Syed Mushtaq Ali Biography In Urdu | سید مشتاق علی

0
  • کتاب”جان پہچان”برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر14:مضمون
  • سبق کا نام: سید مشتاق علی

سید مشتاق علی

مشتاق علی ہندوستان کے مایہ ناز کھلاڑی تھے۔ 1914ء میں اندور میں ان کی پیدائش ہوئی۔ 15 سال کی عمر میں حیدرآباد کرکٹ ٹورنامنٹ میں ہیٹرک کی۔مشتاق علی اندور کی ہولکر ٹیم کی جانب سے رنجی کرکٹ میچوں میں حصہ لیتے تھے۔ انھیں مختلف جگہوں پر کھیلنے کا موقع ملا۔مشتاق علی دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرتے اور بائیں ہاتھ سے گیند پھینکتے یا بالنگ کرتے۔

ان کے کھیلنے کا انداز دوسروں سے الگ تھا۔ ان کی خود اپنی ایک الگ تکنیک تھی ۔ آگے بڑھ کر کھیلنا، قدموں کا توازن برقرار رکھنا اور کلائی موڑ تے ہوۓ گیند کو باؤنڈری کا راستہ دکھا دینا، ان کے کھیل کی خصوصیات تھیں ۔ اپنے کھیک میں کبھی بھی دباؤ کا شکار نہیں ہوئے۔ جلد ہی عوام میں مقبولیت حاصل کر لی۔

19 سال کی عمر میں پہلی بار ٹیسٹ میچ کے لیے انتخاب ہوا۔1936ء میں دورہ انگلستان میں سینچری بنائی۔ مانچسٹر کی دوسری اننگز میں 135 منٹ میں 192 رنز بنائے تو انگریز حیرت میں پڑ گئے۔مانچسٹر میں مشتاق علی کا کھیل دیکھ کر انگریز مبصر نے کہا کہ رانجی اور دلیپ سنگھ کے دیس سے ایک جادوگر بلے باز آیا ہے۔انگلستان میں بھی ان کے مداح تھے۔

آپ کے نزدیک سپورٹس مین سپرٹ کی بہت اہمیت تھی۔ایک مرتبہ ایک کیچ پکڑا امپائر نے آؤٹ دے دیا مگر آپ کے ضمیر نے جھوٹا کیچ گوارا نہ کیا تو آپ نے صاف انکار کر دیا یوں اپنے ساتھ ساتھ ہندوستان کی عزت کا گراف بھی بلند کیا۔ہندوستانی عوام میں مشتاق علی اتنے مقبول ہو گئے تھے کہ لوگ خاص طور پر ان کا کھیل دیکھنے کے لیے آنے لگے۔

1944ء میں بمبئی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوۓ انھوں نے دونوں اننگز میں ایک ایک سنچری بنائی۔ ان کا کھیل دیکھنے کے لیے میدان تماشائیوں سے بھرا پڑا تھا۔ دوسری اننگز میں ان کے آؤٹ ہونے پر میدان خالی ہو گیا۔ حالانکہ کھیل جاری تھا۔ اسی طرح 1946ء میں کولکاتا میں ایک ٹسٹ میچ کے لیے ان کا انتخاب نہیں ہوا تو عوام نے احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشتاق نہیں تو میچ نہیں اس وقت دلیپ سنگھ سلیکٹرتھے۔عوام کے اصرار پر انھوں نے مشتاق علی کو کھیل میں شامل کر لیا۔

آپ نے کل 30 سینچریاں اور 12660 رنز بنائے۔خوش مزاجی ان کے کرادد کی خوبی تھی۔ایک سچے انسان تھے۔ان کی خدمات کے سلسلے میں حکومت ہند نے 1964ء میں انھیں پدم شری کا اعزاز پیش کیا۔ ملبورن کرکٹ کلب نے انھیں حیاتی رکن بنایا۔ انھیں وسڈن ایوارڈ اوری ۔ کے ۔ نائیڈ وایوارڈ دیا گیا۔ 2006ء میں آپ کا انتقال ہوا۔مشتاق علی عوام کے چہیتے کھلاڑی تھے۔

سوچیے اور بتایئے:

مشتاق علی کس ٹیم کی جانب سے کرکٹ کھیلتے تھے؟

مشتاق علی اندور کی ہولکر ٹیم کی جانب سے رنجی کرکٹ میچوں میں حصہ لیتے تھے۔

مشتاق علی کے کھیل کی کیا خصوصیات تھیں؟

مشتاق علی دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرتے اور بائیں ہاتھ سے گیند پھینکتے یا بالنگ کرتے ۔ ان کے کھیلنے کا انداز دوسروں سے الگ تھا۔ ان کی خود اپنی ایک الگ تکنیک تھی ۔ آگے بڑھ کر کھیلنا، قدموں کا توازن برقرار رکھنا اور کلائی موڑ تے ہوۓ گیند کو باؤنڈری کا راستہ دکھا دینا، ان کے کھیل کی خصوصیات تھیں۔

مانچسٹر میں مشتاق علی کا کھیل دیکھ کر انگر یز مبصر نے کیا کہا؟

مانچسٹر میں مشتاق علی کا کھیل دیکھ کر انگریز مبصر نے کہا کہ رانجی اور دلیپ سنگھ کے دیس سے ایک جادوگر بلے باز آیا ہے۔

حکومت ہند نے مشتاق علی کی خدمات کا اعتراف کس طرح کیا؟

ان کی خدمات کے سلسلے میں حکومت ہند نے 1964ء میں انھیں پدم شری کا اعزاز پیش کیا۔ ملبورن کرکٹ کلب نے انھیں حیاتی رکن بنایا۔ انھیں وسڈن ایوارڈ اوری ۔ کے ۔ نائیڈ وایوارڈ دیا گیا۔

ایک ایسے واقعے کا ذکر کیجیے جس سے عوام میں مشتاق علی کی مقبولیت ظاہر ہو۔

ہندوستانی عوام میں مشتاق علی اتنے مقبول ہو گئے تھے کہ لوگ خاص طور پر ان کا کھیل دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ 1944ء میں بمبئی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوۓ انھوں نے دونوں اننگز میں ایک ایک سنچری بنائی۔ ان کا کھیل دیکھنے کے لیے میدان تماشائیوں سے بھرا پڑا تھا۔ دوسری اننگز میں ان کے آؤٹ ہونے پر میدان خالی ہو گیا۔ حالانکہ کھیل جاری تھا۔ اسی طرح 1946ء میں کولکاتا میں ایک ٹسٹ میچ کے لیے ان کا انتخاب نہیں ہوا تو عوام نے احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشتاق نہیں تو میچ نہیں اس وقت دلیپ سنگھ سلیکٹرتھے۔عوام کے اصرار پر انھوں نے مشتاق علی کو کھیل میں شامل کر لیا۔

نیچے دیے گئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے:

گوارا مہنگائی کے اس دور میں جینا گوارا نہیں۔
احتجاج عوام نے مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا۔
اعزاز مشتاق احمد نے کرکٹ کے میدان میں کئی اعزاز اپنے نام کیے۔
سراہنا ہمیں بچوں کی بہترین کارکردگی کو سراہنا چاہیے۔
حیرت میں پڑنا ہمیں چھوٹی چھوٹی بات پر حیرت میں نہیں پڑنا چاہیے۔

ذیل کے مرکب الفاظ کی ترکیب پر غور کیجئے اور ہر جزو کے بارے میں بتائیے کے وہ “اسم” ہے یا “صفت” ، ” سابقہ” ہے یا “لاحقہ”.

  • مثال: جہانگیر= جہاں (اسم) ، گیر (لاحقہ)
  • لوک گیت= لوک(سابقہ) ، گیت(اسم)
  • بلند حوصلہ= عالی(سابقہ) ،حوصلہ(اسم)
  • بلے باز= بلے(اسم) ، باز (لاحقہ)
  • جادوگر= جادو(اسم) ،گر(لاحقہ)
  • یادگار= یاد(اسم) ،گار (لاحقہ)
  • عہد نامہ= عہد(اسم) ،نامہ(لاحقہ)
  • پرکشش= پر(سابقہ) ،کشش( اسم)