حمد از عتیق احمد جاذب، تشریح، سوالات و جوابات

0
  • نظم “حمد” از “عتیق احمد جاذب”

اشعار کی تشریح:

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
سورج کے اجالوں سے، فضاؤں سے ، خلا سے
چاند اور ستاروں کی چمک اور ضیا سے
جنگل کی خموشی سے، پہاڑوں کی انا سے
پرہول سمندر سے ، پراسرار گھٹا سے
بجلی کے چمکنے سے ، کڑکنے کی صدا سے
مٹی کے خزانوں سے، اناجوں سے، غذا سے
برسات سے، طوفان سے، پانی سے، ہوا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

یہ اشعار حمدیہ نظم سے لیے گئے ہیں۔اس بںد میں شاعر اللہ کی ذات کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے کریم رب ہم نے تمہیں تیری ذات کی عطاؤں سے پہچانا ہے۔سورج کا اجالا،یہ فضائیں ، خلا، چاند ستاروں کی چمک وغیرہ سب اس کے ہونے کا ثبوت ہیں۔ہم نے اللہ کی ذات کو جنگل کی خاموشی میں بھی پایا ہے اور بلند و بالا پہاڑ بھی اس کے وجود کا ثبوت ہیں۔پراسرار گھٹائیں اور سمندروں کا سناٹا اس کے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔بجلیوں کی چمک اور بادلوں کی کڑک اللہ کے وجود کی گواہی دیتے ہیں۔وہی ذات ہے جو مٹی میں سے اناج اور طرح طرح کے خزانے مہیا کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم نے اس ذات کو برسات ، طوفان ،پانی ،ہوا ہر ایک چیز کے وجود سے پہچانا ہے۔

گلشن کی بہاروں سے، تو کلیوں کی حیا سے
معصوم سی روتی ہوئی شبنم کی ادا سے
لہراتی ہوئی باد سحر، باد صبا سے
ہر رنگ کے ہر شان کے پھولوں کی قبا سے
چڑیوں کے چہکنے سے تو بلبل کی نوا سے
موتی کی نزاکت سے تو ہیرے کی جلا سے
ہر شے کے جھلکتے ہوئے فن اور کلا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

اس بںد میں شاعر کہتا ہے کہ کسی جگہ پر باغ کی بہاریں اس ذات کے وجود کا ثبوت ہیں تو کہیں کلیوں کے شرمانے سے اور کہیں شبنم کی اداؤں سے اس ذات کو پہچانا ہے۔ جب ہوا لہراتی ہوئی آتی ہے اور یہ باد سحر بادِ نسیم بن جاتی ہے اور ہر رنگ اور شان کے پھولوں سے اس ذات کو پہچانا ہے۔ اس کے ہونے کی گواہی چڑیوں کی چہچہاہٹ اور بلبل کی صدا دیتی ہے۔موتی کی نزاکت اور ہیرے کی چمک اللہ کی ذات کے وجود کی گواہ ہے۔اس دنیا میں موجود ہر ایک چیز کا فن اور کلا اللہ کی موجودگی کی گواہ ہیں اور اس رب کی اسی عطا سے ہم نے اس ذات کو پہچانا ہے۔

دنیا کے حوادث سے ، وفاؤں سے، جفا سے
رنج و غم و آلام سے، دردوں سے، دوا سے
خوشیوں سے، تبسم سے، مریضوں کی شفا سے
بچوں کی شرارت سے تو ماؤں کی دعا سے
نیکی سے، عبادات سے، لغزش سے، خطا سے
خود اپنے ہی سینے کے دھڑکنے کی صدا سے
رحمت تیری ہر گام پہ دیتی ہے دلاسے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس دںیا میں رونما ہونے والے تمام حادثات ،وفاؤں اور جفا سے اس ذات کی پہچان ہوتی ہے.ہمیں پہنچنے والی کوئی بھی تکلیف ، دکھ ، درد اور اس کی دوا ہمیں کسی ذات کے ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ہماری خوشیوں ، تکالیف اور مریضوں کو ملنے والی شفا بھی ہمیں کسی ذات کے وجود کا احساس دلاتی ہے اور وہی ذات اللہ کی ذات ہے۔کہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کی شرارتیں اور کہیں ماں کی دعائیں کسی کی نیکی ، عبادت اور غلطیاں اور ان سب سے پڑھ کر ہمارے اپنے سینے کی دھڑکن ہی ہمیں اللہ کی ذات کے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ اللہ کی ذات کی رحمت ہر لمحہ ہمیں دلاسے دیتی ہےکیونکہ اس کی عطا سے ہی ہم نے اس ذات کو پہچانا ہے۔

  • مشق:

