Sufism in Modern World | تصوف اور جدید عہد

0

تصوف اور جدید عہد

  • 2.1 تمہید
  • 2.2مقاصد
  • 2.3 تصوف اور جدید عہد
  • 2.4 عمومی جائزہ
  • 2.5 سوالات
  • 2.6 امدادی کتب

2.1 تمہید

جدید عہد میں سائنسی، علمی اور مادی عناصر پر زور ہے، عقلیت پسندی اہم مقام رکھتی ہے۔ ایسے دور میں روحانی یا آخرت کا خوف بہت کم ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود ایک بڑی تعداد انسانوں کی تصوف کی طرف مائل ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ اس وقت اقوام عالم کا زیادہ زور ایٹمی طاقت پر دیا جا رہا ہے، بڑی طاقتیں کمزور ممالک کو ختم کردینا چاہتی ہیں یا مغلوب کرنا چاہتی ہیں۔ دوم یہ کہ اقتصادیات پر زور زیادہ دیا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک کا یہ زور ہے کہ مشرقی ممالک کا سرمایہ زیادہ سے زیادہ مغرب میں منتقل کیا جا سکے۔ سوم یہ کہ دنیا کو خوب چکاچوند اور چمکدار بنا دیا گیا ہے ہر شخص عیش و آرام اور مشینی زندگی چاہتا ہے لیکن اس کے باوجود ایسے سوچ اور دل کو قرار و سکون نہیں ہے کیونکہ جتنی بے راہ روی ہو سکتی تھی وہ انہوں نے حاصل کرلی اور یہ تجربہ کرلیا کہ دنیا کی طاقت مال و دولت عیش و آرام حاصل کرنے کے بعد بھی دلی تسکین میسر نہیں۔پھر انسان سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ تسکینِ دل کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے؟ جواب یہی ملا، روحانیت، اپنے مالک و خالق کے قریب ہونے سے ہی یہ دولت مل سکتی ہے۔

2.1 مقاصد

اس سبق کے پڑھنے اور پڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ طلبا یہ جان لیں کہ تصوف کیا ہے اس کی صورت حال کیا ہے اور اس علمی، سائنسی اور مشینی دور میں تصوف کی اہمیت کیا ہے۔

2.3 تصوف اور جدید عہد

تصوف اپنی صفات کے ساتھ عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہوا صحابہ کرام، تابعین اور بعد کے مومنین سے ہوتا ہوا آج بھی اپنی ضرورت اور اہمیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ جدیدعہد جس میں علمی، سائنسی اور مشینی زندگی کا دور دورہ ہے جہاں مشاہد ادنیٰ عناصر پر یقین کیا جاتا، روح و کیفیات کے ثابت کرنے کے لیے کوئی خاص پیمانہ مقرر نہیں ہے۔ زمانۂ قدیم میں اخلاقیات پر زور صرف کیا جاتا ہے۔ خدا ایک ہے، اس کے احکام کی پابندی لازم ہے، اس کے نور سے دل کو منور کیا جانا چاہیے، اس کے دربار تک لے جانے کے لیے ایک مرشد کامل کی ضرورت ہے۔ جدید عہد میں ان میں سے بہت سے تصورات کو ترک کر دیا گیا تھا، صرف خدا کو بعض اپنے اپنے زاویۂ فکر کے مطابق تسلیم کیا جاتا ہے لیکن جو سائنس کی دنیا میں ڈوب گئے وہ خدا کی ذات کے حوالے سے بھی مرتد ہیں گرچہ وہ اس تک رسائی کے لیے کسی مرشد کے قائل ہوں۔ بلکہ ان کا ماننا ہے کہ جس کے پاس ایٹمی طاقت اور اقتصاد ہے وہی سب کچھ ہے۔

