ترقی پسند تحریک کا آغاز، پس منظر اور ادبی خدمات

0

ترقی پسند تحریک آغاز و ارتقاء:

ترقی پسند تحریک کا با قاعدہ آغاز اپریل 1936 ء کی اس کانفرنس سے ہوتا ہے جس کی صدارت پریم چند نے کی تھی۔ پریم چند نے اپنے صدارتی خطبے میں ادب کی غرض وغایت بیان کی، ادیبوں کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا اور اس جلسے کو ادب کی تاریخ میں ایک یادگار واقعہ قرار دیا۔اس خطبے میں انہوں نے کہا کہ:
” ہم اپنے آپ کو ہندوستانی تہذیب کی بہترین روایات کا وارث سمجھتے ہیں اور ان روایات کو اپناتے ہوئے ہم اپنے ملک میں ہر طرح کی رجعت پسندی کے خلاف جدوجہد کر یں گے اور ہر ایسے جذبے کی ترجمانی کریں گے جو ہمارے وطن کو ایک نئی اور بہترین زندگی کی راہ دکھائے ۔“

ترقی پسند تحریک کی بنیاد لندن میں رکھی گئی۔ 1930 ء میں لندن میں چند ہندوستانی طالب علموں نے اپنے ملک کے سیاسی و سماجی حالات کے تناظر میں انسانیت کی خدمت کا خواب دیکھا اور انفرادی طور پر سعی و جستجو کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر تمام زبانوں کے تخلیق کاروں کو ہمراہ لے کر ہندوستانیوں کو پستی ، غلامی ، مظلومی اور استحصال سے آزاد کرانے کا عزم کیا۔

اس تحریک سے متعلق اور اس کے نظریوں سے اتفاق رکھنے والے ادیبوں نے اپنی اپنی زبان کے ادب میں ترقی پسند خیالات کی تبلیغ و تشہیر کی اور اس طرح اس تحریک نے پورے ہندوستان میں اور ہندوستان کی بیشتر زبانوں میں اپنے وجود کا احساس دلایا۔ دراصل ترقی پسند تحریک کا بنیادی مقصد ادب کے وسیلے سے انسانیت کا نشاۃ ثانیہ تھا۔ اس اجلاس کی صدارت شہرہ آفاق ادیب منشی پریم چند نے کی تھی۔

اردو کے معروف ادیبوں اور شاعروں نے اس تحریک کی سر پرستی کی جن میں منشی پریم چند، مولوی عبدالحق، مولانا حسرت موہانی جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، سجادظہیر، فیض احمد فیض، ملک راج آنند، عزیز احمد وغیرہ شامل تھے۔ اس کانفرنس کے بعد ہی اس تحریک نے اپنی مسلم صورت اختیار کی اور مختلف زبانوں کے ادبیوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی داغ بیل ڈالی۔

یہ تحریک اس دور میں اس حد تک اثر انداز ہوئی کہ پرانے اور تجربہ کار قلم کاروں کے ساتھ ساتھ ہر نیا لکھنے والا اس تحریک سے خود کو وابستہ کرنے میں فخر محسوس کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے بعد یعنی بیسویں صدی کی چوتھی پانچویں دہائی میں ترقی پسندی نے فیشن کی صورت اختیار کر لی تھی لیکن 1950ء کے بعد تحریک میں ایک طرح کا جمود آ گیا جو کہ آزادی ہند اور تقسیم ہند کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تحریک میں از سرنو زندگی پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اسے عروج تو حاصل نہ ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جدید بیت سر ابھار نے لگی تھی۔ جدیدیت کی تحریک کو بھی اردو ادب کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔

پسِ منظر:

اس تحریک کے پسِ منظر کو دیکھا جائے تو ایک وقت آیا جب برطانوی حکومت اور سرمایہ دار طبقہ کے خلاف غم وغصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ لہذا ہندوستانی نو جوانوں نے، جن میں سجاد ظہیر، ملک راج آنند ، جیوتی گھوش محمد دین تاثیر اور پر مود سین گپتا وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، انڈین پروگریسیو رائٹرس اسوسی ایشن قائم کی۔ پھر اس کا اعلان نامہ تیار کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہندوستان کے نئے ادب کو ہماری موجوہ زندگی کی بنیادی حقیقتوں کا احترام کرنا چاہیے۔

ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری اس کے علاوہ اس اسوسی ایشن نے ایسی تجاویز بھی پیش کیں جن کی بنیاد پر ادیبوں کو اور اس اسوسی ایشن کو آگے کی کاروائی کرنی تھی۔ مثلاً ”ہندوستان کے مختلف لسانی صوبوں میں ادیبوں کی انجمنیں قائم کرنا ان انجمنوں کے درمیان جلسوں اور پمفلٹوں وغیرہ کے ذریعے ربط و تعاون پیدا کرنا۔صوبوں کی، مرکز کی اور لندن کی انجمنوں کے درمیان تعلق پیدا کرنا، ترقی پسند ادب کی تخلیق اور ترجمہ کرنا جوصحت مند اور توانا ہو جس سے ہم تہذیبی پسماندگی کومٹا سکیں اور ہندوستانی آزادی اور سماجی ترقی کی طرف بڑھ سکیں وغیرہ۔

اس گروپ نے اپنی پہلی با قاعدہ میٹنگ لندن کے ایک چینی ریستوران نان کنگ میں ملک راج آنند کو صدر منتخب کیا گیا۔ اس کانفرنس میں میکسم گورکی ، آندرے مارلو ،ای ایم فاسٹر، آراگان بورس پاستریک اور رومین رولاں جیسے ممتاز ادیبوں نے شرکت کی تھی اور انہوں نے جو تجاویز منظور کی تھیں ان میں انسانیت کی بالا دستی اور مظالم کی سرکوبی کے عزائم کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔

پوری دنیا کے ادیبوں کومتحد کرنے کی یہ ایک بہت بڑی اور کامیاب کوشش تھی۔ اس کانفرنس سے انڈین پروگریسیو رائٹرس اسوسی ایشن کے ارکان کو اپنے مقاصد کو تیزی سے عملی جامہ پہنانے کی ترغیب ملی اور انہوں نے اپنی کوشش لندن کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے اعلان نامے کو ہندوستان کے اہم ادیبوں تک پہنچایا۔ پریم چند نے اس کی زبردست حمایت کرتے ہوئے اسے اپنے رسالے ”ہنس“ میں شائع کر دیا۔

مجموعی طور پر پورے ملک میں اس اعلان نامے کا خیر مقدم کیا گیا۔ 1935 ء کے آخر میں سجادظہیر ہندوستان واپس آ گئے۔ انہوں نے مختلف علاقوں اور مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے ادبیوں سے رابطہ قائم کیا۔ اس سے پہلے انگارے کے افسانوں نے ماحول کو کافی گرم کر دیا تھا جس کے مصنفین میں سجاد ظہیر احمد علی محمود الظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں شامل تھے۔ان میں سے موخر الذکر تین ادیبوں نے ہندوستان میں ترقی پسند نظریات کی تبلیغ سجاد ظہیر کی آمد سے پہلے ہی شروع کر دی تھی۔ اندرون ہندوستان اور لندن میں کی گئی تمام جد و جہد کا نقطہ عروج اپریل 1936ء میں لکھنو میں منعقدہ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کی صورت میں سامنے آیا۔

اور دوسرا نرم گرم رویے والوں کا مانا تھا کہ آزادی کسی بھی طرح سے حاصل کر لینی ہے۔ اس کے لیے خون دینا بھی پڑسکتا ہے اور خون بہانا بھی پڑ سکتا ہے۔ اس گروپ کے مشہور نام آربندو گوش، چین چندر پال، لالہ لاجپت رائے اور بال گنگھا دھر تلک وغیرہ تھے۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں دو طرح کے رویے سرگرم تھے جن میں سے ایک گرم رویہ تھا جن کا ماننا تھا کہ آزادی کس بھی طرح حاصل کرنی ہے، اس کے لیے خون دینا اور لینا بھی پڑ سکتا ہے۔جبکہ نرم رویے والوں کا خیال تھا کہ آزادی ستیہ گرہ اور بھوک ہڑتال وغیرہ کے ذریعہ یعنی امن وامان سے تحریک چلاتے ہوئے حاصل کی جائے۔ اس کا سب سے مضبوط طریقہ بات چیت اور افہام و تفہیم کو قرار دیا گیا۔ گاندھی جی اس میں پیش پیش تھے۔