دیے گئے سوالات کے جواب لکھیں۔

حمد میں شامل اُن مظاہر قدرت کا ذکر کریں جن سے انسان بلا واسطہ فائدہ اُٹھاتا ہے۔

انسان سورج کی روشنی ، ستاروں کی چمک، ہوا ، پانی وغیرہ سے بلا واسطہ فائدہ اٹھاتا ہے۔

پہاڑوں کی انا ” سے کیا مراد ہے؟

پہاڑوں کی انا سے مراد بلند و بالا پہاڑوں کا تن کر کھڑا ہونا ہے جنھیں اللہ کی ذات کے سوا کوئی جھکا نہیں سکتا۔

حمد میں پرندوں کا ذکر کس انداز میں کیا گیا ہے؟

حمد میں چڑیوں کی چہچہاہٹ اور بلبل کی نوا کے طور سے پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے،حمد کی روشنی میں اس مصرعے کی وضاحت کریں۔
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے مراد ہے کہ شاعر اللہ کی ذات کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ ہم نے تجھے تیری رحمتوں اور بے پناہ عطاؤں سے پہچانا ہے۔

اللہ تعالی کی رحمت ہمیں ہر قدم پر کس طرح دلاسا دیتی ہے؟

اللہ کی رحمت ہمیں ہر قدم پر ہمارے ساتھ ہونے کا احساس دلا کر ہمیں ہر قدم پر دلاسا دیتی ہے۔

مظاہر فطرت کس طرح اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں؟

مظاہر فطرت وہ عناصر ہیں جو ایک انسان کے بس سے باہر ہیں جب ہم ان نعمتوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں تو ہم پر اللہ کی قدرت کے بھید کھلتے ہیں۔ ان کے تخلیق کرنے والے کا احساس دلاتا ہے۔

سنیے اور بولیے:

  • جنگل کی خموشی سے، پہاڑوں کی انا سے
  • پر ہول سمندر سے، پر اسرار گھٹا سے
  • چڑیوں کے چہکنے سے تو بلبل کی نوا سے
  • موتی کی نزاکت تو ہیرے کی جلا سے
  • نیکی سے عبادات سے لغزش سے خطا سے
  • خود اپنے ہی سینے کے دھڑکنے کی صدا سے

مندرجہ ذیل نظم پارے کو چند طلبہ درست تلفظ ، آہنگ اور حرکات و سکنات کے ساتھ پڑھیں اور اساتذہ کرام طلبہ سے آخر میں دیے گئے زبانی سوالات پوچھیں۔

سورج کے اجالوں سے، فضاؤں سے ، خلا سے
چاند اور ستاروں کی چمک اور ضیا سے
جنگل کی خموشی سے، پہاڑوں کی انا سے
پرہول سمندر سے ، پراسرار گھٹا سے
بجلی کے چمکنے سے ، کڑکنے کی صدا سے
مٹی کے خزانوں سے، اناجوں سے، غذا سے
برسات سے، طوفان سے، پانی سے، ہوا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

شاعر نے کس کے اُجالوں سے اپنے رب کو پہچانا؟

شاعر نے سورج کے اجالوں سے اپنے رب کو پہچانا۔

پر ہول سمندر سے کیا مراد ہے؟

پر ہول سمندر سے مراد لہراتا ہوا خطرناک سمندر ہے۔

زمین میں اللہ نے کیا کیا خزانے چھپارکھے ہیں؟

زمین میں اللہ تعالیٰ نے اناج ، قیمتی موتی ، دھاتیں ، تیل وغیرہ جیسے خزانے چھپا رکھے ہیں۔
کوئی سے دوخزانوں کا ذکر کریں۔

تیل ، اناج

زبان سیکھیے:

صفت عددی ، صفت ذاتی اور صفت نسبتی کی مزید دو دو مثالیں لکھیں۔

صفت عددی: پانچ کلو گھی ، بارہ انڈے ، دو دن۔
صفف ذاتی: کمزور لڑکی، اچھی لڑکی، برا آدمی۔
صفت نسبتی: ایمن آبادی برفی ، گورکھپوری۔

