سبق نمبر 5: قرآنی آیات تشریح، سوالات و جوابات

0

سبق نمبر 5:

(الف)مندرجہ ذیل سوالات کے جواب تحریر کریں:

۱۔ مندرجہ ذیل آیات میں کسی بھی دو آیات کا ترجمہ تحریر کریں:

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

ترجمہ:

وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے رک بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔

تشریح:

اس آیت میں حضور اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی بعثت کا مقصد، ہدایت ااور دین اسلام (نظام زندگی اور نظام اطاعت ) کا مقام اور اس کی اہمیت اور غلبہ و برتری کی خبر اور وعدہ بیان کیا گیا ہے اور یہ خوشخبری اس وقت دی گئی تھی، جب مسلمان بہت کمزور تھے اور بظاہر کسی غلبہ کی امید نہ تھی بتایا گیا۔ اسلام ہی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ اللہ تعالی ٰکے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔ (آل عمران: ۱۹)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی بعثت کے جومقاصد قرآن مجید واحادیث مبارکہ میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک مقصد اس آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کریمﷺ کو ہدایت اور دین برحق دے کر اس لیے بھیجا ہے کہ آپ کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم اس دین کو تمام ادیان پر غالب کریں، اگرچہ کفار و مشرکوں کو یہ بات ناپسند لگتی ہو۔ چنانچہ اس غلبہ سے دو طرح کا غلبہ مراد ہے:

معقولیت اور دلیل و حجت کا غلبہ:

جس کا مطلب یہ ہے کہ نظریاتی و علمی مباحث کے ذریعہ دیگر مذاہب کے لوگ مغلوب ہو کر اسلام کی برتری کا اقرار کریں اور اس قسم کا غلبہ تو ہر زمانے میں موجود رہا ہے۔

سلطنت اور حکومت کا غلبہ:

اس اعتبار سے کہ کسی مملکت میں یا پوری دنیا میں صرف دین ہی غالب ہو اسلام دیگر ادیان کو کوئی بالادستی حاصل نہ ہو، اس قسم کا غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اسلام کو حاصل رہا کہ سرزمین عرب میں اسلام سربلند ہوا دنیا کی سپر پاور سلطنتیں روم و فارس مغلوب ہو گئیں اور پوری دنیا دین اسلام کے نور سے منور ہوگئی۔لہٰذا ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کا اتباع اور اصول اسلام کی پاسداری اور دین حق کے غلبے کے لیے کام کریں یہ سب کا دینی فریضہ ہے اور اسی میں فلاح داریں ہے۔

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ

ترجمہ:

جن مسلمانوں سے خواہ مخواہ لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے کہ وہ بھی لڑیں کیوں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔

تشریح:

ان آیات میں اذن جہاد، مسلمانوں کی امداد کا وعدہ اور مہاجرین کی ہمت افزائی اور قتال کی حکمت کو بیان کیا گیا ہے۔ کہ ہجرت مدینہ تک کے تیرہ برس مسلمانوں اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے لیے نہایت صبر آزما اور مشکلات والے تھے، جہاد پر تکلیفوں اور سختیوں پر رد عمل کی بجائے صبر و ضبط کا حکم تھا اور کسی قسم کی جوابی کاروائی سے روکا جاتا رہا، مگر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی مملکت کے قیام کے فوراً بعد مسلمانوں کو پہلی ہجرت میں ہی اپنی مدافعت کے لیے کفار کا مقابلہ اور مظلومیت کے خاتمہ، دیگر ادیاں پر غلبہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرنے کی اجازت مل گئی۔

ان آیات میں جہاد کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ جتنے انبیاء کرام علیہم السلام دنیا میں آئے انھوں نے اپنی امتوں کو صرف اکیلے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی تعلیم دی اور اقامت دین کے لیے بہت کوششیں کیں اور اس کے لیے عبادت گاہیں بنوائیں مثلاً عیسائیت میں خانقاہیں / صومعہ، کلیسا/ بیعہ۔ یہودی مذہب میں عبادت کے لیے صلوات اور اسلام میں مساجد بنائی گئیں۔ جو لوگ ان آسمانی مذاہب کے مخالف تھےوہ ان کی عبادت گاہوں کے منہدم کرنے کی مہم میں تھے۔ اس لیے جہاد کے ذریعہ ان کا دفاع کیا جائے۔ پھر مظلوموں کی داد رسی کرنا۔

فسادیوں اور ناشکرے اور عہد شکنی کرنے والے لوگوں کو سزادینا، دنیا میں امن و سکون لانا اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے کوشش کرنا بھی جہاد کی حکمتوں میں شامل ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اعلاء کلمۃ اللہ، امن امان قائم کرنے اور مظلوموں کی مدد اور داد رسی کے لیے ہر وقت جہاد کے لیے تیار رہیں، تاکہ فلاح داریں حاصل کر سکیں۔

اَلَّـذِيْنَ اِنْ مَّكَّنَّاهُـمْ فِى الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلَاةَ وَاٰتَوُا الزَّكَاةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَـهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۗ وَلِلّـٰهِ عَاقِـبَةُ الْاُمُوْرِ

ترجمہ:

یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں حکومت دے دیں تو نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

تشریح:

اس آیت میں مہاجرین کی فضیلت اور ان کے اقتدار کی پیشگوئی اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں اور دین کے مدد گاروں کی صفاتخصوصیات کا ذکر ہے۔ اگر ان کو حکومت ملے تو ایمان، عمل صالح عبادت گزاری، شرک سے پرہیز، دین حق کے غلبہ کے لیےجدوجہد اور خوف و خطرہ میں ثابت قدم ہوں۔ نیز نماز اور زکوۃ کی پابندی کریں۔ اپنے اختیارات نیکی کو پھیلانے اور بدی کو مٹانے میں استعمال کریں۔
مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے لیے میثاق مدینہ کے نام سے پہلا آئین اور دستور بنایا گیا، جس کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم اس کے سربراہ اور رعیت کے درمیان صلح صفائی کرانے کے ذمہ دار قرار پائے۔ اس طرح رعایا کو امن و سکون فراہم کرنا، ان کی تعلیم، صحت اور معاش کا انتظام کرنا بھی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل رہا، چنانچہ آیت مذکورہ میں ان باتوں کی تاکید کی گئی ہے کہ جب ایمان والوں کو زمین میں حکومت و اختیار حاصل ہو تو ان کو مندرجہ ذیل باتوں پر خاص طور پر دھیان دینا چاہیے:

نماز قائم کرنا:

نماز دین کا ایک اہم رکن اور عبادت ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ انسانک ا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط ہو جائے اور تزکیہ نفس حاصل ہو جائے۔

زکوٰۃ ادا کرنا:

ذکوٰۃ کا تعلق براہ راست سماج کی معاشیات سے ہے، اس لیے ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ معاش کے وسائل پیدا کرے اور لوگوں کی ضروریات کے لیے مناسب انتظامات کرے۔

امرابالمعروف اور نہی عن المنکر:

معروف کی معنی ہے ایسی نیکی اور بھلائی والے کام جسے سب اچھا سمجھتے ہوں۔ منکر کی معنی ہے ہر قسم کی بدی یا برائی جسے سب برا اور ناپسندیدہ سمجھیں۔ سماج میں اچھے کاموں کو فروغ دیا جائے اور ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو معاشرہ کےلیے کار آمد ثابت ہوں، اسی طرح جن لوگوں سے معاشرہ کے بگاڑ اور فساد کا اندیشہ ہو ان لوگوں کو بدی اور برائی فسق و فجور اور تکبر و غرور سے روکنا اور ان کے لیے سزائیں اور قوانین نافذ کیے جائیں تاکہ معاشرے میں امن و سکون کا دور دورہ ہو۔

۲۔ سورۃالحج کی آیت ۴۱ میں اسلامی سلطنت کے مقاصد واہداف اور خوبیاں تحریر کریں۔

جواب:سورۃ الحض کی آیت ۴۱ کے مطابق اسلامی سلطنت کے مقاصد و اہداف اور خوبیاں درج ذیل ہیں:
مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے لیے میثاق مدینہ کے نام سے پہلا آئین اور دستور بنایا گیا، جس کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم اس کے سربراہ اور رعیت کے درمیان صلح صفائی کرانے کے ذمہ دار قرار پائے۔ اس طرح رعایا کو امن و سکون فراہم کرنا، ان کی تعلیم، صحت اور معاش کا انتظام کرنا بھی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل رہا، چنانچہ آیت مذکورہ میں ان باتوں کی تاکید کی گئی ہے کہ جب ایمان والوں کو زمین میں حکومت و اختیار حاصل ہو تو ان کو مندرجہ ذیل باتوں پر خاص طور پر دھیان دینا چاہیے:

  • نماز قائم کرنا: نماز دین کا ایک اہم رکن اور عبادت ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ انسانک ا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط ہو جائے اور تزکیہ نفس حاصل ہو جائے۔
  • زکوٰۃ ادا کرنا: ذکوٰۃ کا تعلق براہ راست سماج کی معاشیات سے ہے، اس لیے ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ معاش کے وسائل پیدا کرے اور لوگوں کی ضروریات کے لیے مناسب انتظامات کرے۔
  • امرابالمعروف اور نہی عن المنکر: معروف کی معنی ہے ایسی نیکی اور بھلائی والے کام جسے سب اچھا سمجھتے ہوں۔ منکر کی معنی ہے ہر قسم کی بدی یا برائی جسے سب برا اور ناپسندیدہ سمجھیں۔ سماج میں اچھے کاموں کو فروغ دیا جائے اور ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو معاشرہ کےلیے کار آمد ثابت ہوں، اسی طرح جن لوگوں سے معاشرہ کے بگاڑ اور فساد کا اندیشہ ہو ان لوگوں کو بدی اور برائی فسق و فجور اور تکبر و غرور سے روکنا اور ان کے لیے سزائیں اور قوانین نافذ کیے جائیں تاکہ معاشرے میں امن و سکون کا دور دورہ ہو۔

۳۔ سورۃ التوبہ کی آیت ۲۴ کی روشنی میں ایک سچے مومن کو سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم) سے کرنی چاہیے۔ وضاحت کریں۔

جواب: اس آیت میں ہر قسم کی رشتہ داریوں اور تعلقات کے بعد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان، اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد ﷺ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا دنیا کی ہر چیز سے مقدم ہے۔ ایمان دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے، جس کے باعث نہ صرف انسان دنیا میں فاعدہ حاصل کرتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آخرت کے لیے بھی تیاری ہوتی رہتی ہے۔ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول حضور اکرمﷺ کی محبت و اطاعت اور جہاد فی سبیل اللہ کو بڑی شان اور عظمت سےبیان فرمایا ہے مثلاً:

جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لیا، اللہ کے یہاں ان کا بہت بڑا مرتبہ ہے اور وہی کامیاب لوگ ہیں۔

اے ایمان والو! تمہارے والدین، تمہاری اولاد، بیویاں و دیگر رشتہ دارر اور مال و جائیداد یہ سب اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ محبوب نہیں ہونے چاہئے اور والدین و دیگر رشتہ داروں کی محبت تمہیں راہ حق پر چلنے پر رکاوٹ نہ بنیں، اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کو سب سے زیادہ محبوب نہیں رکھتا ہے تو پھر وہ اللہ کی ناراضگی سے بچ نہیں سکےگا۔

۴۔ غلبہ اقتدار ملنے کے بعد مسلمان حکمرانوں کے فرائض کیا ہوں گے۔وضاحت کریں۔

جواب: کسی مملکت میں یا پوری دنیا میں صرف دین ہی غالب ہو اسلام دیگر ادیان کو کوئی بالادستی حاصل نہ ہو، اس قسم کا غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اسلام کو حاصل رہا کہ سرزمین عرب میں اسلام سربلند ہوا دنیا کی سپر پاور سلطنتیں روم و فارس مغلوب ہو گئیں اور پوری دنیا دین اسلام کے نور سے منور ہوگئی۔لہٰذا ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کا اتباع اور اصول اسلام کی پاسداری اور دین حق کے غلبے کے لیے کام کریں یہ سب کا دینی فریضہ ہے اور اسی میں فلاح داریں ہے۔

(ج) مندرجہ ذیل سوالات کےمختصر جوابات تحریر کریں۔

۱۔ اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم سے محبت کا معیار کیا ہونا چاہئے؟

جواب: آدمی اس وقت تککامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے نزدیک رسول کریمﷺ کی ذات گرامی ماں باپ سے بیوی بچوں سے اور خود اپنی جان سے بھی زیادہ بڑھ کر محبوب نہ بن جائے۔ یہ حب نبویﷺ دین کی بنیاد اور اس کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔

۲۔ قرآن مجید میں اذن قتال کی حکمت کیا بتائی گئی ہے؟

جواب: قرآن مجید میں جہاد کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ جتنے انبیاء کرام علیہم السلام دنیا میں آئے انھوں نے اپنی امتوں کو صرف اکیلے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی تعلیم دی اور اقامت دین کے لیے بہت کوششیں کیں اور اس کے لیے عبادت گاہیں بنوائیں مثلاً عیسائیت میں خانقاہیں / صومعہ، کلیسا/ بیعہ۔ یہودی مذہب میں عبادت کے لیے صلوات اور اسلام میں مساجد بنائی گئیں۔ جو لوگ ان آسمانی مذاہب کے مخالف تھےوہ ان کی عبادت گاہوں کے منہدم کرنے کی مہم میں تھے۔ اس لیے جہاد کے ذریعہ ان کا دفاع کیا جائے۔ پھر مظلوموں کی داد رسی کرنا۔

فسادیوں اور ناشکرے اور عہد شکنی کرنے والے لوگوں کو سزادینا، دنیا میں امن و سکون لانا اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے کوشش کرنا بھی جہاد کی حکمتوں میں شامل ہے۔لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اعلاء کلمۃ اللہ، امن امان قائم کرنے اور مظلوموں کی مدد اور داد رسی کے لیے ہر وقت جہاد کے لیے تیار رہیں، تاکہ فلاح داریں حاصل کر سکیں۔

۳۔ مکی دور میں مسلمانوں کی حالت کیا تھی؟

جواب: جوں جوں لوگ آپﷺ کے دست حق پر ست پر اسلام کی بیعت کرتے رہے اور اسلام کی شعائیں پھیلتی رہی، کفار و مشرکین کے غیض و غضب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ مسلمان جو کچھ حیثیت رکھتے تھے ان کا کوئی حامی و مدد گار تھا،ان پر کفار و مشرکین اپنے غصے اور ظلم و جور کا اظہار کرنے سے قاصر و عاجز تھے، مگر جو مسلمان غریب و نادار تھے، ان کا کوئی حامی و مدد گار نہ تھا اور نہ وہ خود کوئی خاندانی و قبائلی حیثیت رکھتے تھے،ان پر کفار و مشرکین نے ظلم و ستم کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا۔ آپﷺ کو بھی تکالیف پہنچائی گئیں۔ معاشرتی بائیکاٹ کیا گیا۔غرضیکہ مکی دور میں مسلمانوں پر ہر طرح کا ظلم کیا گیا۔

۴۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر سےکیا مراد ہے؟

جواب: امرابالمعروف اور نہی عن المنکر: معروف کی معنی ہے ایسی نیکی اور بھلائی والے کام جسے سب اچھا سمجھتے ہوں۔ منکر کی معنی ہے ہر قسم کی بدی یا برائی جسے سب برا اور ناپسندیدہ سمجھیں۔ سماج میں اچھے کاموں کو فروغ دیا جائے اور ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو معاشرہ کےلیے کار آمد ثابت ہوں، اسی طرح جن لوگوں سے معاشرہ کے بگاڑ اور فساد کا اندیشہ ہو ان لوگوں کو بدی اور برائی فسق و فجور اور تکبر و غرور سے روکنا اور ان کے لیے سزائیں اور قوانین نافذ کیے جائیں تاکہ معاشرے میں امن و سکون کا دور دورہ ہو۔

۵۔ اللہ تعالیٰ سے مدد ملنے کی چند صورتیں تحریر کریں۔

  • جواب: اللہ تعالیٰ سے مدد ملنے کی چند صورتیں مندرجہ ذیل ہیں:
  • مسلمانن حیث القوم قرآن مجید اور سنت رسولﷺ پر سختی سے عمل پیرا ہوں۔
  • ہر مسلمان کا دل ذوق عبادت اور شوق جہاد و شہادت سے لبریز ہو۔
  • ہر مسلمان اللہ تعالیٰ سے، رسول اللہ ﷺ سے اور اسلام سے اپنے خاندان ، اپنی اولاد اور اپنے مال بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرے۔
  • ہر مسلمان دنیا کی محبت چھوڑ کر اپنی آخرت کو مدنظر رکھے۔
  • ایک مسلمان اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ، اعتماد اور توکل رکھے۔
  • ایک مسلمان ظلمکرنے، حرام کاری اور حرامی کمائی سے بچے۔