احساس کمتری

0

ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی کمپلیکس کا شکار ہے۔ کوئی بیوٹی کمپلیکس کو لیے بیٹھا ہے تو کوئی ہائیٹ کو۔ اکثر لوگ اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ کر کے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسروں کی طرح نہیں ہیں۔ یہ کمپلیکسیز قوت ارادی کی کمزوری سے واقع ہوتے ہیں۔وہیں کماؤ پوتوں کی مائیں اور بہنیں ایک عجیب وغریب کمپلیکس پال رہی ہیں۔ جسکا منبع غیر یقینیت ہے مگر احساس کمتری،عقیدے کی ناپختگی،کم ظرفی اور احترام انسانیت کی کمی نے ایک ایسا مغلوبہ تیار کر رکھا ہے۔ جسکی بدولت انکے بہن بھائی اپنی زندگی کی تکمیل یعنی شادی سے محروم ہیں۔

ان کی خواہیش ہوتی ہے کہ ایسی لڑکی ملے جس کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو، پڑھی لکھی ہو مگر حقوق سے نا بلد ٹھرے، انکے کانوں سے سنے، اور انکی آنکھوں سے دیکھے اور انہی کے دماغ سے سوچیں تاکہ ان کی راج پاٹ ہمیشہ برقرار رہے۔ انکو لگتا ہے خدا نخواستہ لڑکی کے منہ میں زبان ہوئی یا اس نے اپنے دماغ کا استعمال کر لیا تو اقتدار کی نئی جنگ چھڑ جائے گی۔ پھر انکی جھوٹی شان وشوکت اور رعب و دبدبے کا منجن کون خریدے گا؟ ایسے میں تو بھائی بیٹا بھی ہاتھ سے جائے گا اور اس کی کمائی سے ملنے والی ٹھاٹھ باٹھ بھی۔ اب اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ لڑکے لڑکیاں بیھٹے اپنے ایام جوانی گزارش دیتے ہیں۔

دوران گفتگو محض کسی کو نیچا دکھانے کے لیے غیر ضروری طنز بھی احساس کمتری کو ظاہر کرتا ہے ۔ ہمارا معاشرہ ایسے کرداروں سے بھرا پڑا ہے ہمیں بطور انسان اس کام پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ ایسے میں ایک طرف تو ہم اپنے پیارے کی زندگی خراب کر رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ہم انسانیت کے معیار سے بھی گر رہے ہوتے ہیں ۔ حالانکہ ہم غور کریں تو کوئی کسی سے کم نہیں انسان اپنی زندگی میں تب تک نہیں ہارتا جب تک وہ خود اس ہار کو تسلیم نہ کر لے۔ ہر انسان منفرد اور بے مثل ہے۔ ہر ایک کی اپنی خاصیت ہوتی ہے۔ ہر ایک کی تخلیق کا مقصد الگ ہوتا ہے۔ خود آ گاہی سے مقصد اور مقصد سے کامیابی ملتی ہے۔

احساس کمتری کا شکار لوگ تو ہر چھوٹی بات پر معافی مانگتے ہیں۔ اپنی کامیابی کو چھوٹا سمجھے ہیں۔ اور لوگوں کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کمپلیکیز کا شکار لوگ تو اپنی خو بیوں اور خا میوں سے آ گاہ رہتے ہیں۔

جبکہ اس کے مقابلے میں confident لوگ ایسا بلکل نہیں کرتے اور بغیر سوچے سمجھے آ گے نکل پڑتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو خاص سمجھتے ہیں جبکہ احساس کمتری کا شکار لوگ خود کو عام سمھجتے ہیں۔۔ ایسا بلکل بھی نہیں۔ آج کے دور میں عام لوگ بہت خاص ہیں جبکہ خاص لوگ تو ہر جگہ موجود ہیں۔

اس دور میں تو انسان دوسرے کو احساس کمتری میں دیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔ اور مزید اس کو کمپلیکس کا شکار کر تا ہے تاکہ وہ آگے نا بڑھ سکے۔

جب بھی چاہیے نئی صورت
بنالیتے ہیں لوگ
اک چہرے پر کئی رنگ سجا
لیتے ہیں لوگ
مل بھی لیتے ہیں گلے سے
اپنے مطلب کے لیے
آ پڑے مشکل تو نظریں بھی
چڑا لیتے ہیں لوگ
یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آئے
غیرت کا مقام
اپنی سولی کاندھے پر اٹھا لیتے
ہیں لوگ
روشنی ہیں ان کا ایماں،روک
مت ان کو قتیل
دل جلاتے ہیں یہ اپنا تیرا کیا
لیتے ہیں لوگ
تحریر عدن شہزادی