نفسیاتی سائنسدانوں نے تو یہاں تک بات کی ہے کہ انسان کے لاشعور میں اس کی وہ خواہشات دبی ہوتی ہیں جو انسان سماجی، معاشرتی، مذہبی یا ملکی اصول و ضوابط کے سبب پوری نہیں کر سکتا، یہ انسان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ کیونکہ جب وہ پیدا ہوا تھا تو ننگا تھا اس پر کوئی حکم لاگو نہیں تھا اسی طرح وہ آزاد رہنا چاہیے۔ دنیا کا کوئی ضابطہ سماجی، معاشرتی اور مذہبی کوئی اصول انسان پر تھوپا نہیں جانا چاہیے بلکہ جو بھی اس کی خواہش ہو، تمنا ہو اسے پورا کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ جن لوگوں نے ان اصولوں کو مد نظر رکھا وہ آج اسی آسمان کے نیچے اور اسی زمین کے اوپر ننگے زندگی گزارتے ہیں۔ اپنی سفلی خواہشات کو کسی بھی مقام پر پورا کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، خواہ وہ ٹوٹی بڑا دریا ہو یا شہر ہر جگہ وہ اپنی خواہشات کو پورا کر لیتے ہیں لیکن مغرب میں بھی ابھی ایسے لوگ موجود ہیں اور مشرق میں تو اکثریت ہے کہ وہ ان نظریات کے مخالف ہیں، اپنی مذہبی، نسلی اور قومی تہذیب و تمدن کے عناصر کو عزیز جانتے ہیں اور اس بے راہ روی کے قائل نہیں۔اس وقت مغرب میں دنیا اس طرف توجہ دے رہی ہے کہ روحانیت و روحانی آسودگی اہم چیز ہے۔

دنیا نے اتنی ترقی کی کہ انسان چاند بلکہ اس سے بھی آگے نکل گیا، روز بروز بارود کے نئے نئے تجربات حاصل کر کے طاقتور بھی ہوگیا، برقی شعاؤں کو اس قدر کام میں لایا کہ ساری دنیا ایک گاؤں بلکہ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی بن گئی۔ دنیا کے گوشے گوشے اس کی انگلیوں کے پوروں میں آگئے ہیں، لیکن انسان تسکین، اطمینان قلب، روحانی آسودگی اور بین المذاہب ہم آہنگی سے مفلس ہو گیا ہے۔اب دنیا کا ہر ذی شعور انسان اس بات کو سوچنے پر مجبور ہے کہ روحانی آسودگی کیسے حاصل کی جائے۔ آخر انسان اس کی طرف مائل ہوا ہے کہ وہی سب کچھ ہے جو ہمارا خالق اور معبودِ حقیقی ہے اس کی طرف متوجہ ہونے اور اس کے نور سے دل کو روشن کرنا بہت ضروری ہے۔ خیال رہے آج مغرب میں بھی صوفیا اور مذاہب کو زیادہ بڑھایا جا رہا ہے اور ان مرجعات سے روحانی آسودگی کے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔

تصوف کا فیض یہ ہوا تھا کہ مختلف المذاہب افراد واقوام کو قریب لایا گیا تھا۔ ہمارے ہندوستان کا یہی حال تھا کہ ہندو، ویدیک، بدھ مت، سکھ ازم اور اسلام کے ماننے والوں نے درمیانی راستہ نکالا تھا کہ جو سب میں مشترک ہے اس کو بنیاد بنا کر انسانیت کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر سادھو، سنت اور صوفی حضرات نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا تھا کہ جو ایک دوسرے کو گوارا کرتے تھے۔ آس پاس مندر ، مسجد، گردوارہ اور دیگر عبادت گاہیں نظر آتی ہیں۔ آج قومی، ذات برادری اور علاقائی تعصبات جو پیدا ہوئے ہیں وہ تصوف کی دوری کے سبب سے پیدا ہوئے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی، بین المذاہب، بین الفرق ، بین المسالک مشترک تصوف کے عناصر کو عام کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ آج کے اس جدید عہد میں بھی ذہن اس کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور دوبارہ اتنی روحانی آہنگی کی طرف آ رہے ہیں جو خاص طور پر مشرق کی پہچان رہے ہیں۔دنیا بھر میں اور خصوصاً مشرق میں صوفی ازم پر بہت بڑی بڑی کانفرنسوں کا انعقاد ہوچکا ہے۔اس حوالے سے ملیشیا، ترکی، روس، پاکستان اور خاص طور پر ہندوستان قابل ذکر ہیں۔ ان ممالک میں آئے دن صوفی ازم کی تعلیمات پر توجہ دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سائنسی اور علمی اعتبار سے بھی تصوف کے مسائل کو ثابت کیا جا رہا ہے اور روحانی آسودگی کو تصوف کے دامن میں تلاش کیا جارہا ہے۔ اس کی مکمل بحث اگلے سبق تصوف اور سائنس میں آرہی ہے۔