بہر حال دونوں ہی نظریوں کا مقصد حصول آزادی تھا لہذا پورے ملک میں آزادی کی تمنا جاگ اٹھی اور گاؤں گاؤں قریوں قریوں سے آزادی کی مانگ ہونے لگی۔ کہیں ہندوستانی جھنڈے لگا دیے جاتے تو کہیں برطانوی جھنڈے جلا دیے جاتے۔ کہیں نعرے لگائے جاتے تو کہیں قومی گیت گائے جاتے۔ غرضیکہ پورا ملک عملی یا نظری طور پر تحریک آزادی میں شریک ہو گیا تھا۔

ہندوستان میں پہلی جنگ عظیم 1914ء کا بھی اثر ہوا۔ اس تعلق سے ایک مضمون لکھنے پر بال گنگا دھر تلک کو چھ سال کی جیل ہوگئی۔ ملک کے سوت کارخانوں میں ہڑتالیں ہونے لگیں۔ اسی دوران جلیانوالہ باغ کا واقعہ پیش آ گیا جو ہندوستانیوں کو بہت گراں گزرا۔ جنرل ڈائر نے ہزاروں نہتے ہندوستانیوں پر گولی چلوا دی۔ 1917ء میں انقلاب روس نے بھی ہندوستانیوں کے جذبے کو مہمیز کیا اور لوگ ایک آزاد ملک کا خواب دیکھنے لگے۔قومی اور عالمی دونوں ہی سطحوں پر یہ دور شکست و ریخت اور کش مکش کا دور تھا۔

ہندوستان کا ہر طبقہ اس سے متاثر تھا۔ دانشور طبقہ اور ادیب حضرات بھی اس کا اثر قبول کیے بغیر نہیں رہ سکے اور پھر جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ لندن میں موجود ہندوستانی طلبہ نے میٹنگ کی اور بتدریج اس آگ نے پورے ہندوستان کے ادبیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ علی گڑھ تحریک کے بعد ترقی پسند ادبی تحریک دوسری شعوری تحریک تھی جس کے زیر اثر ہمارے ادب کو بعض بڑی تبدیلیوں سے دو چار ہونا پڑا۔ جن لوگوں نے اردو ادب کے مختلف شعبوں کا توجہ سے مطالعہ کیا ہے اور زمانہ حال کے ادبی رجحانات کو اپنی تحقیق وتنقید کا موضوع بنایا ہے ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ہماری زبان میں شعر وادب کا ایک ذخیرہ اس تحریک کی پیداوار ہے۔ ترقی پسند معلمین کے نام سے ہمارے ملک میں جوتحریک 1935 ء میں شروع ہوئی اس کی یہ خصوصیت مد نظر رکھنی چاہیے کہ یہ پہلی ادبی تحریک تھی جس نے نہ صرف یہ کہ پورے ملک کے ادبیوں کو ایک نظریاتی رشتے میں منسلک کرنے کی کوشش کی بلکہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی اتحاد و اشتراک کا ایک وسیلہ بن گئی۔

ترقی پسند تحریک اور ادب:

ترقی پسند تحریک اور اردو شعرا

شاعر اور ادیب ہمارے معاشرے کا حساس طبقہ ہوتے ہیں۔معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں سے وہ پریشان ہوتے ہیں اور اپنی پریشانی اور بے چینی کا اظہار تحریروں کی صورت میں کرتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے پیغام کو پھیلانے میں بھی ان ادیبوں نے اہم کرادر ادا کیا۔ترقی پسند تحریک کو ہندوستانی تناظر میں دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحریک بیک وقت ادبی اور سماجی دونوں سطحوں پر کام کر رہی تھی۔ ادیبوں نے ادب کی ادبیت کو ہمیشہ اولیت دی ہے تاہم پہلے ادیب حضرات ادب کے ذریعے اخلاقی اصلاح کی کوشش کرتے تھے۔

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر قلمکاروں نے ساجی انصاف اور مساوات کے پیغام کو بھی عام کرنا شروع کر دیا۔ اس کی پیروی نظم و نثر دونوں میں ملتی ہے۔ایک طرف پریم چند،راجندرسنگھ بیدی ،سعادت حسن منٹو ،کرشن چندر اور عصمت چغتائی وغیرہ فکشن میں اپنے کمالات دکھا رہے تھے تو دوسری طرف فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، معین احسن جذبی، ساحر لدھیانوی جاں نثار اختر، مجروح سلطانپوری، کیفی اعظمی اور نیاز حیدر وغیرہ اپنی شاعری کے ذریعے اس تحریک میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔

اختر حسین رائے پوری، خلیل الرحمن اعظمی، احتشام حسین، علی سردار جعفری، ممتازحسین، مجنوں گورکھپوری اور پروفیسر قمر رئیس وغیرہ ایسے ناقدین ہیں جن کے تنقیدی افکار اس تحریک کے مقاصد سے ہم آہنگ رہے ہیں۔ترقی پسند تحریک کے علم بردار شاعروں میں فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، معین احسن جذبی، ساحر لدھیانوی، جان نثار اختر، مجروح سلطانپوری، اختر الایمان، کیفی اعظمی اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

فیض احمد فیض کو ترقی پسند شعرا میں اہم مقام حاصل ہے۔ فیض غزل کی کلاسیکی روایت سے بھی مستفید ہوئے اور انقلابی فکر سے بھی استفادہ کیا۔ دونوں کو ہم آہنگ کر کے ایک نئی کیفیت پیدا کی۔انہوں نے انقلابیت کی خاطر تغول اور تغزل کی خاطر انقلابیت کو بھی قربان نہیں کیا۔ ن ۔م۔ راشد نے فیض کے پہلے مجموعہ کلام کے تعلق سے کہا کہ یہ ایک ایسے شاعر کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے جو رومان اور حقیقت کے سنگم پر کھڑا ہے۔

ترقی پسند تحریک کے دور آغاز سے ہی فیض اس میں دلچسپی لینے لگے اور عملی طور پر اس تحریک کی ترقی کے لیے کوششیں کیں۔تحریک سے وابستگی کے بعد فیض کی شاعری کا موضوع رومانی کے بجائے اشتراکی بن گیا۔ انہیں عشق و محبت کی بجائے معاشرے کے مسائل اور کمزور طبقے کے لوگوں کے دگرگوں حالات زیادہ اہم محسوس ہوئے۔ اس احساس کی ترجمانی ان کی نظم ” مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘ سے ہوتی ہے۔

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا گیا ہے
تو جو مل جاۓ تو تقدیر سرنگوں ہو جاۓ
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جاۓ
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مخدوم محی الدین کا شمار صفِ اول کے ترقی پسند شعرا میں کیا جاتا ہے۔ مخدوم بہت ہی ذہین اور کھلے ذہن کے انسان تھے۔ انہیں بچپن سے ہی مطالعے کا شوق تھا۔ دوران طالب علمی انہوں نے مارکسزم کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس کے قائل ہوتے چلے گئے۔ ان کی نو جوانی کے زمانے میں ترقی پسند تحریک کا با قاعدہ آغاز ہوا۔ تحریک سے نظریاتی ہم آہنگی کے سبب مخدوم اس سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے حیدرآباد میں ترقی پسند مصنفین کی شاخ قائم کی۔

مخدوم کی ابتدائی دنوں کی شاعری میں جمالیاتی اور خوشگوار احساس موجود ہے۔انہوں نے عشقیہ اور رومانی نظمیں پورے جوش و جذبے کے ساتھ لکھی ہیں۔ محبت کی چھاؤں، نالہ حبیب، انتظار، سجدہ نورس وغیرہ اس کیفیت کے اظہار کی مثالیں ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ مخدوم کے ذہن اور موضوعات میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ ان کی شاعری رومان سے انقلاب کی طرف کوچ کرنے لگی۔ انہوں نے اپنے نظریے کو عام کرنے اور عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے انقلابی نظموں کا سہارا لیا جو پورے جوش وخروش کے ساتھ جلسوں اور جلوسوں میں پڑھی اور گائی جاتی تھیں۔ آتش کدہ قمر سپاہی وغیرہ ان کی ایسی ہی نظمیں ہیں۔

کررہا ہے سیاہی کا ڈرا
ہورہا ہے مری جاں سویرا
او وطن چھوڑ کر جانے والے
کھل گیا انقلابی پھر میرا
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جا رہا ہے

