آشیانہ

0

بستر کے ایک کنارے سفید اور لمبے بالوں والا بھالو اوندھے منہ لیٹا تھا ۔جھن جھن آواز کرنے والا دستی کھلونے کے ساتھ ایک گانے والی گڑیا رانی اسی بھالو کے دوسری طرف اپنے ساتھ کھیلنے والے معصوم کا انتظار کر رہی تھی اسی طرح کتنے ہی قسم کے کھلونے اس کمرے میں موجود تھے ۔آفتاب کے اشارے پر چرند و پرند اپنے گھر کو کوچ کرنے لگے کھڑکی سے آنے والی مدھم روشنی کے حصار میں کمرے کا وہی کونا موجود نہیں تھا جہاں نفیسا ننھے ہاتھوں سے اپنے دہانے کو چھپائے دیوار سے لگی بیٹھی سسکیوں کے ساتھ آنسو بہا رہی تھی ۔

سہ روز پہلے ہی نفیسا نے اپنا چوتھا جنم دن منایا،  سفید فراک جس پر لال رنگ کے خوشنما اور چمکدار پھول نقش تھے اسے زیب تن کرنے کے بعد اس کا پھول سا چہرہ اور بھی کھل اٹھا،  ننھے مگر گول گول ہاتھوں پر مہندی اس کی خالہ آرزو نے لگائی تھی- سنہرے رنگ کی جوتی پہن کر وہ جب وہ باہر آئی، نانی بلائیں لینے لگی  ،چند خواص کے مبارک باد کے ساتھ کچھ تحفے اور چاکلیٹ بھی ملی ۔ نفیسا بہت خوش تھی،  آج کے دن بھی نفیسا کی ماں اس سے دور کھڑی ، سوچ میں گم پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ نفیسا کو دیکھتی رہی ممتا بھرے دل کے ایک کونے میں ایک کسک تھی جس نے انہیں نفیسا کے قریب جاکر اسے سینے سے لگانے سے روک رکھا تھا ۔ نفیسا  کبھی اپنی ماں کی طرف سے اس بےرخی کو سمجھ نہیں پائی اس کا معصوم دل تو صرف اپنے حصے کی محبت کے لئے تڑپتا جو اس کے حصے میں کبھی نہ آئی ۔ آرزو ، نفیسا کی اس کمی کو دور کرنے میں کچھ کامیاب ہوئی لیکن اپنی آپا عافیہ کے لیے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پائی – نفیسا کے متعلق کام کی تمام ذمہ داری انہوں نے اپنے سر لے رکھی تھی ۔نفیسا کے لئے آرزو ماں سے کم نہ تھی جب سے وہ لوگوں  کو پہنچانے لگی آرزو کو ہی اپنے قریب پایا ۔

“آج نفیسا چار برس کی ہوگئی ……….اپنے ممتا بھرے دل پر اور ستم نا کرو آپا …………لاڈ کر لو جی بھر ………..شاید یہ موقع قسمت تمہیں پھر کبھی نہ دے ………” آزرو نے آپا سے نفیسا کے سونے کے بعد کہا

عافیہ خاموش بت بنے سوگوار کھڑی تھی ۔ آرزو خود کو روک نہیں پائی آنسو پونچھتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلی گئی – آہستہ آہستہ وہ بت اپنی جگہ سے نفیسا کے قریب آکر کھڑی ہو گئی ۔ ماحول پر سناٹے کا کہرا مگر طوفان اس بت کے دل میں آٹھ  رہا تھا ،” ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کس خوش دلی اور ارمان کے ساتھ عافیہ کی ڈولی اٹھی تھی ، کتنے ہی خواب تھے جو ایک ایک کر ٹوٹ گئے خدا جانتا ہے کون غلط اور کون صحیح  سزا میری بچی نے پائی،  ہمارا گھر ٹوٹ گیا – میری بچی تمہارے آنے سے قبل ہی میری دنیا تمام ہوچکی تھی مجھے پھر بھی یقین تھا تمہارے آنے سے ہمارے درمیان کی یہ دوریاں مٹ جائے گی میرا  یہ بھرم بھی تمہارے چند ماہ کے بعد ٹوٹ گیا، میرے لیے ممکن نا ہو سکا اپنے وجود کو روز پامال کرنے دوں ۔ اب عدالتی فیصلہ یہی ہے تم چار سال کے بعد اپنے پاپا کو سونپ دی جاو گی ۔ تم  ناداں ہو کیا جانو دنیا بڑی ظالم ہے،  تم ترستی رہی اور میں تمہیں سینے سے لگا کر ممتا بھری محبت کا سکون نہ دے سکی -”

