ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں تشریح

0

غزل نمبر 4 کی تشریح

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں
یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں

شعر نمبر 1

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

فرہنگ:

ستارہ مراد ہے بلند مقام
جہاں مراد ہے اس رنگ و بو کے علاوہ دوسری زندگی جو ہمیشہ رہے گی
عشق کے امتحاں محبت و مشقت کی منزلیں یا مرحلے

تشریح:

یہ غزل مسلسل ہے یعنی اس میں ایک بنیادی خیال ہے جس کو اقبال نے مختلف پیرائہ اظہار دیا ہے۔ اس غزل میں اس تصور کو پیش کیا گیا ہے کہ انسان کی زندگی صرف اس دنیاوی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کے لئے اس کے علاوہ بھی جہان موجود ہے، جہاں کی زندگی کی ترقی ہی ہوتی رہی ہے، اس شعر میں اقبال نے ایک رجائی کیفیت کو پیدا کرتے ہوئے مخاطب کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر تو ایک میدان ہستی میں کامیاب نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں دوسری جہت کی طرف بڑھو، وہاں سے آپ کامیاب ہو سکتے ہیں، لیکن ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں بلکہ جگر کاوی اور محنت و مشقت کے ساتھ آگے بڑھو بہت سارے ایسے مقام آئیں گے جہاں تمہیں تلخ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ”ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔“

شعری محاسن:

اقبال نے اس دنیا کا استعارہ ”ستاروں“ سے کیا، آخرت کی دنیا کو یا اگلی کامیابی کی منزل کو ”جہاں“ اور محنت و مشقت یا جدوجہد کا استعارہ ”عشق کے امتحاں“ کی تعبیر سے کیا ہے۔ اس طرح ایک راستہ خیال اور پیغام کو شعریت کے حسن کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔

شعر نمبر 2

تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں

فرہنگ:

تہی خالی، زندگی سے خالی
یہ فضائیں مراد کائنات، دنیا، موجودات
کارواں قافلہ

تشریح:

اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات، یہ دنیا ایسی نہیں ہے کہ زندگی سے خالی ہے،اے انسان یہاں صرف تو ایک زندگی نہیں گزار رہا ہے، تو اشرف المخلوقات کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہا ہے لیکن شکوہ بر لب ہے، اپنے علاوہ کئی ہزار عالم ہیں اس جہان میں، سینکڑوں زندگی کے قافلے ہیں جو تیرے ماتحت زندگی گزار رہے ہیں اور وہ خوش ہیں، تو صرف ایک جہان کو دیکھ کر مایوس ہوگیا، رجائیت کے ساتھ آگے بڑھ، ”تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں۔“

شعری محاسن:

اس شعر کا حسن یہ ہے کہ اس دنیا اور زندگی کے نشیب و فراز اور سخت و گرم کو ”فضاؤں“ سے تعبیر کیا ہے اور انسان کے علاوہ اٹھارہ ہزار کم و بیش عالموں کی زندگی کو ”سینکڑوں کارواں“ کی تعبیر میں ڈھال کر معانی کا ایک جہان آباد کر دیا ہے۔

شعر نمبر 3

قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

فرہنگ:

قناعت کرنا تھوڑے کو کافی سمجھنا اور اس پر صبر شکر ادا کرنا
عالم رنگ و بو مراد دنیا، کائنات، موجودات
چمن مراد جہان
آشیاں مراد مقام

تشریح:

اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ انسان تو صرف اس ظاہری دنیا پر قناعت نہ کر، چپ ہو کے نہیں بیٹھ جا، بلکہ انسان کے لئے اس کے علاوہ بھی ایسا جہان آخرت ہے جہاں اس کی زندگی کو ہمیشگی ہے اور اس کے اعمال کے مطابق اس کے بلند مقامات ہیں۔ یعنی خدا کے بندے کی زندگی سکونی نہیں بلکہ حرکی ہے، ہمیشہ جدوجہد اور تگ و دو میں رہنا ہی اس کی خصوصیت ہے۔