مخدوم نے عام روش کے مطابق ابتدائی دنوں میں رومانی شاعری کی لیکن جلد ہی انقلابی شاعری کرنے لگے۔ مخدوم بنیادی طور پر سیاسی آدمی تھے۔ ملازمت ترک کر کے کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔” اعتدال اور سنجیدگی‘ مخدوم کے کلام کی خصوصیت ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات میں عموماً مزدور کی زبوں حالی، نچلے اور دبے کچلے طبقے پر مظالم و بربریت اور ان کا استحصال وغیرہ شامل ہوتا ہے۔ان کا پہلا مجموعہ’سرخ سویرا‘ اور دوسرا مجموعہ ‘گلِ تر’ ہے۔

علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دنوں سے ہی اس سے وابستہ ہو گئے تھے۔ پریم چند نے تحریک کے با قاعدہ آغاز پر جو صدارتی خطبہ دیا تھا اس سے متاثر ہوکر سردار جعفری نے نظمیں سرمایہ دار لڑکیاں‘ اور دیہاتی لڑکیاں‘ لکھیں۔ یہ دونوں نظمیں ان کے پہلے مجموعے ” پرواز‘ میں شامل ہیں۔ ان نظموں سے ان کا منشا واضح ہو جا تا ہے۔

وہ صنعتوں، ذومعنویت، پیچیدگی اور صناعی کی بجائے راست بات کرنے کے قائل تھے۔ ان کے یہاں سختی اور جارحانہ رویہ نہیں ملتا ہے۔ بلکہ وہ اپنی بات دلائل سے ثابت کرنے کے قائل تھے۔ جن باتوں پر ان کا یقین ہو جا تا تھا وہ انہیں بلا جھجک اور قطعیت سے کہتے تھے۔ وہ ایک بہترین مقرر تھے۔ ان کا خطیبانہ انداز لوگوں کو بہت پسند آتا تھا۔ جعفری کا یہی لہجہ یہی ڈکشن اور انداز ان کی نظموں میں بھی ملتا ہے۔

انہوں نے تخلیقی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا تھا۔ بعد میں شاعری کی طرف راغب ہوئے۔ ان کا شمار اس تحریک کے قافلہ سالاروں میں کیا جا تا ہے۔انہوں نے ہنگامی اور موضوعاتی “ شاعری کی۔ تنقیدی مضامین بھی لکھے جسے ادبی دنیا میں کافی سراہا گیا۔ سردار جعفری، جوش ملیح آبادی سے کافی متاثر تھے۔ اس لیے ان کی نظموں میں جوش کا رنگ ملتا ہے۔ نئی دنیا کو سلام، ایشیا جاگ اٹھا اور زنداں نامہ ان کی اہم نظمیں ہیں۔

ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
ان ہاتھوں کی تکریم کرو
دنیا کو چلانے والے
ان ہاتھوں کو تسلیم کرو

اسرار الحق مجاز ترقی پسند شاعر کے حوالے سے بلند مقام رکھتے ہیں۔ مجاز نے جس زمانے میں شاعری کی ابتدا کی اس وقت ہندوستان دوہری غلامی سے دوچار تھا۔ طبقاتی کشمکش، فرسودہ روایات اور انسانیت کافقدان وغیرہ معاشرے کا عام مسئلہ بنا ہوا تھا۔ مجاز کوترقی پسند تحریک میں ان تمام مسائل کے روشن امکانات نظر آئے۔ ان کی نظموں میں پر زور طریقے سے ان نظریات کی وکالت ملتی ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ’ آہنگ‘ ہے جس نے مجاز کی شہرت میں چار چاند لگا دیے۔اس مجموعے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا تعارف ترقی پسندتحریک کے روح رواں سجاد ظہیر نے تحریر کیا ہے۔

معین احسن جذبی ترقی پسند دور کے منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں۔ جذبی کی بنیادی شناخت ترقی پسند غزل گو شاعر کی ہے۔ مزدوروں کی حمایت اور سرمایہ داری کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں جذبی کا نام قابل ذکر ہے۔ سماج کی برائیوں کو دیکھ کر تڑپ اٹھنے والے جذبی کی شاعری میں درد نظم کا عنصر نمایاں ہے لیکن یہ درد محض ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ جذبی کا خیال تھا کہ سیاست میں مصلحت کا بہت رول ہے لیکن مصلحت پر شعر کی بنیادنہیں رکھی جاسکتی لہذا انہوں نے ہمیشہ شاعری کے تقاضے کو اہمیت دی اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہے۔

ساحر لدھیانوی رومانی طرز پر شاعری کرنے والے نو جوان نسل کے پسندیدہ شاعر تھے۔ زبان سادہ اور سلیس تھی۔ ابتدائی نظموں میں محبت اور جذبات و احساسات نو جوان دلوں کی آرزوئیں نا کامی دھروی ان کے عزائم اور ارادے کو مختلف زاویے سے پیش کیا ہے لیکن ان کے یہاں رفتہ رفتہ موضوع میں تبدیلی ہوئی اور طبقاتی شعور انقلابی آہنگ اور اہل اقتدار کوبھی اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔

ترقی پسند تحریک اور فکشن نگار

ترقی پسند ادیبوں میں میں فکشن نگار کی حیثیت سے پریم چند کے علاوہ کرشن چندر، بیدی، منٹو اور عصمت کے نام کافی اہم ہیں۔ جبکہ ناقد کی حیثیت سے سجاد ظہیر، احتشام حسین، ممتاز حسین، محمد حسن اور قمر رئیس وغیرہ کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ پریم چند اپنے تخلیقی سفر کے ابتدائی دنوں سے ہی ترقی پسند تحریک سے نظریاتی طور پر اتفاق کرتے تھے۔ انہوں نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہی نثری ادب میں بیش قیمت اضافے شروع کر دیے تھے۔انہوں نے ہیئت سے زیادہ مواد پر زور دیا ہے اور اصلاح معاشرہ کے لیے ادب کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کے نظریے کے حامی رہے ہیں۔

تقریباً ایک صدی قبل جب پریم چند نے لکھنا شروع کیا اس وقت معاشرہ طبقاتی کشمکش، ذات پات، امیر غریب کے فرق، تعلیم اور تعلیمی سہولتوں کے فقدان، بچپن کی شادی جیسے مسائل سے دوچار تھا۔ پریم چند نے اپنی کہانیوں میں انہیں مسائل کو پیش کیا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو ان تمام مسائل کا حل کسی نہ کسی شکل میں پریم چند کی کہانیوں میں موجود ہے۔

افسانہ کفن، سواسیر گیہوں، نئی بیوی، گھاس والی، بڑے گھر کی بیٹی، عید گاہ، حج اکبر، نجات وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن میں ترقی پسند نظریات واضح طور پر عیاں ہیں۔ کرشن چندر عملی طور پر ترقی پسند تحریک سے جڑے رہے ہیں۔ ترقی پسند مصنیفین کے جلسوں میں وہ باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔انہوں نے مجموعی طور پر بہت لکھا ہے۔

کرشن چندر نے ناول اور افسانے دونوں لکھے لیکن بنیادی شناخت افسانے کی وجہ سے ہے۔ مزاجیہ جذباتی اور رومان پسند تھے۔ ان کے افسانے میں بھی اس کی جھلک نمایاں ہے لیکن یہ جذباتیت اور رومانیت بھی سماجی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال بن گئی ہے۔انہوں نے انسان دوستی اور بہتر سماج کی آرزو مندی بھی کی ہے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے ایک خوشحال اور مطمئن سماج کا تصور دیا۔

ان کے یہاں معمولی معمولی افراد مرکزی کردار کی حیثیت سے موجود ہیں جن کی بھر پور عکاسی اور ترجمانی کرتے ہوئے سماج کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ان افراد کی بھی اپنی عزت اور شناخت ہوتی ہے۔ ان کے پاس بھی دھڑکتا ہوا دل ہوتا ہے۔ ان کے بھی اپنے جذبات ہوتے ہیں جن کی قدر کی جانی چاہیے۔ مہاشمی کا پل، کالوبھنگی وغیرہ اسی نوعیت کے افسانے ہیں۔

کالو بھنگی ایک اسپتال میں کام کرتا ہے جہاں وہ مریضوں کی غلاظت صاف کرتا ہے۔ ان کے دکھوں کو محسوس کرتا ہے لیکن اس بھنگی کی معمولی سی خواہش بھی پوری نہیں ہو پاتی ہے۔ وہ ان حسرتوں کے ساتھ اپنی زندگی گزار دیتا ہے اور بالآخر دنیا چھوڑکر چلا جاتا ہے۔ ایک بھنگی کو افسانے کا مرکزی کردار بنا کر پیش کرنا اردو ادب کو دراصل ترقی پسند تحریک کی دین ہے۔

