سبق: میں بیرسٹر بنوں گا خلاصہ، سوالات جوابات

0
  • سبق ” میں بیرسٹر بنوں گا” از ” جی الانہ”

سبق کا خلاصہ:

جی الانہ کا سبق میں “میں بیرسٹر بنوں گا” قائد اعظم کے حالات زندگی کے پہلوؤں کو بیان کرتا ہے۔جب قائد اعظم ایک غیر معمولی سفر کرتے ہوئے انگلستان کی جانب جارہے تھے۔اس وقت ان کی عمر سولہ سال تھی۔محمدعلی لندن پہنچے تو سردی اپنے شباب پر تھی اور چونکہ وہ اس موسم کے عادی نہ تھے اس لیے وہاں کی زندگی انہیں بڑی خشک اور بے جان محسوس ہوئی۔ کئی سال بعد انہوں نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا۔ “

میرے سامنے ایک اجنبی دیس اور نامانوس ماحول تھا۔ میں لندن میں کسی شخص سے واقف نہ تھا۔ کہر اور سردی نے بھی مجھے خاصا پریشان کیا مگر جلد ہی یہ وحشت ختم ہو گئی۔انہیں لندن میں خاصی مدت قیام کرنا تھا اور ہوٹل میں چونکہ کافی خرچ آتا تھا لہذا وہاں ٹھہرنا مناسب نہ تھا۔ وہ روزانہ اخباروں کے اشتہار دیکھتے اور چند ایسے خاندانوں کے پتے نوٹ کر لیتے جو کرائے پر کمرے دینے کے ساتھ کھانے کی ذمہ داری بھی لینے کو تیار تھے۔

آخر انہیں موجودہ اولمپیا کے بالمقابل -۳۵ رسل روڈ کینسنگٹن میں رہائش کے لیے جگہ مل گئی (اولیا کی موجودہ عمارت ۱۸۹۲ء کے خاصے عرصے بعد تعمیر ہوئی تھی) ان دنوں برطانیہ میں لبرازم کی تحریک مقبول تھی۔آپ بھی اس سے مستفید ہونے کے خواہش مند تھے۔انہوں نے انگریزوں کی اس مخصوص عادت کو اپنا لیا تھا کہ صبح سویرے بیدار ہوتے بھی اخبار کا مطالعہ کریں اور ناشتہ ختم کرنے سے پہلے مطالعہ مکمل کر لیں۔

اس کے ساتھ وہ بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کی تقاریر کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔جب کراچی واپس آتے تو والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتے۔انھوں نے بھی دیگر مقبول لیڈروں کی طرح قانون سے واقفیت ضروری سمجھی۔آپ نے بچپن میں ایک بار کسی وکیل کو سیاہ چغہ میں دیکھ کر کہا تھا کہ ” میں بیرسٹر بنوں گا ۔ ان کی یہ خواہش جو بچپن سے ان کے دل و دماغ میں پرورش پا رہی تھی جس مقصد کے لیے انھوں نے لنکن میں داخلہ لیا۔

انہوں نے فرمایا تھا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے دل میں رسول اکرم کی جن کا شمار دنیا کے عظیم ترین مدبروں میں ہوتا ہے بہت عزت تھی۔ ایک دن اتفاقا میں لنکن ان گیا اور میں نے اُس کے دروازے پر پیغمبر اسلام کا اسم مبارک کندہ دیکھا۔ میں نے لنکن ان میں داخلہ لے لیا کیونکہ اُس کے دروازے پر کندہ دنیا کے عظیم قانون سازوں کی فہرست میں آنحضرت کا اسم مبارک بھی شامل تھا۔ 1893ء میں انھوں نے لنکن ان میں داخلہ لے لندن کے قیام کوزیادہ عرصہ نہ ہوا کہ پہلے ان کی اہلیہ ایمی بائی اور پھر والدہ کے انتقال کی خبر ملی۔

اس کے ساتھ انھیں والد کے کاروبار کے حوالے سے بھی خبریں سننے کو ملیں۔آپ نے اپنا نام مختصر کر کے ایم اے جناح رکھ لیا۔ان کی دلچسپیاں متنوع تھیں۔ انہوں نے برٹش لائبریری میں مطالعہ کرنے کا اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا اور اپنا بیشتر وقت مطالعے میں صرف کرتے۔ بسا اوقات اتوار کو وہ پائل پارک چلے جاتے اور دنیا کی اس مشہور جلسہ گاہ میں حکومت پر غیر ذمہ دار لوگوں کی کڑی تنقید میں سنا کرتے۔ وہ پابندی کے ساتھ دارالعوام جاتے اور گلیڈا سٹون لارڈ مور نے جوزف چیمبر لین بالفور ٹی۔ پی۔ او کنور وغیرہ جیسے آزاد خیال مدیروں کی تقریریں سنتے۔

دارالعوام کے مباحث سننے کے سبب دہ پارلیمانی آداب سے بخوبی واقف ہو گئے اور آئندہ زندگی میں اس سے انہیں کافی فائدہ پہنچا۔انتہائی محنت سے انھوں نے دو سالوں میں کامیابی حاصل کر لی۔ وہ امتحان میں کامیابی کے لئے محض کتابی کیڑا بن جانے کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے لندن میں زیر تعلیم ہندوستانی طالب علموں کے مسائل میں لچسپی لینی شروع کر دی۔ قائد اعظم کے انگلستان وارد ہونے کے پہلے سال کے دوران میں ہندوستانی طالب علموں میں خاصی کہا کبھی پائی جاتی تھی۔

اس کا جب یہ تھا کہ بیٹی کے ایک ممتاز پارسی لیڈر دادا بھائی نور وہی جو کئی سال سے تاجر کی حیثیت سے لندن میں مقیم تھے سنٹرل فنس بری کے حلقے سے دارالعوام کا انتخاب لڑ رہے تھے۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے برطانوی انتخابات میں حصہ لینے کی جرات کی تھی اور یہ قدرتی امر تھا کہ ہندوستانی طلبہ اُن کے حق میں جوش و خروش سے کام کرتے۔ قائد اعظم نے بھی خود کو اس انتخابی مہم کے لیے وقف کر دیا اور یوں انہیں ہندوستان کے اس عظیم فرزند سے قریب ہونے کا موقع ملا۔آپ نے سٹیج پر کام کرنے کی پیشکش بھی مسترد کی کیونکہ انھیں معمولی ملازمت کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔

اسٹیج کے ادا کار کو تماش بینوں کی ایک محدود تعداد ہی کی جانب سے داد و تحسین مل سکتی ہے۔ قائد اعظم ایک ایسے وسیع پلیٹ فارم پر ہیرو بننے کے خواہش مند تھے جہاں لاکھوں آدمی انہیں اپنا محبوب لیڈر گردانیں۔وہ بحری جہاز سے تین ہفتے کا سفر طے کر کے وطن واپس آئے۔ان کے والد کی بہت امیدیں ان سے وابستہ تھیں۔جہاز کراچی کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہوا اور انہوں نے لوگوں کے ہجوم میں اپنے والدہ بھائیوں، بہنوں اور چند رشتہ داروں کو دیکھا تو اُن کی نگاہیں والدہ کو تلاش کرنے لگیں۔ وقت نے اُن کے ساتھ کتنا بڑا مذاق کیا تھا ! کاش وہ اس وقت زندہ ہوتیں تو اس بات سے انہیں کتنی مسرت ہوتی کہ بیٹا بیرسٹر بن کر انگلستان سے واپس آیا ہے اور اس کا مستقبل روشن تر ہو گیا ہے۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

لندن کی زندگی محمد علی کو خشک اور بے جان کیوں محسوس ہوئی ؟

محمدعلی لندن پہنچے تو سردی اپنے شباب پر تھی اور چونکہ وہ اس موسم کے عادی نہ تھے اس لیے وہاں کی زندگی انہیں بڑی خشک اور بے جان محسوس ہوئی۔ کئی سال بعد انہوں نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا۔ ” میرے سامنے ایک اجنبی دیس اور نامانوس ماحول تھا۔ میں لندن میں کسی شخص سے واقف نہ تھا۔ کہر اور سردی نے بھی مجھے خاصا پریشان کیا مگر جلد ہی یہ وحشت ختم ہو گئی۔

لندن میں محمد علی کو کس قسم کی رہائش کی تلاش تھی؟

انہیں لندن میں خاصی مدت قیام کرنا تھا اور ہوٹل میں چونکہ کافی خرچ آتا تھا لہذا وہاں ٹھہرنا مناسب نہ تھا۔ وہ روزانہ اخباروں کے اشتہار دیکھتے اور چند ایسے خاندانوں کے پتے نوٹ کر لیتے جو کرائے پر کمرے دینے کے ساتھ کھانے کی ذمہ داری بھی لینے کو تیار تھے۔

انگلستان کے قیام کے دوران محمد علی نے کون کون کی عادات اپنا ئیں؟

انہوں نے انگریزوں کی اس مخصوص عادت کو اپنا لیا تھا کہ صبح سویرے بیدار ہوتے بھی اخبار کا مطالعہ کریں اور ناشتہ ختم کرنے سے پہلے مطالعہ مکمل کر لیں۔

آپ نے لنکن ان میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟

آپ نے بچپن میں ایک بار کسی وکیل کو سیاہ چغہ میں دیکھ کر کہا تھا کہ ” میں بیرسٹر بنوں گا ۔ ان کی یہ خواہش جو بچپن سے ان کے دل و دماغ میں پرورش پا رہی تھی جس مقصد کے لیے انھوں نے لنکن میں داخلہ لیا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے دل میں رسول اکرم کی جن کا شمار دنیا کے عظیم ترین مدبروں میں ہوتا ہے بہت عزت تھی۔ ایک دن اتفاقا میں لنکن ان گیا اور میں نے اُس کے دروازے پر پیغمبر اسلام کا اسم مبارک کندہ دیکھا۔ میں نے لنکن ان میں داخلہ لے لیا کیونکہ اُس کے دروازے پر کندہ دنیا کے عظیم قانون سازوں کی فہرست میں آنحضرت کا اسم مبارک بھی شامل تھا۔

آپ نے سٹیج پر کام کرنے کی پیشکش کیوں مسترد کی؟

کیونکہ انھیں معمولی ملازمت کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ اسٹیج کے ادا کار کو تماش بینوں کی ایک محدود تعداد ہی کی جانب سے داد و تحسین مل سکتی ہے۔ قائد اعظم ایک ایسے وسیع پلیٹ فارم پر ہیرو بننے کے خواہش مند تھے جہاں لاکھوں آدمی انہیں اپنا محبوب لیڈر گردانیں۔

کراچی کی بندرگاہ پر پہنچ کر آپ کی نگاہیں والدہ کو کیوں تلاش کر رہی تھیں ؟

جہاز کراچی کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہوا اور انہوں نے لوگوں کے ہجوم میں اپنے والدہ بھائیوں، بہنوں اور چند رشتہ داروں کو دیکھا تو اُن کی نگاہیں والدہ کو تلاش کرنے لگیں۔ وقت نے اُن کے ساتھ کتنا بڑا مذاق کیا تھا ! کاش وہ اس وقت زندہ ہوتیں تو اس بات سے انہیں کتنی مسرت ہوتی کہ بیٹا بیرسٹر بن کر انگلستان سے واپس آیا ہے اور اس کا مستقبل روشن تر ہو گیا ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لغت میں تلاش کیجیے۔

الفاظ معنی
رواں دواں جاری و ساری
وحشت بے چینی / بے سکونی
ہنگامہ خیز فسادات سے بھرپور
نصب العین مقصد
سپاس نامہ استقبالیہ تقریر
مدبر عقل مند
کندہ نقش کیا ہوا
زود حس حساس
نگہداشت دیکھ بھال
پے در پے ایک کے بعد ایک
متنوع کئی اقسام کا
جانفشانی محنت
ودیعت الہامی
خوش آئند خوبصورت
کھیون ہار کشتی بان
قلق افسوس
رائیگاں ضائع

مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

الفاظ جملے
رواں دواں زندگی کی گاڑی رواں دواں ہے۔
دور دراز دور دراز سے لوگ اس مقام کو دیکھنے آتے ہیں۔
جوش و خروش عید کے روز سب جوش و خروش سے مل رہے تھے۔
تعریف و تحسین احمد نے اس کی خوب تعریف و تحسین کی۔
شب و روز وہ شب و روز محنت کرتا ہے۔
پیشکش مجھے نوکری کی پیشکش ملی۔
درپیش ہمارے ملک کو بیرونی خطرات درپیش ہیں۔
اجازت نامہ مجھے آپ کا اجازت نامہ درکار ہے۔

قائد اعظم کے حوالے سے مندرجہ ذیل خالی جگہوں کو پر کیجیے۔

  • قائد اعظم ۲۵ دسمبر 1976 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ قائد اعظم نے سولہ سال کی عمر میں انگلستان کا سفر کیا۔
  • آپ کے والد کا نام پونجا جناح اور والدہ کا نام امام بی بی تھا۔
  • آپ نے ۱۸۹۳ء میں لنکن ان میں داخلہ لیا۔
  • آپ نے اپنا نام مختصر کر کے ایم اے جناح رکھ لیا۔
  • آپ نے دو سال کے عرصے میں امتحان میں کامیابی حاصل کی۔
  • وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے 18 سال کی عمر میں بیرسٹری کی تعلیم مکمل کی۔
  • قائد اعظم نے 11 ستمبر 1948 کو کراچی میں وفات پائی۔

قائد اعظم کا پاکستان اس عنوان پر ایک مضمون لکھے جس میں بتائے کہ قائد اعظم پاکستان کو کیسا ملک بنانا چاہتے تھے اور آج کا پاکستان اُن کے تصوراتی پاکستان کے مقابلے میں کیسا ہے۔

قائد اعظم کیسا پاکستان بناںا چاہتے تھے یہ سوال اکثر ہمارے ذہنوں میں گونجتا ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے 5 ستمبر 1938کو ہندوستان ٹائمزکی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہاتھا کہ ’’پاکستان کوئی نئی چیز نہیں یہ تو صدیوں سے موجود ہے، ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے جہاں آج بھی 70فیصد سے زائد آبادی مسلمانوںکی ہے، یہی مسلمانوں کا ملک ہے۔ ان علاقوں میں ایک ایسی آزاد اور خود مختار اسلامی حکومت ہو ،جس میں مسلمان اپنے مذہب، اپنے تہذیب و تمدن اور قرآن و سنت کے قوانین کے مطابق زندگی گزار سکیں‘‘۔

قیام پاکستان تک قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلام کی عظمت اور قرآن کی حقانیت کی بات کی، حضرت محمدؐ جو نظام لیکر آئے تھے اس کو اپنا آئیڈیل قرار دیااور ماڈل اسلامی وفلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ایک بار نہیں درجنوں بار فرمایا تھا کہ ’’ہمیں کسی نئے دستور کی کیا ضرورت ہے ،ہمارا دستور تو 14سوسال قبل بن چکا ہے ،ہمارا دستور وہی ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے قرآن و سنت کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے‘‘۔ ہم دنیا کیلئے پاکستان کو ایک مینارہ نور ،ماڈل فلاحی ریاست اور اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔

قائد اعظم ناصرف اسلامی نظریہ حیات پر مکمل یقین رکھتے تھے بلکہ پاکستان کو ایک ماڈل اسلامی ریاست بنا کر دنیا کو اسلامی نظام زندگی سے روشناس کروانے کا عظیم مقصد بھی ان کے پیش نظر تھا۔قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم نے ایک سو ایک بار اور قیام پاکستان کے بعد کم از کم 14بار بڑے واضح اور غیر مبہم انداز میں فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کے آئین ،نظام حکومت ،قانون اور انتظامی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی‘‘قائد اعظم جس اسلام کو بار بار ضابطہ حیات اور نظام زندگی قراردیتے رہے وہی اس ملک کے قیام کا بنیادی مقصد تھا۔مگر دیکھا جائے تو موجود پاکستان بالکل اس کے بر عکس ہے جہاں کسی صورت بھی اسلامی اقدار کی پاسداری نہیں کی جا رہی ہے۔ یہاں بظاہر تو اسلام کا بول بالا ہے مگر یہی مسلمان اپنے بھائیوں کی جڑیں کاٹنے میں بھی مصروف ہیں۔

مندرجہ ذیل عالی خانوں میں واحد کے جمع اور جمع کے واحد تحریر کیجیے۔

واحد جمع
خواہش خواہشات
قانون قوانین
امر امور
مقصد مقاصد
اجتماع اجتماعات
یوم ایام
مصیبت مصائب
حالت حالات

مندرجہ اہل ضرب الامثال کو مکمل کیجیے۔

  • آپ کاج مہا کاج
  • چور کی داڑھی میں تنکا
  • دل کو دل سے راہ ہوتی ہے
  • ڈوبتے کو تنکے کا سہارا
  • جس کی لاٹھی اس کی بھینس
  • بوڑھی گھوڑی لال لگام

سبق میں سے مندرجہ ذیل حروف کی مثالیں چن کر تحریر کیجیے۔

حروف جار: میں ، سے ، پر ، تک

حروف عطف: صبر و سکون ، شب و روز ، جوش و خروش ، احمد اور علی
حروف علت: چونکہ ، چنانچہ ، تاکہ ، اگرچہ
حروف اضافت: کا ، کے ، کی ، کو

مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ اس طرح سابقے ملا یے کہ ہر لفظ متضاد بن جائے۔

مانوس نا مانوس
مقبول غیر مقبول
جان بے جان
ممکن نا ممکن
مخصوص غیر مخصوص
محدود لا محدود

آپ نے سبق میں لفظ “یقینا” پڑھا ہے سبق میں سے اس طرح کے مزید دو الفاظ ڈھونڈ کر تحریر کیجیے۔

  • مزاجاً
  • اتفاقاً