے زیادہ نہ ہو۔

جواب : اس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ ایک اور کامل ہے۔ وہی سارے جہانوں کا رب ہے۔ شفا و کامیابی اسی کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ ہم انسانوں کو چاہئے کہ اس کی ثناء خوانی کرنی چاہیے تاکہ ہم پر رحم و بخشش ہوتی رہے۔

سوال 5 : شاعر کو گنہگار ہونے کے باجود کس بات کا سودا ہے؟

جواب : شاعر کو گنہگار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سودا ہے۔

سوال 6 : نظم “وحدانیت” کا خلاصہ لکھیں۔

خلاصہ :

اس نظم میں شاعر کہتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ ایک اور کامل ہے۔ وہی سارے جہانوں کا رب ہے۔ شفا و کامیابی اسی کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ ہم انسانوں کو چاہئے کہ اس کی ثناء خوانی کرنی چاہیے تاکہ ہم پر رحم و بخشش ہوتی رہے۔ اس نظم میں شاعر کہتے ہیں کہ اے اللہ! تو کل کائنات کا خالق و مالک ہے، تو ہی واحد ہستی ہے۔ تیری یکتائی کی کتنی مثالیں ہیں ، یہ کائنات تیرے وجود کے ہونے کی شاہد و دلیل ہے۔ رب کائنات اکیلا ہے اور اسے ہر چیز پر قدرت ہے ، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔

شاعر کہتے ہیں کہ اے اللہ ہر چیز ہر نفس تیرے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کوئی اس کا منکر ہو جائے، اسے اس دنیا میں تو مہلت ہے مگر اس کی پکڑ روز قیامت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا وہ جس پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے پھر ان کو کوئی بچانے والا نہیں آتا۔ شاعر اللہ کی ایک اور صفت بیان کرتے ہیں کہ وہ رحیم ہے جو کل جہاں کو اپنی رحمت سے کھلاتا پلاتا ہے۔ اس کی بادشاہی میں کوئی بھی اس کی رحمت سے محروم نہیں۔وہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔ انسان غلطی کرے اور پھر معافی مانگ لے تو اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ اسے معاف کرتا ہے اور اس پر اپنی خاص کرم نوازی کرتا ہے۔ اس کے رحمت کے در تادم مرگ کھلے ہیں۔

شاعر اس نظم میں کہتے ہیں کہ وہ گنہگار ہیں اور ساری زندگی انھوں نے گناہوں میں گزار دی ہے۔ لیکن شاعر کو یہ امید ہے کہ وہ جیسا بھی ہے خطا کار ہے، گنہگار ہے مگر ہے تو اس کا بندہ وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے رحمت والا معاملہ اور معافی والا معاملہ کی استدعا کرتا ہے۔ شاعر کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا کیونکہ وہ بڑا مہربان اور رحیم ہے۔

سوال 7 : “وحدانیت ” کس شاعر کے کلام کا ترجمہ ہے۔

جواب : نظم “وحدانیت” مست توکلی کے بلوچی کلام کا اردو ترجمہ ہے۔ محمد طارق قریشی نے اس کا ترجمہ اردو میں کیا ہے۔