منٹو اپنے دور کے باغی افسانہ نگار تسلیم کیے جاتے تھے۔ تقسیم ہند کا المیہ فرقہ وارانہ فسادات کے ساتھ ساتھ جنسی ونفسیاتی کشمکش ان کے افسانوں کے اہم موضوعات رہے ہیں۔ وہ ترقی پسند تحریک اور اس کے نظریے سے پوری طرح اتفاق کرتے تھے۔ انہوں نے معاشرے کے اس طبقے کے مسائل کو پیش کیا ہے جس پر فکشن نگاروں نے زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔ انہوں نے بازاری عورتوں، ان کے جذبات و احساسات اور داخلی کیفیات کو بڑے مؤثر انداز میں دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔

منٹو نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان میں سے بیشتر عورتیں کسی نہ کسی وجہ کی شکار ہوتی ہیں اور بنیادی طور پر یہ بھی عام عورتوں کی طرح پرسکون زندگی کی متلاشی ہوتی ہیں۔منٹو نے اس خاص موضوع کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات، تقسیم ہند اور بنی نوع انسان کی بے حرمتی، کمزور طبقے کی بے چینی اور عدم مساوات وغیرہ پر افسانے قلم بند کیے ہیں۔ کالی شلوار، موذیل، منظور، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیا قانون وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔

ترقی پسند تحریک سے وابستہ اور اس کے زیراثر لکھنے والوں میں راجندرسنگھ بیدی بھی کافی اہم نام ہے۔ بیدی نے سماج کے فرسودہ روایات توہمات وعقائد اور اس کے مضر اثرات کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے۔ بیدی کا ماننا تھا کہ اتنی ترقی کے باوجودلوگوں کا غیرمنطقی باتوں پر یقین و اعتبار ہوتا ہے جو ایک غیر یقینی بات ہے۔

بیدی نے اپنے افسانوں میں عورتوں کی نفسیات کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔ نسوانی کرداروں کے علاوہ بچوں کی نفسیات کی پیش کش میں بھی بیدی کو ملکہ حاصل ہے۔ بیدی نے متوسط طبقے کے مسائل کو پیش کیا۔ ’جلادان‘ ان کا شاہکار افسانہ ہے جس میں امیر اور غریب بچے کی نفسیات کی مرقع کشی کی گئی ہے۔ ’لاہوتی‘ گر چہ تقسیم ہند کے المیے پر لکھا گیا افسانہ ہے لیکن اس میں بھی عورت ہی کی نفسیات اور حقوق کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ’گرم کوٹ‘ بھولا، لیبی لڑکی ،اپنے دکھ مجھے دے دو، پان شاپ وغیرہ بیدی کے نمائندہ افسانے ہیں۔

ترقی پسند تحریک اور اردو تنقید نگاری

اردو میں میں تنقید اس تحریک سے پہلے بھی تھی لیکن ترقی پسندوں نے تنقید میں ذاتی غور و فکر کو بہت زیادہ اہمیت دی چنانچہ ایسے تقاد پیدا ہوئے جنھوں نے مختلف ملکوں کے نقادوں کے خیالات کو سامنے رکھ کر اپنے تنقیدی نظریات کی تشکیل کی اور جو نظریات پیش کیے ان میں حقیقت اور واقعیت کا بہت دخل تھا۔

ترقی پسند تنقید میں اختر حسین رائے پوری پہلے باضابطہ تنقید نگار ہیں۔ ان کا مقالہ ”ادب اور زندگی“ جولائی 1935 کے رسالہ “اردو” میں شائع ہوا۔ اس کی اشاعت سے ادبی حلقوں میں ہلچل پیدا ہوئی۔ ادب اور زندگی کو مارکسی تنقید کا نقطہ آغاز قرار دیا گیا۔ اختر حسین رائے پوری کا خیال ہے کہ ادب اور انسانیت کے مقاصد ایک ہیں۔ ان کے خیال میں ادب کا مقصد ہونا چاہیے اور ان جذبات کی ترجمانی کرنی چاہیے جو دنیا کو ترقی کی راہ دیکھائیں اور ان جذبات کی نفی کرنی چاہیے جو دنیا کو آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ وہ مارکسی تنقید کے اولین نقاد ہیں اور بہت کم لکھنے کے باوجود ان کی تاریخی حیثیت برقرار ہے۔

