سید شبیہ الحسن

0

تعارف

سید شبیہ الحسن 27 اکتوبر 1958 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ایم اے اُردو، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ایسے عالِم تھے کہ جب کسی تقریب میں طلبہ سے خطاب کرتے تھے تو تمام طلبہ اور اساتذہ ڈاکٹر صاحب کے لیکچر کو سننا اپنی خوش بختی سمجھتے تھے۔ 

ڈاکٹر صاحب کو طلبہ سے بڑی محبت تھی۔ طلبہ سے خطاب کے دوران ڈاکٹر صاحب کے جوش و جذبہ دیدنی ہوتا تھا۔ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن ہاشمی کے تو سبھی کام خدا کو پسند آنے والے ہی تھے، وہ علم کی پیاس بجھاتے تھے، علم کا نور عام کرتے تھے، ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے، شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، وہ حمد، نعت مرثیہ، قصائد، مناقب لکھ کر خدا کی برگزیدہ اور محبوب ہستیوں کی رضایت حاصل کرتے تھے۔ وہ پیامبری پیشہ سے منسلک تھے۔

تنقید نگاری

الفاظ جب تخلیق کا لبادہ اوڑھ کر ایک حسنِ ترتیب سے جملوں میں قطار بندی کرتے ہیں تو اسلوبیاتی نظام وجود میں آتا ہے۔ لسانی رموز و اوقاف سے گہری واقفیت ایک نقاد کے لیے بہت ضروری ہے تاکہ فن پارے کے جملہ محاسن و قبیح کا ایک جامعہ منظر نامہ پیش کیا جاسکے۔ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن کا یہ طرّہ امتیاز تھا کہ وہ فن پارے پر تنقید سے قبل فن پارے کی لسانی و اسلوبیاتی عمارت کا جائزہ ایک ماہر تعمیرات کی طرح لیتے ہیں۔ آپ تنقید میں تخلیق کار کی زبان دانی اور فنی صلاحیتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ آپ کی تنقید نے جدت کی کوکھ میں جنم لیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انھوں نے روایت سے دامن گیر رہنے کی بھی ٹھانے رکھی تھی۔

شخصیت

 ڈاکٹر صاحب خطاب مختصر کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ سٹیج کو اس وقت چھوڑ دو جب عروج پر ہو، لوگ تالیاں بجا رہے ہوں اور آپ کو سننا چاہتے ہوں۔ اس کے برعکس وہ مقرر بڑا بد قسمت ہوتا ہے جس کی طویل اور بور تقریر سن کر لوگ اس کے جانے کی تمنا کریں۔ سامعین و ناظرین کو اپنے ساتھ ساتھ چلانے کا فن ڈاکٹر صاحب کو خوب آتا تھا۔ مجال ہے جو کوئی اکتاہٹ کا شکار ہو۔

ڈاکٹر صاحب کے مزاج اور طرزِ معاشرت میں سادگی تھی۔  اعلیٰ مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ سب حاضرین کے لیے چائے خود بناتے۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، اپنے ہاتھ سے چائے پیش کرتے، اگر کوئی طالب علم مٹھائی لے کر آتا تو وہیں ڈبا کھول کر سب کی خدمت میں پیش کرتے ، خود بھی میٹھے کے شوقین تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے، دنیا میں آج تک کوئی بھی انسان صرف شوگر کی وجہ سے نہیں مرا۔ کبھی کبھی دوران گفتگو کوئی اہم مسئلہ پیش آ جاتا تو انتہائی دقیق سے دقیق مسائل بڑی آسانی سے حل فرما دیتے۔ اﷲ تعالیٰ نے انھیں اس خوبی سے نوازا تھا کہ ہر مشکل امر ان کے پاس آ کر آسان لگتا تھا۔ بہت سے مسائل فون پر ہی حال کر دیتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب دوستوں کے خوشی کے لمحات میں کبھی پیچھے نہیں رہتے تھے۔ اس معاملے میں وہ سب سے آگے ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور نیک خصلت یہ بھی تھی کہ وہ دوسروں کو بہت بڑھاوا یعنی عزت دیتے تھے۔

ظاہری شخصیت

ڈاکٹر صاحب کا چہرہ ہر وقت ہشاش بشاش رہتا تھا۔ چہرہ گول ، بھرا ہوا، رنگ سفید، مونچھیں درمیانی اور تراش خراش عمدہ ہوتی تھی، بھنویں گھنی تھیں، آنکھیں چمکتی ہوئی جو عینک کے پیچھے سے بھی روشن تھیں، ناک تیکھی چہرے پر سجتی تھی، ڈاڑھی نہیں تھی، اکثر شیو کر کے رکھتے تھے، کبھی کبھی شیو نہ کرتے تو ہلکے ہلکے سفید بال چہرے پر آ جاتے تھے جو بہت بھلے معلوم ہوتے تھے، قلمیں چھوٹی اور بال کانوں سے چھوٹے اور درمیان میں تھوڑے سے گھنے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کبھی مانگ نکال لیتے تھے اور کبھی ان بالوں کو سیدھا ہی رہنے دیتے تھے۔ آپ پینٹ کوٹ کے ساتھ شرٹ اور ٹائی میچنگ پہنتے تھے تو آپ کی شخصیت او ربھی زیادہ جاذبِ نظر ہو جاتی تھی۔ آپ کا لباس نفاست کا عمدہ ترین نمونہ ہوتا تھا۔

تصانیف

  • آپ کی چند تصانیف کے نام درج ذیل ہیں :
  • مفاہیم ( مقالات)
  • ترجیحات (مقالات)
  • اردو مرثیہ اور مرشیہ نگار( مقالات)

آخری ایام

۱۹ مئی ۲۰۱۲ء کے دن جب آپ کو شہید کیا گیا تب ہر ایک کے پاس ان کی شفقت پدری ، محبت ، الفت، ہنسی مزاح، اُنس، شگفتگی اور تعلق خاطر کی ایک نہ ختم ہونے والی مہربانی کی ایک داستان تھی جو وہ موقع ملنے پر دوسروں کو سنانے کی کوشش کرتا تھا کہ شاید اس سے اس کے بے قرار دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے اور بوجھل دل کو کسی طور قرار آ جائے۔