سبق نمبر ۴: صبح کا ترانہ تشریح، سوالات و جوابات

0

تعارف ِ شاعر

اسماعیل میرٹھی 12 نومبر 1844 میں اتر پردیش میرٹھ میں پیدا ہوئے۔اردو کو جدید نظم سے روشناس کرانے والوں میں اسماعیل مرٹھی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد بڑوں کے لہجے میں باتیں کرنے والے تو بہت تھے لیکن بچوں کے لہجے میں سمجھانے والوں میں اسماعیل مرٹھی کا اہم مقام ہے، جنہوں نے جدید اردو میں اولین ہیتیی تجربات کیے اور معریٰ نظمیں لکھیں۔ ان کا انتقال 1 نومبر ہر 1917 ء میرٹھ اتر پردیش میں ہوا۔

تعارف ِ نظم

یہ نظم ہماری درسی کتاب سے ماخوذ ہے اس نظم کا نام ’صبح کا ترانہ‘ ہے یہ اسماعیل میرٹھی نے لکھی ہے۔ اس نظم میں صبح کا نقشہ کھینچا ہے اور صبح کی تصویر کشی کی ہے۔ جس میں شاعر نے صبح کے الگ الگ منظر کا بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذکر کیا ہے اور سونے والوں کو صبح کے وقت پر اٹھنے کی تلقین کی ہے۔ ساتھ ہی اٹھنے کی درجنوں وجوہات بتائے ہیں۔

نظم صبح کا ترانہ کی تشریح

اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
اجالا زمانے میں پھیلا رہی ہوں
بہر اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

نظم کے پہلے بند میں شاعر صبح کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صبح سونے والوں سے کہہ رہی ہے کہ اٹھو میں اجالا پھیلانے آگئی اور میں نے مشرق سے سورج بھی نکالا، میں چلا چلا کر پکار رہی ہوں کہ اے سونے والو اٹھو میں آرہی ہوں۔

اذاں پر اذان مرگ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر ایک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

نظم کے دوسرے بند میں شاعر فرماتے ہیں کہ صبح کہہ رہی ہے مرغے بھی اذان دینے لگے، خوشی سے ہر ایک جانور بولنے لگا ہے، درختوں کے اوپر پرندے بھی چہچہا رہے ہیں، موسم سہانا ہے اور ٹھنڈی ہوا ہے، اے سونے والو اٹھو میں آ رہی ہوں ہوں۔

یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں گل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دنوں کو ہلاتیں پاروں کو پھیلاتیں
میری آمد آمد کے ہیں گیت گاتیں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

صبح کہہ رہی ہے کہ یہ جو چڑیاں پیڑوں پر شور مچا رہی ہیں اور ادھر ادھر جا رہی ہیں اپنی دموں کو ہلا رہی ہیں اور پاؤں کو پھیلا رہی ہیں یہ دراصل میری آمد کے گیت گا رہی ہیں۔ اے سونے والو اب تو اٹھو میں آ رہی ہوں۔

ہوئی مجھ سے رونق بہار اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آ ئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

صبح کہہ رہی ہے کہ میرے آنے سے پہاڑوں اور جنگلوں میں ہر ایک ملک میں ، دیش میں اور وطن میں رونق آئی۔میں چمن میں پھول کھلانے آگئی اور ہر ایک شمع کو بجھانے آگئی، اب اے سونے والو اٹھو میں آ رہی ہوں۔

ہوشیار ہو جاؤ اور آنکھیں کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

آخری بند میں شاعر فرماتے ہیں کہ صبح لوگوں سے کہہ رہی ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ آنکھیں کھولو اور کرو ٹیں نہ لو، بستر کو نہ اوڑو، اللہ کا نام لے کر اٹھو اور منہ ہاتھ دھو لو۔ اٹھو اے سونے والو اٹھو میں آ رہی ہوں۔

سوالات

سوال: دن کے آنے کی خبر کون لا رہا ہے؟

ج: دن کے آنے کی خبر صبح لا رہی ہے۔

سوال: صبح اپنی آمد کی خبر کس طرح دیتی ہے؟

ج: صبح اپنی آمد کی خبر اجالا پھیلانے اور مشرق سے سورج کی کرنیں پڑنے سے دیتی ہے۔

سوال: صبح کی رونق کہاں کہاں ہوتی ہے؟

ج: صبح کی رونق جنگل، پہاڑ ، وطن اور چمن میں ہوتی ہے۔

سوال: صبح اپنی آمد پر سونے والوں سے کیا کرنے کو کہہ رہی ہے؟

ج : صبح اپنی آمد پر سونے والوں سے کہتی ہے کہ سونے والو ہوشیار ہو جاؤ اور آنکھیں کھولو کروٹیں نہ بدلو اور نہ بستر ٹٹولو اب اٹھو اور منہ ہاتھ دھو کر خدا کو یاد کرو۔

سوال: صبح ہمیں مشرق سے کیا دکھاتی ہے؟

ج: صبح ہمیں مشرق سے سورج کی آ مد دکھاتی ہے۔

خالی جگہوں کو دیے ہوئے الفاظ سے پر کیجئے۔

  • یہ چڑیاں جو ہیں گل مچاتی
  • ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی۔
  • کھلاتی ہوئی بھول آئی چمن میں۔
  • بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں۔
  • لو ہشیار ہو اور آنکھیں کھولو۔