تدوین حدیث کے ادوار

0
  • سبق نمبر 32:

سوال۱: تدوین احادیث کے تینوں ادوار کا تفصیلی جائزہ پیش کریں۔

جواب: یہ بات واضح ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ اور آپ ﷺ کے مورخین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا باہمی تعلق ایک عینی شاہد کا تھا جس کی بنیاد عشق و سرمستی اور والہانہ محبت اور عظمت واطاعت پر قائم تھی اور جوہر بات سے قطع نظر کرکے صرف اپنے پیارے رسولﷺ کی محبت میں محو ہو جانے کا تہہ کئے ہوئے تھے اور آپﷺ کے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ تھا پھر جب ان کے رسولﷺ نے یہ تاکید کی کہ میرے ہر عمل کو دوسروں سے بیان کرو اور جو بندحجرہ میں دیکھتے ہو، اسے چھت پر چڑھ کر علی الاعلان بیان کرو لیکن ساتھ ہی اس کی تہدید(یعنی تاکید) بھی کہ”مجھ سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے گا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔“

یہ ایسی ذمہ داریاں تھیں کہ ان سے عہدو برآ ہونا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا اس لئے وہ اپنے رسولﷺ کی تاریخ معمولات اور ہرہر بات کو دوسروں تک پہنچانے اور من و عن بیان کرنے کو اپنی زندگی کا سب سے اہم فریضہ سمجھنے لگے تھے اور ہر ہر پہلو سے اس ذمہ داری کو قبول کرچکے تھے اور جب حضورﷺ نے اپنے خطبہ میں یہ ارشاد فرمادیا کہ ”اللہ اس بندے کو تروتازہ رکھے جس نے میری بات سنی پھر اسے یاد رکھا اور جس نے نہیں سنا ہے اس تک پہنچا دیا۔“تو اس وقت کے خوش نصیب صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسےاپنا فریضہ زندگی بتالیا تھا۔ پھر فرمایا کہ”تم انہیں یاد رکھو کیونکہ تم سے سنا جائے گا۔“

یہی وجہ تھی کہ صحابہ اکرم رضی اللہ عنہم جن تعلیمات کی نشرواشاعت کے ذمہ دار ٹھہرائےگئےتھے اس کو چھپانا گناہ عظیم سمجھتے تھے انہیں حضورﷺکا یہ ارشاد بھی یاد تھا کہ”جس کسی سے کوئی علم کی بات پوچھی جائے اور اسے وہ چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی جس کا نتیجہ تھا کہ جان کنی کا عالم ہے اور ان سے کوئی سوال کرتا ہے تو اس نازک وقت میں بھی محض اس خیال سے کہ علم کے چھپانے کا الزام ان پر عائد نہ ہوا آخری لمحات تک حدیث بیان کرتے جاتے تھے اور یہ تہدید(تاکید) بھی ان کے سامنے رہتی تھی کہ کہیں بھول چونک نہ ہوجائے اور ان کے تمام اعمال اکارت نہ جائیں اور کہیں ان کا ٹھکانہ جہنم نہ ہو۔“

ظاہر ہے کہ جو لوگ ایمان و ایقان کی دولت سے سرفراز تھے وہ کسی عنوان اللہ کے رسولﷺ پر جھوٹ باندھنے کی کس طرح جرأت کرسکتے تھے اور ان کی اعلیٰ کردار سے یہ توقع کس طرح کی جا سکتی تھی کہ وہ خود کا حکم قرآن کے مطابق ظالم کس طرح قرار دے سکتے تھے اس لئے وہ اپنی اس اہم ذمہ داری سے کس عنوان بے اعتنائی اور لاپرواہی اختیار نہ کر سکتے تھے اس کی مثال یہ کہ احادیث نبوی ﷺ کے سب سے بڑھ کر روای حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا عام طریقہ تھا کہ کسی حدیث کو بیان کرنے سے پہلے وہ حضور نبی اکرمﷺ کی اس تہدید (تاکید) کو بیان کیا کرتے کہ ”جس سے قصداً مجھ پر جھوٹ باندھا اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لے۔“ اس کے بعد احادیث بیان کیا کرتے تھے۔

