طالب بنارسی ڈرامہ نگاری | Talib Banarasi Biography

0

تعارف

طالب بنارسی کا اصل نام ونائک پرساد منشی تھا۔ آپ ۱۸۵۵ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ آپ نے وارانسی سے تعلیم حاصل کی۔ طالب بنارسی نے قانون اور زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔  طالبِ  علمی کے زمانے میں انہوں نے اخلاقی ، تہذیبی ، اور سیاسی موضوعات پر مضامین شائع کئے ، اور اردو کے نامور شعراء ناسخ اور داغ کی رہنمائی میں آیات مرتب کیں۔ انہیں قانونی کام میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی۔ طالب بنارسی کلکتہ چلے گئے جہاں انہیں محکمہ ڈاک میں ملازمت ملی۔

ڈراما نگاری

آپ کو اُردو، فارسی اور انگریزی ادب سے گہری دلچسپی تھی۔ مشہور ادبی رسائل میں طالب بنارسی کا کلام شائع ہوتا رہا۔ اسی زمانے میں تھیٹر دیکھتے دیکھتے ڈرامے لکھنے کا شوق ہوا اور بمبئی چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر بیس سال تھی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ موسیقی سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ رونق کی موت کے بعد ، آپ بمبئی منتقل ہوئے تو ان کے سرکاری مصنف مقرر ہوگئے۔ وکٹوریہ ناٹک منڈلی میں منشی رونق کی جگہ ڈراما نگار مقرر ہوئے تو جلد ہی مشہور ہو گئے۔ طالب بنارسی کی پہلی ذمہ داری رونق کی سنگین بکاولی یعنی ‘پیٹرفائڈ بکاوالی’ اور عاشق کا خون یعنی ‘ایک پریمی کا قتل’ پر نظر ثانی کرنا تھی۔ جس دور میں طالب کا ادبی سفر شروع ہوا وہ ہندوستان کی سیاسی و معاشی بدحالی کا زمانہ تھا۔ عوام پر زندگی گراں ہونے لگی تھی۔ معاشرے میں بدامنی، انتشار اور اخلاق پستی کا دور دورہ تھا۔

  • سن 1880 اور 1911 کے وسط کے درمیان ، طالب طنارسی نے ایک درجن سے زیادہ ڈرامے تصنیف کیے، چھوٹی چھوٹی باتیں انہیں پرانے کہانیوں کے بتانے والوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان کے ڈراموں کی زبان فصیح اور شستہ تھی۔ ڈرامائی تدبیر کاری اور پلاٹ کے لحاظ سے بھی ان میں ترقی کے آثار تھے۔ مکالموں کی برجستگی کے باعث ان کے ڈرامے بہت مقبول ہوئے۔ گانوں کے بول مترنم اور سلیس اُردو میں ہوتے تھے، جو اپنی دھنوں کی دلکشی کی وجہ سے پسند کیے گئے۔ ان کے ڈراموں کی تعداد پندرہ ہے ان میں ؛
  • ’’لیل و نہار‘‘،
  • ’’نل دمینتی‘‘،
  • نگاہِ غفلت‘‘،
  • ’’دلیرِ دلشیر‘‘،
  • ’’راجا گوپی چند‘‘،
  • ’’ہریش چندر‘‘،
  • ’’سنگین بکاؤلی‘‘،
  • ’’بکرام بلاس ‘‘ اور
  • ’’الہ دین‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ 

اسلوب

اردو کے کلاسیکل ڈراما نگاروں میں طالب بنارسی خصوصی انفرادیت کے مالک ہیں۔ شاعری میں انہوں نے روایت کا احترام بھی کیا ہے اور نئے خیالات و رحجانات کو بھی اختیار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ڈراموں میں اصلاحی پہلو پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اس دور کے ڈراموں کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ ان ڈراموں میں اخلاق سوز واقعات اور فحاشی کو بڑا دخل ہے، لیکن طالب کے ڈرامے ان سب سے بالکل پاک ہیں۔ انھوں نے ڈراموں میں ہمیشہ ایسے واقعات پیش کیے جو ہمارے اخلاق کو نکھار سکیں۔

آخری ایام

طالب بنارسی کا انتقال سن 1919ء میں ہوا۔