شعری محاسن:

اقبال نے معنوی اعتبار سے وہ معنی پیدا کیے ہیں جو اور اوپر والے اشعار میں گزرے ہیں لیکن پیرایۂ اظہار کو رنگا رنگی دی ہے کہ اس دنیا کو ”عالم رنگ و بو“ سے معنی آفریں تعبیر میں پیش کیا ہے، جہان آخرت کو ”چمن“ سے اور جنت و نعمت کے مقامات کو ”آشیاں“ سے تعبیر کر کے شعری جمالیات کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔

شعر نمبر 4

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

فرہنگ:

نشیمن گھونسلا، مراد منزل
مقامات آہ و فغاں مراد جدوجہد کے موقعے

تشریح:

اس شعر میں بھی اقبال نے انسان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے انسانی کیفیات و جذبات اور شعور سرگرم عمل رکھنے کے لیے ایک الگ اسلوب میں وہی خیال دہرایا ہے جو ماقبل کے اشعار میں گزرا ہے۔ اقبال نے مخاطب کو یہ کہا ہے کہ اگر تو نے محنت و مشقت کی ہے اس کے باوجود تجھے تیری منزل یا مقام اور مقصد حاصل نہیں ہوا ہے تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر ایک ’نشیمن‘ (منزل) کھو گیا ہے تو کوئی بات نہیں اس کے سبب تو تھک ہار کر بیٹھ مت جا بلکہ تو کسی دوسرے مقام و مرتبے کے لیے جدوجہد کر، یا دوبارہ پھر سے کوشش کر ، کیونکہ تھک ہار کر مایوس ہو جانا تو تجھے بالکل ہی صفحہ مقام سے مٹا ڈالے گا۔پھر سے تازہ دم ہو کر جگر کاوی سے کام لے، منزل تیرے قدموں میں ہوگی۔

شعری محاسن:

اس شعر میں ایک منزل یا مقصد کو ”نشیمن“ سے تعبیر کیا ہے اور دوبارہ کی جدوجہد کو ”مقامات آہ و فغاں“ سے تعبیر کر کے غزلیہ شعر کے تقاضے اختصار کو پورا کرتے ہوئے شعری حسن کو برقرار رکھا ہے۔

شعر نمبر 5

تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

تشریح:

اس شعر میں اقبال نے اپنی محبوب علامت ” شاہین“ کو برت کر انسان کو ایک امید اور دلائی ہے، کہ تو، تو شاہین ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے گھونسلے نہیں بناتا، وہ اونچی سے اونچی پہاڑی کی طرف پرواز کرتا ہے، وہ کسی کی دنیا نہیں مانگتا، وہ اپنی دنیا آپ بناتا ہے، وہ دوسرے کے کیے ہوئے شکار پر نہیں گرتا وہ اپنا شکار خود کرتا ہے، لہٰذا اے مرد مومن تیرے اندر تو شاہین کی صفت موجود ہے تو ایک منزل پر پہنچ کر کیوں اسے آخری منزل سمجھ بیٹھا ہے بلکہ ہر آنے والی منزل کو تو اپنے لئے تھوڑے عرصے کے لیے ایک پڑاؤ سمجھ ، تیری صلاحیت تو سات آسمانوں سے پار جانے کی ہے، یہی ایک آسماں تیرا نہیں فلک الافلاک بھی تیرا ہی ہے، ”تیرے سامنے آسماں “ مقامات و منازل اور بھی ہیں۔

شعری محاسن:

اس شعر میں اقبال نے علامتی پیرایہ اختیار کیا ہے اور اپنے مخصوص انداز اور محبوب علامت ”شاہین“ کو مرکز بنا کر معانی کو اس قدر پھیلایا ہے کہ قاری کے اندر ایک حوصلہ اور خود اعتمادی کا وصف پیدا ہونے لگتا ہے، حسن خیال کے ساتھ ساتھ حسن بیان کا پیدا کرنا یہ علامہ اقبال کا انفراد ہے۔

