زین عرف گوری

0

نیوز کاسٹر کی نوکری چھوڑے اسے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ وہ مختلف بیماریوں کی زد میں آگیا۔ بیماری کی حالت میں مریض کا گھر کی چار دیواری میں قید ہونا بھی کسی غنیمت سے کم نہیں ہوتا۔ زین عرف گوری اب گھر بار کی سہولتوں سے محروم، درباروں پر زندگی کے باقی ماندہ دن بھنگ بوٹی سے تشنگی مٹاتے ہوئے گزار رہا ہے۔ وہ ڈھول کی تھاپ پر زندگی کا رقص کچلتے کچلتے پچاس سال کا ہو گیا ہے۔ بھنگڑے کے سرور میں وہ اس قدر پھرتیلا ہو جاتا کہ اس کے جسم کے انگ انگ سے قلابازیاں رس بکھیرتیں۔ زین کا رسمی نام اس کے دادا ملک داد نے رکھا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کی زندگی کا چودھواں سال اسے گوری کا خطاب تھما دے گا۔

زین سے گوری بنے اسے چھتیس سال پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ ان چھتیس سالوں میں وہ ماں باپ، بہن بھائیوں اور سکول کے دوستوں کی شکل دیکھنے سے محروم رہا۔ وہ صاحب فراش ہے، اس کے چہرے کی سرخی پیلاہٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کھانسی کا ایک دورہ اس کی ہڈیوں کے پنجرے کو غیر متوازن کردیتا۔ دربار کے دائیں طرف نیم کے درخت تلے اس کی چارپائی کو رکھا گیا تھا۔ دربار کے احاطے سے اسے ڈھول کی تھاپ سنائی دے رہی تھی۔ وہ اس قابل تو نہیں تھا کہ دفعتاَ اٹھ بیٹھتا اور ڈھول کا مقابلہ کرتا۔ اس کا جسم بیمار تھا لیکن روح میں ابھی دم خم باقی تھا۔ وہ چار پائی پر لیٹے لیٹے تصور کی دنیا میں خود کو ڈھول کے بالکل پاس لے گیا۔ اب اس نے محسوس کیا کہ وہ دھمال کے چبوترے کو مسلسل روند رہا ہے۔ ایک بہت بڑا ہجوم اس کو داد بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔

بلھے شاہ کے کلام اور اس کی دھمال میں ایک گہرا تعلق تھا۔ وہ مسلسل ناچ رہا تھا اور گھنگرو ایک ایک کر کے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ اچانک اسے اپنی روح بھی بیمار نظر آنے لگی اور اس کےدل اور تصور کا باہمی رابطہ منقطع ہو گیا۔ ایسی شدید کھانسی اسے پہلے کبھی محسوس نہ ہوئی تھی۔ کھانسی کی شدت اسے بے بسی کی دنیا میں لے گئی اور اس کے ہوش و حواس کہیں گم ہو گئے۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں اس نے خود کو آبائی گھر میں پایا۔ وہ ماں کے شانوں پر سر رکھ کر سکون کی وادیوں میں گم ہو گیا۔ اس کا بچپن مکمل راحت و سکون میں گزرا تھا اور اس کی ہر خواہش پوری کی جاتی۔

وہ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور لڑکیوں کے ساتھ اسے کھیلنا بے حد پسند تھا۔ وہ اپنی بہنوں کے کھیل میں شامل ہوجاتا اور پورے مان سے مار کٹائی بھی کرتا۔ وہ بہنوں کی چیزیں استعمال کرتا ان کی سرخی پاؤڈر ہمہ وقت اس کی دسترس میں ہوتے۔ وہ بڑے چاؤ کے ساتھ ان کے لال پیلے کپڑے اور دوپٹے استعمال کرتا۔ اسے چوڑیاں پہننا انتہائی پسند تھا اور پھولوں کے گجرے بھی کبھی کبھار اسے دستیاب ہو جاتے۔ اس کی بہنوں نے کبھی اس کے زنانہ ناز نخروں کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ وہ اسے چھوٹا سمجھ کر اسے ساتھ سلا لیتیں اور ہمیشہ اس کی ضد کے سامنے ہار جاتیں۔ سکول کے زمانے میں اس کا شرمیلا پن حد سے تجاوز کر گیا۔

اس کی چال ڈھال بھی باقی بچوں سے الگ تھلگ تھی۔ وہ کھیل کود میں باقی بچوں سے مختلف تھا۔ اس کے بستے میں ایک رنگین گڑیا ہر وقت موجود ہوتی۔ باقی سب بچے کرکٹ، فٹ بال اور دیگر کھیلوں میں مصروف ہوتے، گوری اپنی گڑیا کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہوجاتا۔ اس کا اور اس کی گڑیا کا دل کھول کر مذاق اڑایا جاتا۔ ان کھلے دل والوں میں بچوں کے ساتھ ساتھ اس کے اساتذہ بھی شامل تھے ۔ وہ اپنا غصہ اور جذبات اپنے دل میں قید رکھتا۔ کبھی کبھار زیادہ غصے میں آ کر وہ اپنی ننھی منی چوڑیاں توڑ دیتا۔ گلی محلے کے سبھی بچے اس کا مذاق اڑاتے اور طرح طرح کی آوازیں کستے۔ اس نے باہر نکلنا چھوڑ دیا اور سارا وقت گھر میں گزارنے لگ گیا۔ ایک گھر ہی وہ ٹھکانہ تھا کہ جہاں وہ بغیر کسی خوف و ہیجان کے اپنا سارا وقت گزار سکتا تھا، لیکن بہت جلد اس کے گھر والے بھی اس کو لے کر کافی مضطرب رہنے لگے۔ اس کے ساتھ کوئی بھی فرد سیدھے منہ بات نہ کرتا۔

وہ پیدا ہوا تو زین تھا، گوری بننا اس کا اپنا انتخاب نہیں تھا۔ اس کے جینز میں یہ چیز رکھ دی گئی تھی اور باقی کا کام قدرت نے اس کے ماحول پر چھوڑ دیا ۔ اس کے ماحول نے اسے جو کچھ عطاء کیا اس نے خوش دلی سے اسے قبول کیا۔ دوستوں، رشتہ داروں اور گھر والوں کی باتیں سنتے سنتے اس کے کان پک چکے تھے۔ اس نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور ایک رات بے سروسامانی کے عالم میں وہ چپ چاپ گھر سے نکل گیا۔ اس کے جسمانی اعضاء کے خال و خط سے اس کی اندرونی کیفیت کا ایک عام آدمی کو بھی اندازہ ہو سکتا تھا۔

اس کی چال ڈھال کسی جوان عورت سے کم نہیں تھی۔ گوری نے یہ سب کچھ چھپانے کی بے حد کوشش کی لیکن وہ جہاں بھی رکتا لوگ اس کا حساب لگا لیتے۔ گھر سے کوسوں دور وہ ایک ٹرک ہوٹل پر رکا، اس دوران اس کے پاس محض چائے کے ایک کپ کے پیسے موجود تھے۔ اس کی آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ ہوٹل کا مالک ایک طرف کرسی پر بیٹھا سگریٹ کے بڑے بڑے کش لگا رہا تھا۔ گوری نے ہمت کی اور اس کے پاس پہنچ کر لجاجت بھرے لہجے میں گویا ہوا! ۔۔۔۔۔۔۔!میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!میں کل سے بھوکا ہوں ۔ ایک روٹی پر سالن رکھ دیں تو میں یہاں سڑک پر بیٹھ کر آرام سے کھا لوں گا۔ میں آپ کو ڈھیر ساری دعائیں دوں گا، اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص کرم ہو گا۔

ہوٹل والے نے مزاحمتی لہجے میں اسے جھاڑ پلائی اور ٹکے ٹکے کی باتیں سنائیں۔ گوری نہیں جانتا تھا کہ اس کے بعد اگلا سٹاپ کون سا اور کس جگہ پر آئے گا۔ وہ علاقے سے اس قدر مانوس نہیں تھا کہ جس قدر اسے ہونا چاہیئے تھا۔ گھر اور سکول میں اس کی خواہشات کو ہمیشہ دبا دیا جاتا تھا۔ اسے ہمیشہ چپ رہنے کی تلقین کی گئی تھی۔ اس کی خود اعتمادی ریزہ ریزہ ہو چکی تھی۔ اس نے بسم اللہ کے گنبد میں اپنا بچپن گزار دیا تھا۔ بھوک کے سبب اس کا سر چکرا رہا تھااگر اسے بر وقت دو لقمے نہ ملتے تو یقینی طور پر وہ گر پڑتا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر ہوٹل مالک سے روٹی کی درخواست کی تو اس نے بڑی مونچھوں والے ایک ٹرک ڈرائیور کی طرف اشارہ کیا اور اس سے ملنے کا کہا۔

ٹرک ڈرائیور نے بڑے تپاک کے ساتھ گوری کو خوش آمدید کہا اور اسے بالائی کمرے میں لے گیا۔ رات ختم ہونے کو تھی، وہ ہوٹل سے نکلا اور اپنی منزل کا تعین کیے بغیر سڑک کے ایک طرف چل پڑا۔ اسے معلوم تھا کہ پیدائش سے اب تک اس نے دنیا جہان کی سب سے مہنگی روٹی کھائی ہے۔ وہ بخار اور درد کی شدت سے پسینے میں ڈوب کر لڑکھڑاتے ہوئے مسلسل چلے جا رہا تھا۔ کچھ ہی دور اسے ایک ریلوے اسٹیشن نظر آیا۔ وہ ریل گاڑی میں سوار ہو گیا، اسے قسمت پر پورا بھروسہ تھاکہ وہ ریل گاڑی اسے کسی گنجان اور بڑے علاقے میں پہنچا دے گی۔ تین گھنٹوں کی لمبی دوڑ کے بعد وہ لاہور اترا اور وہیں فٹ پاتھ پر سو گیا۔

وہ لاہور پہلی دفعہ آیا تھااور وہاں کسی مقام سے اسے واقفیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ نیند پوری کرنے کے بعد وہ اٹھا تو اس کی تھیلی غائب تھی۔ وہ مہنگی روٹی کا عادی نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے کوئی چھوٹا موٹا کام دھندہ ڈھونڈنے کی کوشش شروع کردی۔ وہ میٹرک فیل تھا اور کوئی تسلی بخش نوکری ملنا اسے کافی مشکل تھا۔ اسے ایک گلاس فیکٹری میں معمولی نوعیت کی نوکری مل گئی۔ اس دوران اس کا پیٹ بھرنے لگ گیا اور تن ڈھکنےلگ گیا تھا۔ وہ مردانہ لباس میں ایک بھرپور جوان عورت کی طرح پھسا ہوا نظر آتا۔ سر کے بال نہ مردوں کی طرح چھوٹے اور نہ ہی عورتوں کی طرح لمبے تھے۔ بڑی بڑی آنکھیں، صراحی جیسی گردن، تیکھی ناک، باریک ہونٹ اور گالوں پر چمکتی لالی اسے بے رحم ہاتھوں میں پھینکنے کا کسی بھی وقت موجب بن سکتی تھی۔ فیکٹری کے مینجر نے اس کی تنخواہ میں سو فیصد اضافہ کردیا اور اسے اپنے آفس میں ٹی بوائے کے طور پر کام دے دیا۔