مجنوں گھور کپھوری ترقی پسند تحریک کی پیداوار نہیں ہیں۔ ترقی پسند تحریک سے پہلے ہی ان کی ادبی حیثیت قائم ہو چکی تھی۔ وہ انگریزی زبان کے مخصوص علمی و تنقیدی پیرائے اور فنی اصطلاحات کے اردو مترادفات وضع کرنے کا ایک خاص سلیقہ رکھتے ہیں جس کا اظہار تنقیدی مضامین کے علاوہ ان کی تصانیف تاریخ جمالیات اور شو پنہار میں ہوا۔ یہ دونوں فلسفیانہ مسائل کو شگفتہ انداز میں بیان کرنے میں کامیاب رہیں۔

جب ترقی پسند کا شور بلند ہوا تو مجنوں نے مارکسزم کا گہرا مطالعہ کیا۔ روسی ادب کی تحریکوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ تنقید کو ادب کی ایک شاخ سمجھتے تھے۔ یہ ان کو دیگر نقادوں سے ممتاز کرتی ہے۔مجنوں کی تنقید نے رومانویت سے مارکسیت کا سفر کیا۔ ان کا ابتدائی تنقیدی مواد ”تنقیدی حاشیے“ کے نام سے کتابی صورت میں موجود ہے۔ ان کے دوسرے مضامین کے مجموعے ادب اور زندگی ، مبادیات تنقید وغیرہ ہیں۔

سجادظہیر کا شمار اس تحریک کے بانیوں میں ہوتا ہے۔اس تحریک کو منظم شکل دے کر کامیاب بنانے میں ان کا بہت اہم رول رہا ہے۔احتشام حسین کا شمارترقی پسند نقادووں میں ہوتا ہے۔ یہ مارکسی نظریے کے حامل تھے اور اس کی مدد سے زندگی اور ادب کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ اپنی بات انتہائی نپے تلے انداز میں مدلل طریقے سے پیش کرتے تھے۔

محمد حسن بھی ترقی پسند ناقد گزرے ہیں۔ کارل مارکس نے اپنی کتاب ” سرمایہ“ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے یہ اتفاق کرتے نظر آتے ہیں۔ محمد حسن نے ادب کا رشتہ زندگی اور سماج سے جوڑا ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ادبی تنقید میں ان خیالات کا اظہار ہوتا ہے۔

قمر رئیس کا شمار اردو کے ممتاز ناقدین میں ہوتا ہے۔ان کے ذکر کے بغیر دور جدید کی ترقی پسند تحریک اور انجمن ترقی پسند مصنفین کا تصور نامکمل ہے۔ پریم چند اور سجاد ظہیر کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کو منظم اور متحرک کرنے کے حوالے سے قمر رئیس بلاشبہ سب سے اہم نام ہے جس نے ایک طویل مدت تک انجمن کے مقاصد کے تحت کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری رکھی۔ مجموعی طور پر اس تحریک نے نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کی بلکہ ادب کو بھی ایک نئے زوایہ نظر سے متعارف کروایا۔

سوالات:

  • ترقی پسند تحریک کی ابتداء کب ہوئی؟
  • ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں کون شامل تھے؟
  • ترقی پسند تحریک کا ابتدائی اجلاس کس ہوٹل میں ہوا؟
  • ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کا پہلا اجلاس کہاں منعقد ہوا؟
  • ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے پہلے اجلاس کی صدارت کس نے کی؟
  • انگارے کی ترقی پسند تحریک میں کیا اہمیت ہے؟
  • ترقی پسند تحریک کا بنیادی مقصد یا نعرہ کیا تھا؟
  • ترقی پسند شعرا کے نام تحریر کریں؟
  • ترقی پسند تحریک کے نمائندہ افسانہ نگار کون کون سے ہیں؟
  • ترقی پسند تنقید میں اختر حسین رائے پوری کے نظریات بیان کریں؟
  • ترقی پسند تحریک میں سجاد ظہیر کا کیا کرادر رہا؟
  • ترقی پسند تحریک کے متوازی کس تحریک نے سر اٹھایا؟