آرزو جب کمرے کے دروازے تک پہنچی اس نے عرصے بعد اپنی بہن کے آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے اس سے قبل تو وہ آنسو مسلسل بہتے ہوئے دل کے کسی حصے پر جم گئے تھے آج وہ آنکھوں کے سفینوں سے چھلکنے لگے -کچھ وقفے بعد عافیہ اسے گلے سے لگا کر سو گئی ۔

صبح جب نفیسا کی آنکھ کھلی ماں کو قریب دیکھ اسے یقین نہیں آیا اس نے کئی بار آنکھوں کو مل کر دیکھا تب جاکر یقین آیا کوئی اور نہیں اس کی مما ہی ہے ننھے ہاتھوں سے اپنی ماں کو گرفت میں لے لیا،عافیہ کی نیند جب ٹوٹی اس نے چھٹ سے آنکھیں بند کر لیں ۔

“آج ماں بیٹی کی نیند پوری ہوگی یا دن بھر سونے کا ارادہ ہے ” آرزو ہے کمرے میں داخل ہونے کے ساتھ کہا

“ہاں بس………ہاں آٹھ گی۔ ” عافیہ نے کہا

“واہ بیٹا میری گود میں سوتی ہوتو مجھ سے بھی پہلے جاگ جاتی ہو آج آنکھ نہیں کھل رہی …….ہاں نفیسا ” آرزو نے نفیسا کا ہاتھ تھامتے ہوے کہا

” آج بھی پہلے اٹھی ہوں خالہ” مسکراتے ہوئے نفیسا نے آنکھیں کھول دیں

” اچھا چلو اٹھو تمہیں آج گھومنے جانا ہے تیار ہو جاو تمہارے پاپا آتے ہی ہوں گے۔ ” آرزو نے کہا

“ہاں مما سچ میں کیا ؟” حیرت و خوشی میں نفیسا نے ماں سے پوچھا

عافیہ نے ہامی بھر دی ۔ نفیسا سوچتی رہی کہ آخری دفعہ پاپا سے وہ کب  ملی تھی اور آج ان کے ساتھ گھومنے جا رہی،  خوشی اتنی کے مزید نہ سوچا ۔ نفیسا کو تیار کرنے اور سجانے میں عافیہ نے بھی آرزو کا ساتھ دیا،  کچھ کھلونے اور کچھ کپڑے ایک بیگ میں رکھ دیا گیا ۔  نفیسا آخری بار اپنے والد سے فیملی کورٹ میں ملی تھی۔

تقریباً دس بجے دروازے پر ایک کار آ کھڑی ہوئی اور مسلسل ہارن کی آواز آنے لگی رشید صاحب باہر نکلے اور نرم لہجے میں کہا،

” بیٹا اندر آجاو کچھ ناشتہ کرلو پھر نفیسا کو لے کر چلے جانا ”

معاف کیجئے گا میں غیروں کے گھر جانا مناسب نہیں سمجھتا میری بیٹی کو بلا دے تاکہ میں جاسکوں ” فائق تیور بدل کر بولا

یہ سن کر رشید صاحب سمجھ گئے اور رہی سہی امید بھی جاتی رہی،  انہوں نے دوبارہ التجا کی مگر فائق نے ایک نہ سنی ۔

نفیسا آرزو کا ہاتھ تھامے سیڑھیوں پر اچھلتی آرہی تھی اور  پیچھےسے عافیہ بیگ تھامے ۔

“نفیسا بیٹا یہاں آئیں ہم آپ کو بہت خوبصورت جگہ لے جانے آئے ہیں ”  فائق نے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا

تیز تیز چلتے ہوئے نفیسا رکی اور اپنی ماں کی طرف مڑ کر واپس آگئی اور کہا ” مما ساتھ چلو نا آپ بھی ”

“آپ جائیں ہم کبھی اور چلیں گے “عافیہ نے کہا اور نفیسا کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگی قریب پہنچ کر اس نے بنا کچھ کہے فائق کے طرف بیگ بڑھایا ۔

“خیرات کی عادت اور ضرورت تمہیں ہے اسے تم ہی رکھو میں اپنی بچی کے لیے خود خرید سکتا ہوں -” فائق طنزیہ لہجے  میں بولا اور دوسرے ہی پل نفیسا کو لے کر چلا گیا ۔
عافیہ نے ارادہ کر رکھا جب بھی فائق اپنی بیٹی کو لینے آئے گا وہ دروازے تک تو دور کھڑکی پر بھی نہیں آئے گی ۔ وہ دیکھتی رہ گئی جگر کا ٹکڑا دور چلی گئی پیچھے مڑی تو غمزدہ اور بھی لوگ کھڑے تھے آرزو کے آنسوؤں کو پوچھتی ہوئی اس کے ساتھ  نفیسا کے کمرے میں آگئی جہاں دونوں نے نفیسا کی جگہ اور اس کی چیزوں کو دیکھ کر خاموش بیٹھیں  رہی ۔

نفیسا فائق کے ساتھ گھر آئی دادی، بڑے ابو اور امی،  چھوٹے ابو اور امی کے علاوہ کئی بچوں سے ملی ۔ سب نے پیار کیا باتیں کی بڑی امی نے اپنے ہاتھ سے کھلایا،  گھر کے پیچھے والے باغ میں کھیلتے ہوئے شام ہوگئ نفیسا کو خالہ، مما کے ساتھ سبھوں کی یاد ستانے لگی ۔ گھر آئی،  پاپا نے چاکلیٹ دیا وہ لیتے ہوئے پوچھ پڑی ۔

“پاپا گھر کب جائیں گے ”

“کیوں پاپا کے ساتھ رہنا پسند نہیں ” فائق نے پوچھا

“پسند کیوں نہیں ہوگا بھلا، اپنا گھر ہے ” دادی نے مسکراتے ہوئے کہا

نفیسا چپ ہو گئی اسے یقین تھا آج نہیں تو کل وہ اپنے گھر چلے ہی جائے گی ۔ نئی جگہ پر نیند بھی دیر سے آئی صبح جب آنکھ کھلی تو پاپا آفس جا چکے تھے بڑے ابو کے بچے بھی اسکولوں کے لئے تیار ہو رہیں تھے ۔ دادی کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد وہ ٹہلتے ہوئے باورچی خانے کے قریب جا پہنچی جہاں بڑی اور چھوٹی امی کام میں لگی ہوئی تھی ۔

“بولو بھلا یہ کیسی عورت  ہے مہارانی جب تک رہی مجھ سے الجھتی رہی اپنے میاں تک کوتو نہ چھوڑا،پیسے لے لیے بچہ چھوڑ دیا اور لاد دیا ہمارے سر پر کہ کرو غلامی ، آخر سہ جاتی تو کیا برا تھا -” بڑی امی نے چھوٹی امی سے کہا،

“کیسی پھتر دل ہے باجی نہ شوہر کی ہوئی نہ اپنے بچے کی، جانے کس مٹی کی بنی ہوئی ہے  ہم سے تو یہ کبھی نا ہوسکے گا توبہ توبہ- ” چھوٹی امی نے جواباً یہ جملہ کہا

نفیسا باتوں کو مکمل طور پر نہ سمجھ سکی مگر برا محسوس ہوا یہ ساری باتیں اس کی ماں کے متعلق تھی ۔وہ اپنے والد کے کمرے میں آگئی ۔

زینت دھیرے سے آئی اور میز پر رکھی قلم کے لیے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا نفیسا نے روک لیا ” بابو چھوڑ دو” ……..زینت نے دوبارہ کوشش کی تو شیشے کا مور بکھر کر ریزہ ریزہ ہوگیا ۔

“تم نے توڑا ،اب مار پڑے گی تمہیں ” زینتِ نے کہا

“نہیں،  یہ تم نے کیا ہے ” نفیسا بولی

اس نہیں نہیں کی لڑائی میں زینت دھکا کھا کر کانچ کے ٹکروں پر جا گری،  کچھ ٹکڑے ہاتھوں میں کچھ پیروں پر لگ گئے وہ زور زور سے رونے لگی ۔ سبھی دوڑتے ہوئے آئے ۔ چھوٹی امی زینت کو اٹھاتے ہوئے بولیں

“یہ لڑکی مار ڈالتی میری بیٹی کو ”

دادی اماں کے پہنچتے ہی بڑی امی کہنے لگی؛

“جو وہ یہاں رہ کر نہ کر سکی اب بیٹی سے کروا رہی، سکھا کر بھیجا ہے سارے نسخے دیکھ لیں آپ ہی امی کیا کیا اس نے ”

دادی کے غصے میں مارنے کے بعد وہ رونے لگی اور کانپتی ہوئی ایک کنارے کھڑی ہو گئی ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد سبھوں کو یاد آیا کوئی اور بھی ہے جسے بھوک لگی ہوگی ۔ بڑی امی کھانے کا پلیٹ کمرے میں لے گئی۔

“کھالے اور طاقتورہوجا پھر سب کو مارنا ” یہ بولتے ہوئے کھانا نفیسا کی طرف بڑھایا۔

نفیسا نے کھانے کو الٹ دیا اور چلانے لگی ” مجھے مما کے پاس جانا ہے، مجھے خالہ کے پاس جانا ہے میں یہاں نہیں رہوں گی……..-”

“جا مر…….” کہتے ہوئے بڑی امی باہر نکل آئی اور دادی سے کسی نیوز ریپورٹر کی طرح مرچ مصالحہ لگا کر بات بتانے لگی  دادی کا غصہ مزید پروان چڑھ گیا ۔

اپنے بھائیوں کے ساتھ فائق بھی شام ڈھلنے کے بعد گھر آگئے ۔ سب غصے میں بیٹھے ہوئے تھے آتے ہی پوری رواداد سنا دی۔

“بچی ہی تو ہے،  آپ تینوں خامخواہ بات کو کھینچ تان رہی ……..فائق جاو اور دیکھو نفیسا کو -” بڑے ابو نے فرمایا

فائق جب اوپر آئے تو دیکھا نفیسا دیوار سے لگی بیٹھی ہی سو گئی ہے اور بدن بخار سے تپ رہا ہے ۔ انہوں نے کھلونے کو سمیٹ ایک کنارے کر دیا اور نفیسا کو تکیے پر سلاتے ہوئے ایک چادر بھی اوڑھا دی ۔ نیند میں بھی سسکیوں کے ساتھ مما اور خالہ کے پاس جانا ہے والا جملہ دہرا رہی تھی۔

ڈاکٹر صاحب گھر سے جا چکے تھے فائق اب بھی نفیسا کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں اور پھر انہوں نے سگریٹ کے ڈبے سے ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے کھڑکی کا رخ کیا، دھواں اڑاتے ہوئے وہ بادلوں کے بیچ چاند کو تکتے رہے اور نا چاہتے ہوئے بھی اسے عافیہ کی یاد ستانے لگی۔