عزم جزم

0

سبق : عزم جزم
مصنف : سرسید احمد خان
ماخوذ از : مقالاتِ سرسید

سوال ۷ : سبق “عزم جزم”کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کیجئے؟

تعارفِ سبق : سبق ” عزم جزم “ کے مصنف کا نام ”سرسید احمد خان“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”مقالاتِ سرسید“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

سر سید احمد خان ۱۸۱۷ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید محمد متقی تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اٹھارہ سال کی عمر میں مکمل کرلی۔ اس کے بعد مُنصِفی کا امتحان پاس کر کے بہ حیثیت منصف ملازم ہوگئے اور ترقی کرتے کرتے جج کے عہدے تک پہنچ گئے۔

آپ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اپنے اخبار ”سیدالاخبار“ سے کیا۔ آپ نے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے ایک رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ نکالا۔ آپ نے علی گڑھ اسکول بھی بنایا جو بعد میں یونی ورسٹی بن گئی۔

آپ کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے ” جوّاد الدّولہ اور عارفِ جنگ“ کے خطابات سے نوازا۔ آپ بلند پایہ نثر نگار، اخبار نویس اور عالم تھے۔ انگریز حکومت نے آپ کو ”سر“ کا خطاب دیا۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں ”آثار الصّنادید، اسبابِ بغاوتِ ہند، خطباتِ احمدیہ اور تاریخِ سرکشی بجنور“ قابلِ ذکر ہیں۔

خلاصہ

سبق عزم جزم میں مصنف سر سید احمد خان نوجوان کی کامیابیوں اور کامیوں اہم عناصر کا تذکرہ کیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کے بچوں میں اپنے لیے بہتر فیصلہ کرنے اور مستقبل کو روشن بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے ان کی رہنمائی کے لیے بڑوں کا فرض ہے کہ جب تک وہ اپنا فیصلہ خود کرنے کا قابل نہیں ہوجاتا اس کے لیے فیصلہ کریں۔ اور جب بچہ اپنے لیے فیصلہ لینے کا اہل ہوجائے تو اس باقاعدہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے رجحان کے مطابق اپنے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرے۔ ترقی یافتہ قومیوں میں یہ رائج ہے کہ ان کے والدین اور مربی بچوں کی دلچسپی اور ان کے خیالات کو مدنظر رکھنے ہوۓ ان کا تعلیمی لائحہ عمل تیار کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے پسندیدہ مضامین میں دلجمی سے محنت کر کے نمایاں کامیابی حاصل کرسکے۔

ہمارے یہاں زیادہ تر والدین چاہتے ہیں کہ جو وہ ہیں وہی ان کے بچے بھی بنیں اور پھر جبرا بچے کو وہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں بچے کی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ محنت کرتا ہے نتیجتاً ناکامیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنے رجحان کو مدنظر رکھتے اپنے تعلیم مکمل کرتا ہے تو وہ کامیاب اور تمیز دار شخص بن جاتا ہے اور کامیابیوں سے ہمکنار ہوجاتا ہے ان کا مستقبل بلکل واضع ہوتا ہے۔
ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تصفے کا مدار عارضی رکھتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ باپ دادا سے ملی دولت یا وراثت ہمیشہ ان کی رہے گی اور ان کی اسی سوچ نے ان کو ڈبویا ہے۔

سوال ۱ : بچپن میں بچوں کی رہنمائی کے لیے بڑوں کا کیا فرض ہے؟

جواب : بچپن میں بچوں میں اپنے لیے بہتر فیصلہ کرنے اور مستقبل کو روشن بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے ان کی رہنمائی کے لیے بڑوں کا فرض ہے کہ جب تک وہ اپنا فیصلہ خود کرنے کا قابل نہیں ہوجاتا اس کے لیے فیصلہ کریں۔

سوال ۲ : بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ان کے والدین اور مربیوں کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

جواب : بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ان کے والدین اور مربیوں کو بچوں کی دلچسپی اور ان کے خیالات کو مدنظر رکھنے ہوۓ ان کا تعلیمی لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے پسندیدہ مضامین میں دلجمی سے محنت کر کے نمایاں کامیابی حاصل کرسکے۔

سوال۳ : ہمارے اکثر طالب علموں میں عزم جزم کیوں پیدا نہیں ہوتا؟

جواب : اکثر طالب علموں میں عزم جزم پیدا نہ ہونے کی وجہ ان کے والدین ہوتے ہیں۔ ان کے نصاب کا انتخاب ان کے رججان کے مطابق نہیں کرتے اور وہ بغیر کسی دلچسپی کے پڑھتے ہیں۔ ان کے پاس مرضی سے فیصلہ لینے کا اختیار نہیں ہوتا ہے اور یہ رویہ ان میں محرومیوں کا احساس پیدا کرتا ہے اور وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سوال ۴ : تعلیم ختم کرنے کے بعد ہر نوجوان کے مستقبل کی کامیابی کا انحصار اس کے کس فیصلے پر ہوتا ہے؟

جواب : تعلیم ختم کرنے کے بعد ہر نوجوان آگے آنے والی عملی زندگی کے کیے پریشان رہتا ہے اگر اس کے نصاب کا انتخاب اس کے رجحان کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہو تو اس کی منزل واضع ہوتی ہے لیکن اگر اس کا نصاب اس کے رجحان کے مطابق نہیں تھا تو مستقبل میں وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے میں ہی الجھ جاتا ہے۔

سوال ٦ : جو لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ امور عارضی پر کرتے ہیں ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟

جواب : جو لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ عارضی امور پر کرتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے اس وجہ یہ ہے کی ان ذہن میں کوئی مثبت لائحہ نہیں ہوتا وہ باپ داد سے ملنے والے نصب اور وراثت پر انحصار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے پاس ہمشہ رہے گا اور اس کی یہی سوچ اس کو ناکامیوں کی طرف لے جاتی ہے۔

سوال ۸ : ذیل کے الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

مربی بچے کے بگڑنے سدھرنے کا دارومدار مربی کی تربیت پر منصر ہوتا ہے۔
بالتحصیص قومی لحاظ سے کسی کو بھی بالتحصیص عظمیت نہیں ہے۔
جاہ و چشم تاج محل شاہ جہان جاہ وچشم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خراب و خستہ کراچی کی سڑکوں کی حالت نہایت خراب وخستہ ہوچکی ہے۔
قادر ہونا اللہ تعالیٰ کا ہرچز پر قادر ہونا ایک مستقل عقیدہ ہے۔
مدار اس نے اپنی ہی انا کے مدار میں قید سب کچھ گنوا دیا۔

سوال ۹ : “عزم کامرانی کی کنجی ہے” اس موضوع پر ایک مضمون تحریر کیجیے۔

عزم کامرانی کی کنجی ہے

زندگی میں جب بھی کسی کام کا ٹھان لیں تو اسے پورا کر گزریں۔ عزم آدھی جیت اور آدھی تکمیل کا نام ہے۔ محمد علی جناح کا قول ہے :
“ایک کام کرنے سے پہلے سو پر سوچ لو پھر اس پر ڈٹ جاؤ۔”
اس قول کی روشنی سے ہمیں یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ عزم کرتے وقت 4 دماغوں سے سوچ لینا چاہئے۔ شش جہت اس کے بارے منفی و مثبت گمانوں کو پرکھ لینا چاہئے، مگر جب تمام تر حساب و کتاب کے بعد جب ایک نتیجہ اپنے پاس محفوظ ہو چکا ہو تو پھر اس پر کار آمد ہونا چاہئے۔

عزم کو کامرانی کی کنجی اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کشتیاں جلا کر جب عزم کرتا ہے تو اپنے سے دوگنا زیادہ فوج کو پچھاڑ دیتا ہے۔ یہ بلند پایہ عزم کا ہی نتیجہ ہے۔ جب خالد بن ولید عزم کرتے ہیں تو پھر سلطنت روم و فارس نیس و نابود ہو جاتی ہے۔ جب عزم ہو تو حیدر بھی مرحب کو پچھاڑ دیتا ہے۔ یہ ساری بات عزم کی ہے جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے۔

قوم کا بیٹا علی صدپارہ جب ملک و قوم کا نام روشن کرنے کو سامان عزم باندھتا ہے تو پھر کے ٹو کی ہولناکی اس کے سامنے کچھ معنی نہیں رکھتی، وہ اقبال کے اس شعر کی مانند ہو جاتا ہے۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

سوال۱۰ : ذیل کے الفاظ کے واحد یا جمع لکھیے :

واحد جمع
عزم عزائم
ذخیرہ ذخائر
فیض فیاض
قصہ قصاص
نبی انبیـــاء
وظیفہ وظائف
نقص نقائص
نقطہ نکات
عیب عیوب

سوال ۱۱ : آپ اسی طرح کے تین تین جملے لکھیے۔

۱) تو یہ ثابت ہوا کے تم کبھی اعتبار کے قابل نہیں ہوسکتے۔
۲) اگر تم اچھا کام کرو تو اجر کا یقین بھی رکھو۔
۳) تو تم کیا کہنا چاہ رہے تھے ؟