ایک ہفتہ ہی گزرا ہوگا کہ ایک رات گوری کو اس مینجر میں وہی بڑی بڑی مونچھوں والا ٹرک ڈرائیور نظر آنے لگ گیا۔ اس نے وہاں سے بچ نکلنے کی ہزار کوششیں کیں لیکن مینجر نے پورا گروہ تیار کر رکھا تھا۔ گوری کو پھر سے مہنگی روٹی نہیں کھانی تھی۔ وہ پوری رات اس گروہ کے حصار میں رہا اور صبح چپ چاپ وہاں سے نکل گیا۔ ریلوے اسٹیشن کے عقب میں ایک مشہور و معروف گرو رہتا تھا۔ پورا شہر اس کے نام اور شہرت سے واقف تھا۔ گوری نے وہاں جا کر اس کی شاگردی اختیار کر لی۔ اب بڑے بڑے فنکشنوں پر لوگ گوری کو بھاری بھرکم معاوضے کے بدلے لے کر جاتے۔ کئی وزیروں مشیروں کے ساتھ اس کے تعلقات قائم ہو گئے۔ آہستہ آہستہ اس نے چھوٹے فنکشن چھوڑ دیے اور وزیروں مشیروں تک ہی خود کو پابند کر لیا۔ وقت بڑی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔

گوری کی عمر اب پچاس کے قریب ہو رہی تھی۔ اب اسے کوئی منہ لگانے کو تیار نہیں تھا، اس کے گرو نے اسے جائے پناہ سے نکال دیا۔ اس کے جسم کے جوڑ کھوکھلے ہو چکے تھے۔ وہ کوئی بھاری بھرکم کام بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے پاؤں اور گھنگھرؤں میں ایک انتہائی گہرا رشتہ تھا۔ اس کے گھنگھروں کی جھنکار سے اس کے افسردہ لفظ اور ٹھنڈی آہیں نچڑتیں۔ کوئی نچانے والا ڈھولچی ہوتا تو گوری اس کے ہاتھوں کی رفتار کو شکست دے دیتا۔ دور دور سے لوگ اس ملنگ کی دھمال دیکھنے کے لیے آتے۔ بچے اس کی قلابازیوں سے محظوظ ہوتےاور اس کے لیے تالیاں بجاتے۔

وہ جس دربار پر رہ رہا تھا اس سے کچھ ہی فرلانگ کے فاصلے پر اس نے ایک بہت بڑا گھر بنا رکھا تھا۔ پورے ملک سے اس جیسے لوگوں کو ڈھونڈ کر وہاں پناہ دی جاتی۔ یہ وہ جائے پناہ تھی جہاں کسی بھی ہیجڑے کو مہنگی روٹی نہیں کھانی پڑتی تھی۔ ان کے لیے روٹی دربار سے آتی اور سبھی ہیجڑے میاں سرکار بلھے شاہ کے کلام پر دھمال ڈالتے۔ لوگ انہیں “بلھے شاہی سرکاراں” کے طور پر جانتے تھے اور سبھی کے دلوں میں ان کے لیے خلوص اور بلند مقام تھا۔ گوری اب ایک عمر رسیدہ ڈھانچہ بن چکا تھا اور اپنے آخری ایام ٹی بی جیسے مرض میں گزار رہا تھا۔ بہت سارے فلاحی اداروں اور لوگوں نے اس کا علاج کرواناچاہا لیکن وہ کہتا کہ نہ مجھے مہنگی روٹی کھانی ہے اور نہ ہی مہنگا علاج کروانا ہے۔ اب بلھے شاہی سرکاروں کے درمیان گوری نظر نہیں آتا۔ اس کو مرے ہوئے بیس سال گزر چکے ہیں۔ اس کی میت کو اس کی وصیت کے مطابق جلا دیا گیا تھااور اس کی راکھ کو اسی جائے پناہ کی چوکھٹ میں دبا دیا گیا ہے۔

تحریر ۔امتیاز احمد
زین عرف گوری 1