جدید عہد میں تصوف سے بیزاری کا ایک سبب یہ ہے کہ یہودی جعلی تصوف اور ایرانی تصوف کے ذریعے جو غیر اسلامی عناصر میں شامل کیے گئے ہیں ان پر جب تحقیقی طور پر مطالعہ ہوا تو بعض اہل علم کے نزدیک تصوف معتبر نہیں رہا۔کیونکہ ایرانی اور جعلی یہودی تصوف کے ذریعے کئی کئی شکار کئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ اسلام کو نقصان پہنچانا، دوم صوفیا کو غیر معتبر کرنا، سوم امت کی حکومتی طاقت کو کمزور کرنا ،چہارم یہودیت اور عیسائیت کی عظمت کو ثابت کرنا اور دیگر کو غیر معتبر قرار دینا۔وہ تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے لیکن اہل تصوف کے سبب علمی دنیا میں لوگ بدظن ہوگئے۔

حالانکہ علم و ادب والوں کو چاہیے یہ تھا کہ تصوف سے غیر اسلامی عناصر کو خارج کرکے تصوف کے اصل عناصر کو اجاگر کر کے روحانی آسودگی کا سامان مہیا کرنا۔ تصوف کی اصل تعلیمات یہ تھیں کہ خدا ایک ہے ، اس کی عبادت صرف اور صرف اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ادا کی جائے، اس کے نور سے دل کو روشن کیا جائے ، اس کی مخلوق مساوی درجہ کی حامل ہے۔ ذات پات ،وطنی یا نسلی تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ اصل انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کا فرمان بردار ہو اور دل اس کا تمام کدورتوں سے پاک آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہو۔ انسان سے اس لیے محبت کی جائے کہ وہ اس کے خالق کی شاہکار تخلیق ہے۔یہ عہد باطنی طور پر ان عناصر کو تلاش کر رہا ہے جو اس کی روح کی تسکین کا باعث بنین۔

2.4 عمومی جائزہ

جدید عہد میں روحانی آسودگی کا بحران رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا کا نقشہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد خصوصی طور پر بدل گیا۔ سائنسی علم ، اقتصادی رفتار اور مشینی سماج نے دنیا کو چمکتی ہوئی دنیا کی طرف مائل کر دیا۔ایٹمی طاقت کی دوڑ، اقتصادی قوت اور تمام اصول و ضوابط سے آزاد زندگی نے یہ سمجھ لیا کہ اب ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ طاقت و قوت مال و دولت چمکتی ہوئی دنیا ہمارے پاس آ چکی ہے یہی کافی ہے بلکہ یہی ساری کائنات ہے۔

لیکن جب یہ سب حاصل کرلیا تو تسکین قلب نہیں، ذہنی سکون میسر نہیں اور فکر کرنے لگے آخر تسکین دل و دماغ کہاں سے حاصل ہو، تو اپنے قدما کی طرف نظر دوڑائی اور باطنی تعلیمات کی طرف رجوع کیا تو سمجھ میں آیا کہ ہمارے اسلاف کے پاس کچھ اصول و ضوابط ایسے تھے جن میں سکون و آرام تھا۔ ان میں جو ایک چیز ابھر کر آئی وہ تصوف تھا۔تصوف سے مراد اپنے خالق کے احکام کی پابندی، اس کی عبادت اور اس کی مخلوق سے ہمدردی، روحانی آہنگی ہے۔تو آج اگر اس عہد میں سو فیصد لوگ روحانیت کی طرف مائل نہیں ہیں تو کم از کم تیس سے چالیس فیصد لوگ ضرور تصوف کی طرف مائل ہوئے ہیں اور اس کی ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں۔

2.5 سوالات

  • 1. تصوف کی صورتحال جدید عہد میں کیسی ہے؟
  • 2. تصوف کی ضرورت آج کیوں محسوس کی جا رہی ہے؟
  • 3. تصوف سے اہل علم بیزار کیوں ہوئے؟
  • 4. روحانی آسودگی تصوف کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔ وضاحت کیجیے۔

2.6 امدادی کتب

  • 1. تاریخ تصوف پروفیسر یوسف سلیم چشتی
  • 2. تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش پروفیسر یوسف سلیم چشتی
  • 3. اسلامی تصوف اور صوفی ف-س- اعجاز
  • 4. ہندی ادب کی تاریخ محمد حسن
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر