Advertisement
  • باب نمبر 11:حصہ نظم
  • سبق کا نام:-غزل: زندگی ہے تو بہر حال بسر بھی ہوگی
  • شاعر کا نام:معین احسن جذبی

اشعار کی تشریح:

زندگی ہے تو بہر حال بسر بھی ہوگی
شام آئی ہے تو آئے کہ سحر بھی ہوگی

تشریح:

یہ شعر معین احسن جذبی کی غزل سے لیا گیا ہے۔اس شعر میں شاعر زندگی کی حقیقت کو دن و رات کے نظام سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ جس طرح شام ہوتی ہے اس کے بعد لازم ہوتا ہے کہ صبح بھی ہوگی ہی کیونکہ یہ نظام فطرت ہے اس دوران چاہے کچھ بھی ہو صبح کے بعد شام اور شام کے بعد صبح ہو ہی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح زندگی بھی قدرت کا ایک طے کردہ عمل ہے۔حالات اچھے ہوں یا برے اس زندگی کو بسر کرنا ہی ہے اور ہر حال میں یہ اچھی یا بری بسر ہو جائے گی۔

Advertisement
پرسش غم کو وہ آئے تو اک عالم ہوگا
دیدنی کیفیت قلب و جگر بھی ہوگی

تشریح:

اس شعر میں شاعر نے اپنے محبوب سے اپنے والہانہ عشق کی کیفیت کو بیان کرتے ہو کہا ہے کہ اگر میرا محبوب میرے پاس میرے غم کی کیفیت یا میری بیماری کا سبب دریافت کرنے آجاتا ہے تو اس وقت جو میری کیفیت ہو گی وہ ناقابل بیان ہے۔اور محض یہی نہیں بلکہ اس لمحے میرے قلب (دل) و جگر کی حالت بھی دیکھنے کے لائق ہوگی۔میری خوشی کی یہ کیفیت الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

منزل عشق پہ یاد آئیں گے کچھ راہ کے غم
مجھ سے لپٹی ہوئی کچھ گرد سفر بھی ہوگی

تشریح:

شاعر اس شعر میں منزل عشق کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر تم عشق کی منزل کے مسافر بنو گے تو یہ منزل تمہارے لیے پھولوں کی سیج ہر گز نہیں ہوگی بلکہ اس کے راستے میں بہت سے غم بھی آئیں گے اور ان غموں کی یاد منزل عشق پر اکثر تمہیں ستائے گی۔عشق کے اس راستے کی کچھ دھول بھی خود سے لپٹی ہوئی ملے گی۔یہاں اس دھول سے شاعر کی مراد عاشق اور عشق کے راستے کی یادیں بھی ہیں جو کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی۔

ہوگا افسردہ ستاروں میں کوئی نالہ صبح
غنچہ گل میں کہیں باد سحر بھی ہوگی

تشریح:

شاعر نے اس شعر میں زندگی کی دو متضاد کیفیات کو بیان کیا ہے کہ زندگی خوشی اور غم کے ملے جلے احساس کا نام ہے۔جیسے کہ صبح کی روشنی نئے دن کی ایک امید بن کر آتی ہے مگر اس کے اندر کہیں افسردہ ستاروں کی آہ و زاریاں بھی پوشیدہ ہوتی ہیں جو صبح کے طلوع ہونے کا نالہ کررہی ہوتی ہیں۔مگر دوسری جانب اس صبح کے طلوع ہونے سے صبح کی تازہ ہوا سے باغ کے پھول کھلکھلا رہے ہوتے ہیں۔

دل اگر دل ہے تو جس راہ پر لے جائے گا
درد مندوں کی وہی راہ گزر بھی ہوگی

تشریح:

اس شعر میں شاعر نے دل کے اوصاف کو بیان کیا ہے کہ انسانی جسم میں دل وہ واحد حصہ ہے جو انسان کے اندر احساس کی کیفیت کو جگاتا ہے۔انسانی دل کا بنیادی وصف درد مندی ہے کہ یہ دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔یوں دل اگر واقعی دل ہے تو وہ دوسروں کا درد ضرور محسوس کرے گا چاہے وہ جس راہ پر ہی چل پڑے وہ درد مندی کا جذبہ کبھی ترک نہیں کرے گا۔

Advertisement

سوالات:

سوال نمبر 1:”زندگی ہے تو بہر حال بسر بھی ہوگی”سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس مصرعے سے شاعر کی مراد ہے کہ زندگی قدرت کا ایک طے کردہ عمل ہے جسے ہمیں ہر طور بسر کرنا ہی ہے۔خوشی اور غم جو بھی کیفیت ہو اسے بسر کرنا ہے اور یہ ہو جائے گی۔

سوال نمبر2:افسردہ ستاروں میں نالہ صبح ہونے کا کیا مطلب ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح ایک عاشق اپنے محبوب سے جدا ہوتے ہوئے افسردہ ہوتا ہے ایسے ہی جب صبح کی روشنی پھیلتی ہے تو ستارے جو کہ رات میں چمکتے ہیں ان پر افسردگی چھا جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ افسردہ ستارے صبح کا نالہ (افسوس) کررہے ہوں۔

سوال نمبر 3:دردمندوں کی راہ گزر کون سی ہے؟

درد مندوں کی راہ گزر ان کا احساس مند دل ہوتا ہے اور دل میں درد مندی کا جذبہ رکھنے والے ہمیشہ انسانیت کا کرب محسوس کرتے ہیں اور ان کی مشکلات میں ان کا ساتھ دے کر ان کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔

عملی کام:

غزل میں مندرجہ ذیل تراکیب استعمال ہوئی ہیں:

پرسشِ غم، کیفیتِ قلب و جگر، منزلِ عشق، گردِسفر،نالہ صبح، بادِسحر، راہ گزر اپنی کتاب سے کچھ ایسی اور ترکیبیں تکاش کرکے لکھیں۔

ترکیب دو یا اس سے زائد الفاظ کا وہ آمیختہ یا مجموعہ ہے جو نئی معنوی تشکیل کے طور پر سامنے آتا ہے … یعنی بعض الفاظ کو دیگر الفاظ پر رکھنا (ملانا) مثلاً:-

Advertisement
امیرِ شہرشہر کا حاکم
اسیرِ غم غم کا اسیر
دیارِ غمغم کا دیار
شبِ قدرقدر کی رات
شبِ برأتبرأت کی رات

شامِ اودھ ،صبحِ بنارس ،خاکِ وطن، گلستانِ ادب وغیرہ