Advertisement
Advertisement

غزل کا تعارف:

یہ غزل علامہ اقبال کے مشہور مجموعہ کلام ”بانگ درا“ میں شامل ہے۔اس میں کل چھ اشعار ہیں اور ہر شعر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہے گویا غزلِ مسلسل کا روپ لیے ہوئے ہے۔

Advertisement
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

تشریح

پہلے شعر یعنی غزل کے مطلع میں اقبال محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے محبوب میں تیرے عشق میں انتہائی اونچے مراحل تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہوں، اس منزل تک پہنچنا چاہتا ہوں جس کے آگے کچھ باقی نہ رہے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ عشق کی کوئی حد نہیں ہوتی، یہ تو ایک پہاڑی سلسلے کی طرح ہوتا ہے انسان یہ سوچ کر ایک پہاڑ کی اونچائی تک پہنچتا ہے وہاں پہنچ کر دوسری جانب دیکھ سکے لیکن وہاں پہنچ کر ایک دوسرا پہاڑ ہوتا ہے اس لیے دوسرے مصرعے میں اقبال فرماتے ہیں کہ میری یہ خواہش میرے بھولے پن اور معصومیت کی نشانی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں عشق کی کوئی انتہا نہیں ہوتی پھر بھی اس انتہا کی خواہش کر رہا ہوں۔

ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

تشریح

اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ اگر محبوب اپنا چہرہ دکھانے کے مسلسل وعدے کیے جا رہا ہے تو یہ بھی کسی ظلم سے کم نہیں ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ عشق ایک ایسے راستے کا نام ہے جس میں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ایسی صورت میں عاشق کی قوتِ برداشت اور صبر کا امتحان ہوتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ محبوب کا دیدار نہ ہونا ایک ظلم ہے لیکن اس ظلم کے بغیر عشق بذاتِ خود عشق نہیں رہتا۔

Advertisement
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

تشریح

اس شعر میں اقبال کے عشق کی انتہا دیکھیے۔ چوں کہ اقبال کا عشق صرف عشقِ حقیقی رہا ہے لہذا وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس بہشت کی کوئی پروا ہی نہیں ہے جس کے لیے عبادت گزار اپنی پوری زندگی محنت کرتے ہیں، میں تو بس روز محشر کی اس گھڑی کا انتظار کر رہا ہوں کہ جب میرا سامنا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو جائے۔ میرے لیے محبوبِ دو عالمﷺ کا سامنا کسی جنت سے کم نہیں ہوگا۔

Advertisement
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

تشریح

اس شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ بے شک میرا دل بہت چھوٹا سا ہے اور میں طاقت بھی نہیں رکھتا لیکن یہ دل اسی طرح بے خوف و بے خطر ہے جیسے حضرت موسی علیہ السلام کا دل تھا اور فرماتے ہیں کہ میں بھی اسی طرح کی کیفیت کا سامنا کرنا چاہتا ہوں کہ جب اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی دیکھنے کی خواہش پر جواب دیا تھا کہ تو نہیں مجھے دیکھ پائے گا۔

کوئی دم کا مہمان ہوں اے اہل محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

تشریح

اس شعر میں اقبال دنیا والوں سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں کہ محبوب کی جدائی میں میری حالت اب اس چراغ کی مانند ہو گئی ہے جو ساری رات جلتے رہنے کے بعد صبح کو مدہم پڑنے لگتا ہے اور اب اسے بجھا دیا جائے گا یعنی اب میری زندگی کے دن ختم ہونے کے قریب ہیں اور میں کسی بھی وقت اس فانی دنیا سے کوچ کر جاؤں گا۔

Advertisement
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

تشریح

غزل کے آخری شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ میں اس قدر منہ پھٹ واقع ہوا ہوں کہ جو باتیں محبوب نے مہربانی کرتے ہوئے مجھے بتائی تھیں وہ میں نے سب کے سامنے کردی ہیں، اس بےادبی کے باعث محبوب مجھے جو سزا دے میں وہ کاٹنے کے لئے تیار ہوں کیونکہ محبوب سزا بھی دے تو اس پر سوال نہیں کیے جاتے بلکہ سزا کو برداشت کیا جاتا ہے۔

Advertisement