سوچیے اور لکھیے۔

اس حمد کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔

اس نظم میں شاعر نے اللہ کی ذات کی تعریف کی ہے اور شاعر کہتا ہے کہ اس ذات کو ہم نے اس کی عطاؤں کے ذریعے پہچانا ہے۔ سورج کا اجالا،یہ فضائیں ، خلا، چاند ستاروں کی چمک وغیرہ سب اس کے ہونے کا ثبوت ہیں۔ہم نے اللہ کی ذات کو جنگل کی خاموشی میں بھی پایا ہے اور بلند و بالا پہاڑ بھی اس کے وجود کا ثبوت ہیں۔پراسرار گھٹائیں اور سمندروں کا سناٹا اس کے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔بجلیوں کی چمک اور بادلوں کی کڑک اللہ کے وجود کی گواہی دیتے ہیں۔وہی ذات ہے جو مٹی میں سے اناج اور طرح طرح کے خزانے مہیا کرتا ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ ہم نے اس ذات کو برسات ، طوفان ،پانی ،ہوا ہر ایک چیز کے وجود سے پہچانا ہے۔کہ کسی جگہ پر باغ کی بہاریں اس ذات کے وجود کا ثبوت ہیں تو کہیں کلیوں کے شرمانے سے اور کہیں شبنم کی اداؤں سے اس ذات کو پہچانا ہے۔ جب ہوا لہراتی ہوئی آتی ہے اور یہ باد سحر بادِ نسیم بن جاتی ہے اور ہر رنگ اور شان کے پھولوں سے اس ذات کو پہچانا ہے۔ اس کے ہونے کی گواہی چڑیوں کی چہچہاہٹ اور بلبل کی صدا دیتی ہے۔موتی کی نزاکت اور ہیرے کی چمک اللہ کی ذات کے وجود کی گواہ ہے۔

اس دنیا میں موجود ہر ایک چیز کا فن اور کلا اللہ کی موجودگی کی گواہ ہیں۔اس دںیا میں رونما ہونے والے تمام حادثات ،وفاؤں اور جفا سے اس ذات کی پہچان ہوتی ہے.ہمیں پہنچنے والی کوئی بھی تکلیف ، دکھ ، درد اور اس کی دوا ہمیں کسی ذات کے ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ہماری خوشیوں ، تکالیف اور مریضوں کو ملنے والی شفا بھی ہمیں کسی ذات کے وجود کا احساس دلاتی ہے اور وہی ذات اللہ کی ذات ہے۔کہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کی شرارتیں اور کہیں ماں کی دعائیں کسی کی نیکی ، عبادت اور غلطیاں اوران سب سے پڑھ کر ہمارے اپنے سینے کی دھڑکن ہی ہمیں اللہ کی ذات کے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ اللہ کی ذات کی رحمت ہر لمحہ ہمیں دلاسے دیتی ہےکیونکہ اس کی عطا سے ہی ہم نے اس ذات کو پہچانا ہے۔

نظم اور شاعر کا حوالہ دیتے ہوئے درج ذیل بند کی تشریح کریں۔

گلشن کی بہاروں سے، تو کلیوں کی حیا سے
معصوم سی روتی ہوئی شبنم کی ادا سے
لہراتی ہوئی باد سحر، باد صبا سے
ہر رنگ کے ہر شان کے پھولوں کی قبا سے
چڑیوں کے چہکنے سے تو بلبل کی نوا سے
موتی کی نزاکت سے تو ہیرے کی جلا سے
ہر شے کے جھلکتے ہوئے فن اور کلا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

یہ بند حمد نظم میں سے لیا گیا ہے۔ اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسی جگہ پر باغ کی بہاریں اس ذات کے وجود کا ثبوت ہیں تو کہیں کلیوں کے شرمانے سے اور کہیں شبنم کی اداؤں سے اس ذات کو پہچانا ہے۔ جب ہوا لہراتی ہوئی آتی ہے اور یہ باد سحر بادِ نسیم بن جاتی ہے اور ہر رنگ اور شان کے پھولوں سے اس ذات کو پہچانا ہے۔ اس کے ہونے کی گواہی چڑیوں کی چہچہاہٹ اور بلبل کی صدا دیتی ہے۔موتی کی نزاکت اور ہیرے کی چمک اللہ کی ذات کے وجود کی گواہ ہے۔اس دنیا میں موجود ہر ایک چیز کا فن اور کلا اللہ کی موجودگی کی گواہ ہیں اور اس رب کی اسی عطا سے ہم نے اس ذات کو پہچانا ہے۔

مندرجہ ذیل اشعار کی نشان دہی کریں کہ کون سا شعر حمد کا ، نعت کا اور ملی نغمے کا ہے۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

یہ شعر نعتیہ شعر ہے۔

کس سے کہوں دل کا بیاں تیرے سوا،میرے خدا
کوئی نہیں سنتا یہاں، تیرے سوا، میرے خدا

یہ شعرحمد یہ شعر ہے۔

کہتی ہے یہ راہ عمل، آو ہم سب ساتھ چلیں
مشکل ہو یا آسانی ہاتھ میں ڈالیں ہاتھ چلیں

یہ شعرملی نغمے کا شعر ہے۔