سوال۲: حدیث کی حفاظت و تدوین بیان کریں۔

جواب: حضورﷺ کے زمانے سے ہی چلتے پھرتے نسخوں کا تھا اور وہ حدیث کے چلتے پھرتے نسخے اور تدوین حدیث کے بارے میں بہت بڑا ذخیرہ اصل میں ان کی حفاظت اور روایت کا نتیجہ ہے اور یہ واقعہ ہے کہ ہمارے یہاں حدیث کا ایک حصہ تواتر کے ذریعہ ہی پہنچا اور اسے متعدد صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے مسلسل روایت کیا ہے۔

کتابت حدیث کا دوسرا ذریعہ حفاظت کے ساتھ کتاب شکل میں تدوین اور مرتب کیا گیا جس کے لئے اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہجرت کے فوراً بعد ہمیں پہلا ”تحریری دستور مملکت“ کتاب حدیث کا ثبوت فراہم کرتا ہے اس کے علاوہ ہجرت کے ابتدائی زمانہ میں حضورﷺ نے مردم شمادی کرائی جو تحریری تھی پھر سرکاریدستاویزات اور معاہدات اور پروانوں وغیرہ کی ابتداء تو ہجرت سے پہلے ہوچکی تھی۔

ان کے علاوہ تمیم داری کو فلسطین کا شہر جبرون تحریری پروانے کے ذریعہ جاگیرمیں دیا گیا ان کے علاوہ سراقہ بن مالک کو پروانہ امن تحریری دیا گیا اور ۱ھ؁ میں قبیلہ سے حلیفی معاہدہ اور بنی صفرہ سے معاہدہ تحریری ثبوت اسی طرح دیکھے جا سکتے ہیں تو صدباکتابت شدہ معاہدات کا ثبوت آج بھی موجود ہے ان سب کے علاوہ قیصر و کسریٰ، مقوقس اور نجاشی وغیرہ حکمرانوں کو تبلیغی خطوط بھیجے گئے علاوہ ازیں جزیرہ نمائے عرب کے آس پاس حضورﷺ نے گورنروں اور قاضیوں وغیرہ کو وقتاً فوقتاً ہدایات اور فرامین تحریری شکل میں روانہ فرمائے اور تحریروں کے لئے حضور ﷺ کا ایک مہر نبوت تیار کرنا بھی واقعہ ہے۔

شروع میں آپﷺ نے فرمایا”کہ اے مسلمانو! تم قرآن کے علاوہ میری کوئی بات نہ لکھا کرو لیکن تحقیق سے اس بارے میں معلوم ہوا کہ اس زمانے کا تعلق ابتدائے اسلام سے تھا یا اسے لوگوں سے یہ فرمایا گیا تھا جو تازہ مسلمان ہوئے تھے اور قرآن و حدیث میں فرق نہ کر سکتے تھے مگر جنہیں قرآن اچھی طرح یاد تھا اور جن کی صلاحتیوں پر اطمینان تھا تو صرف یہی نہیں کہ احادیث لکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی بلکہ انہیں لکھنے کی ترغیب بھی کی تھی اس کی مثال یہ ہے کہ ایک انصاری نے اپنے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ”اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لو“ گویا لکھ لیا کرو۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ وحضور ﷺ کی اجازت سے احادیث نبویﷺ لکھا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایک ہزار احادیث کا مجموعہ مرتب کر لیا تھا۔ان کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حجرے عمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حدیثیں جمع کیں اور لکھیں، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پڑھ تو لیتی تھیں مگر لکھتی نہ تھیں۔

چنانچہ ان سے احادیث نبویﷺ ان کے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ام المومنین رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ احادیث کے علاوہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہا اجمعین سے بھی روایت کردہ احادیث لکھیں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری شاگرد عمرہ رضی اللہ عنہ بنت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اور قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ تھے اس کے پاس بھی احادیث کا بڑا ذخیرہ تھا اس کے علاوہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پانچ سو احادیث کا مجموعہ تیار کیا تھا اسی طرح عمر بن العزیز رضی اللہ عنہ نے بھی احادیث نبوی ﷺ کو حکومت کی جانب سے جمع اور تحریر کرنے کا حکم دیا ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے پیچھے اتنی احادیث کے نسخت چھوڑے کہ وہ ایک اونٹ پر لاد کر لائے گئے۔