شعر نمبر 6

اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

فرہنگ:

روز و شب مراد وقت کی گردش
الجھ کر رہ جانا پھنس کر رہ جانا
زمان و مکاں زمانہ اور مقام، وقت اور دنیا

تشریح:

غزل نمبر 3 کا پہلا شعر یاد رکھیں کہ اس میں بھی یہی معنی اقبال نے بیان کیے ہیں کہ ”کھو نہ جا اس سحروشام میں اے صاحب ہوش!“ اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش“
انہوں نے اس شعر میں بھی یہی بات دہرائی ہے زمان مسلسل یعنی جو رات اور دن میں تقسیم ہوجانے والا جہان ہے دنیا اسی میں مت الج کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں یہ تو ناپائیدار ہے کہ اس زمان سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کر جس میں نہ فردا ہے نہ دوش، جس میں نہ ماضی ہے نہ مستقبل بلکہ حال ہی حال ہے، روشنی ہی روشنی، جس کو موت نہیں، فنا نہیں تیری زندگی کا مقصد اس مقام تک پہنچنا ہے اس روز و شب میں الجھنا نہیں ہے۔

شعری محاسن:

اس شعر میں بھی اقبال نے اپنا فلسفۂ خاص نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کر دیا ہے، دنیا کی ناپائیداری بھی اور ہمیشہ رہنے والا مقام زمانہ خالص بھی۔ اور بڑے مفہوم گو ” روز و شب“ اور ”زمان و مکاں “کی دو ترکیب میں اس طرح رکھ دیا ہے کہ اقبال کی غزل کی معنویت پر ایمان لانے کو جی کرتا ہے“

شعر نمبر 7:

گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں
یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں

فرہنگ:

انجمن محفل ، مراد قوم و ملت
رازداں بھید جانے والا، مراد شاعری کے اصل مقصد کو پا جانے والا

تشریح:

اقبال اس شعر میں اپنی محنت کا ثمر پیش کر رہے ہیں کہ ایک دن تھا کہ جس مقصد اور پیغام کو میں لے کے چلا تھا، اس وقت میں تنہا تھا کہ میں مسلسل قوم وملت کو اس کے اصلی مقصد ، منزل اور نصب العین کی طرف متوجہ کرتا رہا۔ اس کے رموز و اسرار سے پردہ اٹھاتا رہا۔ اب مجھے امید ہے کہ میری قوم و ملت کو اپنے نصب العین اور مقصد کی معرفت ہو چکی اور وہ جہد عمل کے لیے نکل پڑی ہے، اب میں تنہا نہیں جو انسانیت کی عظمت کا خواہاں ہو بلکہ ایک انجمن یعنی قوم میرے ساتھ کھڑی ہے، میرے راز و مقصد وہ بھی سمجھ گئے ہیں۔

شعری محاسن:

اس شعر کا حسن یہ ہے کہ اقبال نے اپنے تمام تصورات کی جانب اس شعر میں اجمالی ذکر کر دیا ہے اور ان تصورات و خیالات اور پیغام کو ”انجمن” اور ”رازداں“ کی تعبیرات میں سمیٹ لیا ہے۔ یہ کام صرف اور صرف ایک ہنر مند فن کار ہی کر سکتا ہے۔

یہ غزل مسلسل ہے اس کو سمجھنے کے لیے اس اصول کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ تصور حیات سکونی اور منجمد نہیں بلکہ حرکی اور مسلسل بہاؤ کا نام ہے، اس لیے چھوٹی چھوٹی ناکامیوں سے مایوس ہوکر بیٹھ جانا، تھک ہار کر اپنے بڑے مقصد اور نصب العین فراموش کردینا مرد مومن کا شیوہ نہیں۔

از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک
اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری