نظم شعاع امید کی تشریح

0

نظم “شعاع امید” علامہ محمد اقبال کے شعری مجموعہ “بالِ جبریل” سے لی گئی ہے۔اس نظم کے تین حصے ہیں۔ پہلا اور دوسرا حصہ چار چار جبکہ تیسرا حصہ نو اشعار پر مشتمل ہے۔یہ نظم ایک رجائیت بھری امید کا پہلو لیے ہوئے ہے۔

سورج نے ديا اپنی شعاعوں کو يہ پيغام
دنيا ہے عجب چيز ، کبھی صبح کبھی شام
مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا ميں
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہری ايام
نے ريت کے ذروں پہ چمکنے ميں ہے راحت
نے مثل صبا طوف گل و لالہ ميں آرام
پھر ميرے تجلی کدہ دل ميں سما جاؤ
چھوڑو چمنستان و بيابان و در و بام

اس حصے میں شاعر کہتا ہے کہ سورج اپنی شعاعوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دنیا ایک عجیب شے اور جگہ ہے یہاں وقت کا ایک پھیر جاری ہے کہ کبھی صبح اور کبھی شام واقع ہوتی ہے۔ایک عرصے سے سورج اس کائنات کو منور کرنے میں لگا ہوا ہے مگر زمانے نے ہمیشہ اس سے سرد مہر رویہ اختیار کیا ہے۔سورج اپنی شعاعوں سے کہتا ہے کہ نہ تو تمھیں ریت کے ذرات میں چمکنے سے کوئی راحت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی ہوا کی صورت میں پھولوں کے اردگرد روشنی بن کر بھرنے سے کوئی راحت ملتی ہے۔سورج اپنی شعاعوں سے کہتا ہے کہ اس لیے تم باغات اور جنگلوں میں پھرنا چھوڑ دو اور آ کر میرے روشن دل میری پر سکون گود میں سما جاؤ۔

آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہيں شعاعیں
بچھڑے ہوئے خورشيد سے ہوتی ہيں ہم آغوش
اک شور ہے ، مغرب ميں اجالا نہيں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھويں سے ہے سيہ پوش
مشرق نہيں گو لذت نظارہ سے محروم
ليکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش
پھر ہم کو اسي سينہ روشن ميں چھپا لے
اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش

اس حصے میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا کے ہر ایک گوشے سے شعاعیں سمٹ کر واپس اس سورج کا حصہ بن گئیں کہ جس سے بچھڑ کر وہ آئیں تھیں۔ سورج کی ایک شعاع کہتی ہے کہ مغرب میں اجالا ممکن نہیں ہے۔مشرق یعنی ہندوستان افرنگی سیاست اور ان کی مشینوں کے دھویں میں سیاہ پوش ہو چکا ہے۔لیکن ذات الہی کی تمام صفات اس کے سامنے خاموش ہیں۔اس لیے دنیا کو منور کرنے والے سورج مجھے مت بھلاؤ اور اس دنیا کو منور کرنے دو اس کے بعد مجھے اپنی آغوش میں چھپا لینا۔

اک شوخ کرن ، شوخ مثال نگہ حور
آرام سے فارغ ، صفت جوہر سيماب
بولی کہ مجھے رخصت تنوير عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب
چھوڑوں گی نہ ميں ہند کی تاريک فضا کو
جب تک نہ اٹھيں خواب سے مردان گراں خواب
خاور کی اميدوں کا يہی خاک ہے مرکز
اقبال کے اشکوں سے يہی خاک ہے سيراب
چشم مہ و پرويں ہے اسی خاک سے روشن
يہ خاک کہ ہے جس کا خزف ريزہ درناب
اس خاک سے اٹھے ہيں وہ غواص معانی
جن کے ليے ہر بحر پر آشوب ہے پاياب
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں ميں
محفل کا وہی ساز ہے بيگانہ مضراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدير کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
مشرق سے ہو بيزار ، نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

نظم کے تیسرے حصے میں شاعر کہتا ہے کہ ایک شوخ کرن جس کی شوخی کی مثال حور کی نگاہ جیسی تھی۔ جو ہر گز آرام کی طالب نہ تھی بلکہ اس کی بے چینی اس کی خوبی تھی کہنے لگی کہ مجھے روشن ہونے یا چمکنے کی اجازت دی جائے کہ جب تک مشرق کا ہر ایک ذرہ روشن نہ ہو جائے مجھے چمکنا ہے۔ میں ہر گز بھی ہندوستان کی سر زمین کو تاریکیوں میں ڈوبا ہوا نہ چھوڑوں گی۔جب تک کہ یہاں کے مردان یعنی عظیم لوگ اپنے گہرے خواب سے جاگ نہیں اٹھیں گے۔تب تک سورج کی امیدوں کا مرکز یہی خاک ہوگی۔کیونکہ یہ خاک اقبال کے اشکوں سے سیراب ہوئی ہے۔

اس وقت تک چاند اور تاروں کی آنکھیں بھی اسی خاک سے روشن ہوں گی۔یہ وہ خاک ہے کہ جس کا ٹھیکری کا ایک ایک ذرہ بھی نایاب ہے۔اس خاک سے ایسے بلند خیال اور عالی مرتبہ لوگوں نے جنم لیا ہے کہ جن کے لیے ہر ایک فتنہ انگیز طوفان نچلی سطح کا ثابت ہوا۔ جن کی باتوں اور نغموں سے دلوں کو ایک گرمی حاصل ہوتی ہے۔ آج محفل کا وہی ساز اس کے بجانے والوں سے بیگانگی اختیار کیے ہوئے ہے۔برہمن اگر بت خانے کے دروازے پہ سو رہا ہے تو دوسری طرف مسلمان محراب میں بیٹھا اپنی تقدیر پہ رو رہا ہے۔آخر میں سورج کی روشن کرن یہ پیغام دیتی ہے کہ مشرق اور مغرب دونوں سے بیزاری اچھی بات نہیں ہے۔بلکہ مشرق اور مغرب دونوں کو یہ کرنیں روشن کرنے کی خواہاں ہیں۔