اتفاق میں برکت ہے | Essay On Unity In Urdu

0
اتفاق میں برکت ہے | Essay On Unity In Urdu 1

لفظ اتفاق سے ہر ایک آگاہ ہے۔دنیا کا نظام اتحاد و اتفاق اور لوگوں کے باہمی اشتراک سے چلتا ہے۔انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ وہ اپنے سماج میں اکیلا اور تنہا اپنی زندگی بسر نہیں کر سکتا اس لیے وہ ہمیشہ دوسرے کی مدد کا محتاج رہتا ہے۔کائنات عالم کا ذرہ ذرہ ہمیں اتفاق و اتحاد کا درس دیتا ہے۔قدرت بھی اتفاق اور اتحاد کے حق میں ہے۔ایران کے مشہور شاعر اور دنیا کے بڑے مفکر سعدی شیرازی نے کیا خوب فرمایا ہے؀

بنی آدم اعضائے یک دگر اند
کہ در آفرینش ایک جوہر اند
چو غضوئے بدرو آورود زرگار
دگر عضوہا را نماند فراء

ان اشعار کا ترجمہ اس طرح سے ہے۔سعدی شرازی فرماتے ہیں کہ انسان ایک دوسرے کے اعضاء کی طرح ہیں۔کیونکہ ان کو ایک ہی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔اگر زمانے میں انسان کے کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے اعضاء بھی تکلیف کی وجہ سے بےقرار ہوتے ہیں اور درد محسوس کرتے ہیں۔تو ہمیں اس سے ہمیں یہ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جب جسم کے ہر اعضا کا یہ حال ہے تو ایک قوم اور ملک کے باشندے کیوں نہ اتفاق و اتحاد سے رہیں۔

انسان کو چاہیے کہ وہ شہد کی مکھیوں سے سبق حاصل کرے کہ وہ کس طرح اتفاق اور اتحاد سے اپنی زندگی بسر کرتی ہیں اور مشکلات کا سامنا کر کے بھٹوں میں رہتی ہیں۔اسی طرح پرندے جانور بھی اتفاق اور اتحاد کی زندگی بسر کرتے ہیں۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود آپس میں عداوت رکھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ ضد اور ہٹ دھرم ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں۔انسان کو تمام مخلوقات پر فوقیت دی گئی ہے۔اس لیے اس کا آپس میں مل بیٹھنا اور ایک دوسرے سے ہمدردی رکھنا،رنج و راحت میں شریک ہونا ضروری اور لازمی ہے۔

انسان کو چاہیے کہ وہ آسمان کی طرف دیکھے کہ ستارے کس طرح ہماری طرف اتفاق اور اتحاد کے ساتھ دیکھتے ہیں اور یہ کیسے خوبصورت نظر آتے ہیں۔گویا کسی اچھے باغ کے پھول ہیں جو جگمگا رہے ہیں اور ہمیں روشنی عطا کر رہے ہیں۔اندھیری رات میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں، وقت کا اندازہ بتاتے ہیں،اور ہمیں اتفاق کا سبق دیتے ہیں۔اگر ہم انسانوں میں اتفاق ہو تو خدا کی قسم کیسے کیسے عمدہ نتیجے ظاہر ہوں گے۔

اوپر کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت کی مرضی کیا ہے اور قدرت ہم سے کیا چاہتی ہے۔مختلف اقوام و مذاہب کے لوگ متفق ہو کر رہیں اور اگر دو آدمی متفق ہوجائیں تو وہ ایک پہاڑ کو گرا سکتے ہیں، دریا کی روانی کو روک سکتے ہیں۔ ایک کمزور تنکے کو ہم آسانی کے ساتھ توڑ سکتے ہیں لیکن ایک بڑے مٹھے کو توڑنے کے لیے ہمیں کافی محنت و مشقت کرنا پڑے گی۔یہی اتفاق کے معنی ہیں۔

اتفاق میں طاقت ہے، قوت ہے اور دولت ہے۔کوئی قوم جب متفق ہوتی ہے تو کوئی دشمن ان پر حملہ نہیں کر سکتا۔کیونکہ قوم کی اتحاد اور یکجہتی کو دیکھ کر دشمن ڈر جاتا ہے۔ لیکن اگر قوم میں اتفاق اور اتحاد نہ ہو تو دوسری اقوام ان کو اپنا غلام بنا سکتی ہیں۔جیسا کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کی نااتفاقی سے فائدہ اٹھا کر ہم کو برابر دو سو سال تک غلام بنایا اور ہم پر حکومت کی اور ہماری دولت کے ساتھ ساتھ ہمارا سب کچھ لوٹ لیا اور آزادی حاصل کرنے کے باوجود ابھی تک ہم دم نہیں سنبھال رہے ہیں۔

ایک قوم کے لیے دوسری قوم کے افراد سے نااتفاقی موت کے برابر ہے۔دنیا میں وہ قوم ترقی کرسکتی ہے جس قوم کے افراد میں اتفاق اور اتحاد جاری ہو۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کی ترقی کا دارومدار اتفاق اور اتحاد پر ہے۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جہالت کو دور کریں اور آپس میں مل جل کر رہیں اور ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہو جائیں۔ایک دوسرے کے ساتھ باہمی میل جول اور بھائی چارگی کے ساتھ رہیں۔تبھی ہم صحیح معنوں میں ہموار اور پر سکون زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اور یہی درس ہمیں اتفاق و اتحاد سے مل سکتا ہے۔